بات کرنی ہے لاء کی تو سادی اور سیدھی بات یہ ہے کہ اسلام
میں یہ بہت بڑا نیک کام ہے کسی کی جان بچانا اور آج کل کے وکیل یہ کہتے ہیں
کہ اگر جھوٹ بولنے سے جان بچ سکتی ہے تو ایسا جھوٹ لازمی ہے اس لیے یہ جھوٹ
کے کاروبار کو لاء کہتے ہیں اور وکیل کو لائر کہتے ہیں اور لاء کی توہین اس
لیے جرم قرار دیا گیا ہے کہ جو پہلے ہی جھوٹ ہے اس کی مزید توہین کی کیا
ضرورت ہے لیکن ان لائیرز کو یہ پتا نہیں کہ مجرموں کے جان بچانے سے بے
گناہوں پر ظلم ہو جاتا ہے اور وکیل ظلم اور جھوٹ کے سوا کیا کام کرتے ہیں
اسی لیے تو کسی شاعرنے کہا تھا کہ
پیدا ہوا وکیل تو ابلیس نے کہا آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گیے
اسلام ظالموں کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرتا ہے اور ہر کبیرہ گناہ کا تعلّق
ظلم سے ہوتا ہے اللہ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالی ظالم لوگوں کے اعمال قبول
نہیں فرماتا یعنی ظلم کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کوئی عمل قبول نہیں کرتا جو
آدمی ظلم بھی کرتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے اللہ کے ہاں قبول نہیں ظلم بھی
کرتا ہے اور زکوٰۃ بھی دیتا ہے اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے روضہ رکھتا
ہے ظلم بھی کرتا ہے اس کا روزہ رکھنا اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے لوگوں
کو کھانا کھلاتا ہے اور ظلم کی روش بھی نہین چھوڑ رہا تو کھانا کھلانا بھی
اللہ کے ہاں قبول نہیں ہے قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اور ظلم بھی کرتا ہے
اللہ کے ہاں وہ بھی قابل قبول نہیں ہے والدین کی فرماں برداری رشتہ داروں
سے حسن سلوک جیسے بھی نیک عمل انسان کرتا ہے ظلم کے ہوتے ہوئے کوئی عمل
قابل قبول ہی نہیں ہے جو ظلم کو دیکھتا ہے اور اس کو روکے کی کوشش نہیں
کرتا وہ بھی شریک جرم ہے ظالم کا ساتھی ہے حتّیٰ کہ روز قیامت بھی پوچھا
جائے گا کہ تو نے ظلم کیوں کیا تو انسان کہے گا کہ مجھے مجبور کر دیا گیا
تھا
اور مجھے علم بھی نہیں تھا کہ اس طرح میں اے اللہ تیرے سامنے پیش کیا جاوں
گا اور شیطان نے بہکا دیا تو اللہ تعالیٰ وہ وہ مواقع دکھادے گا اور کہے گا
کہ میرے ان ان بندوں نے تجھے میری آیات نہیں سنائی تھیں مگر تم نے جان بوجھ
کر نہیں مانا اور اللہ فرشتوں سے کہے گا کہ اس کو پکڑ کر جھنّم میں پھینک
دو اور اس کو جھنّم میں پھینک دیا جائے گا
اور اللہ نے فرمایا کہ اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹے
بہتان باندھے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کی تکذیب کرے
بات ہو رہی تھی وکیلوں کی وکیل کرتے کیا ہیں وکیل وہ کام کرتے ہیں جو
اینگری اولڈ مین حسن نثار صاحب کرتے ہیں مجھے ان کی پالیسی کا خفیہ سورسز
سے پتا چلا ہے کہ وہ حکمرانوں کو کمپلیٹلی ناک آوٹ کرنا چاہتے ہیں جیسے
کوئی مخلص انسان سیدھے مشورے دے دے کر دے دے کر اکتا اور جھلّا جائے تو وہ
سوچتا ہے کہ شاید حکمران الٹی کھوپڑی کے ہیں تو وہ الٹے مشورے دینا شروع ہو
جاتا ہے تو فوراََ اس کے مشورے مقبول ہوجاتے ہیں اور وہ ایک خیر خواہ ناراض
ہو کر الٹے مشورے دیتا رہتا ہے تاکہ حکمران اپنے آپ کو اور ملک و قوم کو
تباہ وبرباد کر بیٹھیں اور دشمن ان پر غالب آ جائیں اور ان حکمرانوں کو طرح
طرح کی سزائیں دیں اور ان کے سینے ٹھنڈے ہو سکیں دانش ور بے چارے کیا کریں
ہمارے حکمران ہیں ہی الٹی کھوپڑیوں کے مالک وکیلوں کا کام کیا ہے مسلمان
ملکوں میں سوائے کرپشن کے وکیل نا صرف ظالموں کو مجرموں کو سزا سے بچنے میں
مدد دے سکیں بلکہ کوئی مظلوم عدالت کے دروزے تک ہی نا پہنچ سکے اور ظالم
اپنے ظلموں کا دائرہ وسیع کرتا چلا جائے غیر مسلم وکیل تو بنتے ہی وہ ہیں
جو پرانے لعنتی ہوتے ہیں ان کا لعنتوں پہ لعنتوں پہ لعنتیں بٹورنے کا بڑا
وسیع تجربہ ہوتا ہے مسلمان وکیل ان کا مقابلہ اس وقت تک نہین کر سکتے جب تک
ان سے بڑے لعنتی نا بن جائیں حتّیٰ کہ مظلوم آدمی پہلے ایک سے عزّت گنواتا
ہے پھر ایرے غیرے سے اپنی عزّت اور مال کا جنازہ نکلوا بیٹھتا ہے اور غیرت
مند آدمی تو موت کو ہی گلے لگانے میں ہی عافیّت جانتا ہے - اللہ تعالیٰ ہر
مسلمان کو کورٹ کچہری کے چکر سے بچائے آمین - |