گزشتہ دنوں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف عزیز صاحب کا
ناقابل یقین بیان ’’کچھ یوں اخبارات کی زینت بنا کہ حافظ سعید معاشرے کے
لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔‘‘ یقین جانئے میں ذاتی طور پر خواجہ آصف
عزیز کے اس بیان سے نہ صرف سو فی صد متفق ہوں بلکہ اس سے بڑھ کر ئی سمجھتا
ہوں کہ وہ معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہو چکے ہیں ۔میں یہ کہنے اور سمجھنے
میں کیوں حق بجانب ہوں یہ بات جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف مسئلہ
کشمیر کے پس منظر ، حکومتی پالیسیوں ،اور اقوام متحدہ کے کردار سے پوری طرح
آگاہ ہوں بلکہ ہمیں اس بات کا بھی پوری طرح ادراک ہو کہ حافظ سعید کس طرح
کے معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ اسی ضمن میں چند
گذارشات پیش کرنا چاہتا ہوں سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے پس
منظر پر روشنی ڈالیں جس کے بارے میں پاکستانی قوم پوری طرح آگاہ نہیں ہے ۔
جغرافیائی اعتبار سے کشمیر پاکستان کے شمال مشرق میں واقع ہے کشمیر کی
سرحدیں ایک طرف پاکستان جبکہ دوسری طرف بھارت اور چین کے ساتھ بھی ملتی
ہیں۔ کشمیر شروع سے ہی ایک آزاد خود مختار ریاست تھی جس میں مسلمانوں کی
اکثریت ہونے کے باوجودحکومت بدقسمتی سے ڈوگرہ راجوں کے پاس تھی16مارچ
1846ء میں اس وقت کے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ نے بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر
کے تحت رائج الوقت سکہ 75لاکھ نانک شاہی میں انگریزوں کے ساتھ کشمیر کا
سودا کر دیا جس سے کشمیر انگریزوں کے تسلط میں چلا گیا۔تقسیم ہند کے وقت
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی قیادت میں وضع کیے گئے قوانین کے مطابق مسلم اکثریت کے
علاقے پاکستان کاحصہ اور ہندو اکثریت کے علاقے ہندوستان کا حصہ قرار پائے
تھے ۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور اس وقت ہری سنگھ نامی ڈوگرہ
راجہ کشمیر پر حکمران تھا جس نے تمام اصولوں اور قواعد وضوابط کو پس پشت
ڈالتے ہوئے 27اکتوبر 1947ء کو انڈیا کے ساتھ اتحاد کا اعلان کر دیا بھارتی
حکومت کے سیکرٹری وی پی مینن نے اسی روز جموں میں انڈیا کے ساتھ الحاق کی
قرارداد پر کشمیری راجہ ہری سنگھ کیے دستخط کروائے ۔ جس پر کشمیری مسلمانوں
نے بھرپور احتجاج کیا تو راجہ ہری سنگھ نے بھارتی حکومت کو مددکی درخواست
دی اس درخواست کو بنیاد بنا کر بھارتی حکومت نے اپنی فوج کے ذریعے کشمیر پر
ہلہ بول دیا ۔ اس موقع پر پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بانی پاکستان
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستانی افواج کے کمانڈرانچیف جنرل گریسی کو
کشمیریوں کی مدد کے لیے حملے کا حکم دیا تو اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا
۔ اس کے بعد کشمیری نوجوانوں اور قبائلی پٹھانوں نے مولانا فضل الہی
وزیرآبادی رحمۃ اﷲ علیہ کی قیادت میں انڈین آرمی کے خاف نہ صرف جہاد کا
اعلان کیا بلکہ عملاً جہاد کرتے ہوئے کشمیر کا بہت سارا علاقہ انڈین آرمی
سے آزاد کروالیا جسے آج آزاد جموں و کشمیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔سری
نگر کی طرف مجاہدین کی پیشقدمی بھرپور انداز سے جاری تھی کہ انڈیا نے مکمل
کشمیر ہاتھ سے جاتے ہوئے دیکھ کر یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ میں جنگ
بندی کی درخواست پیش کر دی بھارت نے اقوام متحدہ میں اس بات کی گارنٹی دی
