لو وہ بھی کہہ رہے ہیں

صدر مملکت جو سیاسی طور پر اپنی صدارت کی ابتدا سے اب تک خو اب خرگوش کے مزے لے رہے تھے یکایک جاگ گئے ہیں ۔ انہوں نے کبھی بھی حکومت کے بارے کوئی تنقیدی بیان نہیں دیا تھا۔ مگر موجودہ حالات میں وہ ایک دم متحرک نظر آنے لگے ہیں۔ پہلی دفعہ انہوں نے ایک زبردست بیان داغ دیا ہے۔اس بیان کے دینے میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ حالات اس قدر نامواقف ہوتے جا رہے ہیں کہ انسان جن پتوں پر تکیہ کرتا ہے خود بخود ہوا دینے لگتے ہیں۔ صدر صاحب کے بارے مشہور ہے کہ وہ ذاتی رائے کبھی نہیں دیتے بس میاں صاحب کی مرضی کے تابع رہتے ہیں ۔ مگر اب تو صدر صاحب خوب بولے ہیں، فرماتے ہیں،ہماری قوم کو مختلف شعبوں میں حرام خوری کی عادت پڑ گئی ہے۔ مخاطب کون ہے، کہاں حرام خوری بہت ہو رہی ہے،کس کا شعبہ سب سے نمایاں نظر آ رہا ہے۔ ویسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں، سب کو اچھی طرح پتہ ہے۔

مشہور ہے کہ ایک سابق صدر کے دور میں سڑک پرکچھ لوگ نعرے لگا رہے تھے ۔ صدر کتا ہائے ہائے، صدر چور ہائے ہائے۔ پولیس والوں نے صدر کے خلاف ایسے گستاخانہ نعرے لگانے پر انہیں پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا کہ بھائی، ہم اپنے دشمن ملک بھارت کے صدر کو برابھلا کہہ رہے ہیں ،تم ہمیں کیوں پکڑتے ہو۔ پولیس والوں نے کہا کہ ہمارے سامنے کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ بھلا ہمیں نہیں پتہ کہ کون کتا ہے اورکون چور بھی ہے۔ اب صدر مملکت لاکھ وضاحتیں پیش کریں ، لاکھوں دلیلیں دیں،ان کے تعلقات میں دڑار آ ہی جائے گی کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ تاریخ ساز حرام خور کون ہے۔اور حرام خوروں کو خود بھی۔ ان کا برا منانا تو فطری ہے۔

صدر مملکت نے سرکاری ملازمین کے بارے بھی شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کام کی عادت ہی نہیں رہی۔پانی اور بجلی کے حکام کو تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہان تبدیل کرنے کا کہا،لیکن سنی ان سنی کر دی گئی۔مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میری تجاویز پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ صدر صاحب کو شاید پتہ نہیں کہ یہاں کے افسر پہیوں پر چلتے ہیں۔ آپ پہیےہ چلا نہیں سکتے، کام کیسے ہو سکتا ہے۔افسروں کی عادتیں بدل چکی ہیں۔دوسرے اس ملک میں ہر اہم عہدے پر تعیناتی کسی حوالے سے ہوتی ہے جو عموماً سیاسی ہوتا ہے اور وہ حوالہ اس افسر سے اپنے پورے اخراجات چاہے وہ گھر کے ہوں یا سیاسی وصول کرتا ہے۔ اب بھلا کون اپنے رنگ میں آپ کی بھنگ پسند کرے گا۔ اسلام آباد میں تعینات بجلی کا سربراہ خواجہ صاحب کا ذاتی تعلق والا ہے اور IB میں گریڈ سترہ کا افسر ہونے کے باوجود بیسویں گریڈ میں کام کر رہا ہے۔صدر مملکت بے چارے خواجہ صاحب کے حصے جو کچھ معمول کے مطا بق آ رہا ہے اس کے کیوں دشمن ہو رہے ہیں۔ویسے بھی خواجہ صاحب میاں صاحب کے دیرینہ رفیق ہونے کے سبب کسی کی پرواہ کب کرتے ہیں۔

کسی بھی مملکت کا صدر ہونا بہت بڑی بات ہے ۔ دنیا کے اکثر ممالک کے صدر با اختیار ہوتے ہیں۔ لیکن؂ جہاں صدر باختیار نہیں بھی ہوتے۔ ان کے حکم کا پورا احترام کیا جاتا ہے۔ یورپ میں بہت سے ملکوں کے آ ئینی سربراہ بادشاہ ہیں۔ وہ مملکت کے کام میں قطعاً مداخلت نہیں کرتے مگر جہاں کوئی بات غلط محسوس کرتے ہیں، اس کی فوری نشاندہی اپنا فرض جسمجھتے ہیں ۔اور پوری مملکت میں ان کے احترام کا یہ عالم ہے کہ ان کا کہا مقدس سمجھا اور جانا جاتا ہے ۔اس پر عملدرآمد فوری ہوتا ہے۔ کسی گلے یا شکوے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔یہ اعزاز ہمارے خطے ہی کو حاصل ہے کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما ہے مگر سچی بات یہی ہے کہ اب لوہا پوری طرح گرم ہے۔صدر صاحب،آپ کی لگائی ہوئی فقط دو چوٹیں، سارا کام ٹھیک کر دیں گی ، تھوڑی ہمت ضروری ہے۔اگر آپ کر لیں۔سب آپ کی مانیں گے اور پوری طرح احترام بھی کریں گے کیونکہ یہ احترام آپ کا حق اور آپ کے منصب کا تقاضہ ہے۔

جناب ممنون حسین جب صدر تعینات ہوئے تو اس وقت ان کے نزدیک یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ جو یقیناً تھا۔ مگر ایک بے اختیار شخص کے طور پر انہوں نے ایک لمبا عرصہ گزارنے کے بعد محسوس کیا ہو گا کہ اختیارات کے بغیر یہ عہدے اک قید سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ دنیا میں سب سے قیمتی چیز آزادی ہے۔ بات کرنے کی آزادی، بات سننے کی آزادی۔ اٹھنے ، بیٹھنے، کھانے ، پینے ، ملنے جلنے اور ہنسنے کھیلنے کی آزادی۔ مگر صدر کا عہدہ بھی عجیب ہے ، کوئی آزادی نہیں ہوتی اور ستم یہ کہ یہ سب کچھ کھونے کے باوجود اختیار کچھ نہیں۔اس بے اختیاری میں بہت دخل صدر صاحب کے انداز مروت کا بھی ہے۔

نواز شریف اور ان کے حواریوں کے لئے صدر کا یہ لہجہ بڑا عجیب ہو گا۔ مگر یہ صدر کا لہجہ نہیں ،ان کی اپنی کرتوتوں کا ثمر ہے جو صدر کے بیان کی صورت نظر آرہا ہے۔کوئی محکمہ ایسا نہیں کہ جہاں کرپشن اپنی انتہا کو چھوتی نظر نہ آ رہی ہو۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف نے چن چن کر اپنے پسندیدہ جو جونئیر افسر لگائے ہوئے ہیں۔یہ افسر شہباز شریف کے پیمانے کے مطابق انتہائی ایماندار ہیں جبکہ دنیا داری کے پیمانے سے دیکھیں تو یہ فنکار افسر ہر وہ کام کر جاتے ہیں جس سے میاں صاحب خوش ہوں اور اسی خوشی کی آڑ میں وہ لمبے ہاتھ مارتے ہیں ۔ حکمرانوں کو اب بھی بدلتے وقت کا احساس نہیں ہو رہا۔ صدر کا بیان ظاہر کر رہا ہے کہ اب پوری قوم کرپشن کی شدت پر چیخ پکار پر اتر آئی ہے۔ فطری بات ہے کہ ان حالات میں بروٹس بھی انہی کی صفوں سے ظاہر ہونگے۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500567 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More