کہ جنگ بندی کے بعد کشمیریوں کو حق رائے دہی کا موقع دیا جائے گا تب سلامتی
کونسل کی طرف سے باقاعدہ طور پر جنگ بندی کی اپیل کی گئی ۔ اور 20جنوری
1948ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیر کمیشن کا تقرر کیا گیا ۔21فروری
1948ء میں سلامتی کونسل نے استصواب رائے کی منظورکردہ قراردادوں پر
عملدرآمد کروانے کے لیے کمشن قائم کیا جس نے منصفانہ طورپررائے شماری
کروانا تھی ۔ 21 اپریل 1948ء میں سیکورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 47کے
ذریعے فیصلہ دیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل استصواب رائے کے ذریعے کروایا جائے
گا ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل رائے شماری کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے گئے
۔ 13اگست 1948ء کو اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو چند
دنوں کے اندر جنگ بندی کا آرڈر دیا تاہم جنگ بندی کے اس حکم پر یکم جنوری
1949ء کو عملدرآمد ہوا۔ 5جنوری 1949ء سلامتی کونسل کی طرف سے اعلان کیا
گیا کہ صرف اور صرف استصواب رائے ہی مسئلہ کشمیر کا اصل حل ہے نیز مہاراجہ
ہری سنگھ کو لاکھوں کشمیریوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔
جون1953ء میں محمد علی بوگرا اور پنڈت نہرو کے درمیان کراچی میں ہونے والی
ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں بھی استصواب رائے پر اتفاق کیا گیا لیکن
افسوس کہ نہ تو اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں پر عمل کروانے میں دلچسپی لی
اور نہ ہی انڈیا نے اپنے وعدوں کی پاسداری کی اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں
نے اس پر کوئی مؤثر حکمت عملی اختیار کی ۔آخرکار کشمیری عوام نے انڈین آرمی
کے مسلسل ظلم و ستم سے تنگ آکر پھر سے 90ء کی دہائی میں انڈین آرمی کے خلاف
جہاد کااعلان کردیا۔ اس کے بعد پاکستان میں بھی عوامی سطح پر ایسے لوگ تیار
ہوگئے جنہوں نے کشمیر میں عملاً جہادکرتے ہوئے قربانیوں کی ایک لازوال
داستان رقم کردی ایسے لوگوں کی سرپرست اور پشتیبان وہی شخصیت تھی جنہیں آج
لوگ حافظ سعید کے نام سے جانتے ہیں جو نہ صرف انڈیا کے معتوب ہیں بلکہ
امریکہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ انڈین نوازحکمرانوں اور سیاستدانوں کے بھی
معتوب ہیں۔انڈیاکے دباؤپر اقوام متحدہ حافظ محمد سعید اور اسکی جماعت کو
دہشتگرد قرار دے چکی ہے ۔ اصولی طورپر پاکستانی گورنمنٹ کو اس کے خلاف آواز
اٹھانی چاہیے تھی کیونکہ اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت اگر کسی ملک کے شہری
کودہشت گرد قرار دیا جاتا ہے تو اس ملک کی حکومت چاہے تو اس کے خلاف اپیل
کرسکتی ہے اور اپنے شہری کے دفاع کا پوراپوراحق رکھتی ہے لیکن افسوس کہ
اقوام متحدہ کے اس غلط فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی بجائے ہمارے ناعاقبت
اندیش حکمرانوں نے بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں ۔ جبکہ
پاکستان کا مؤقف اس سلسلہ میں بہت مضبوط تھا کیونکہ ایک تو کنٹرول لائن
کوئی مستقل بارڈرکی حیثیت نہیں رکھتی جسے کراس نہ کیا جاسکتا ہو ۔ دوسرا
اپنے جائز حق کو حاصل کرنے کے لیے اسلحہ اٹھانے والے کو دہشتگرد قرار نہیں
دیا جاسکتا بلکہ وہ فریڈم فائٹرکہلاتا ہے ۔ تیسری بات یہ کہ حافظ محمد سعید
کے کنٹرول لائن یا بارڈر کراس کرنے کا کوئی بھی ثبوت کسی کے پاس نہیں۔چوتھی
بات یہ کہ پاکستان حافظ سعید کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعملدرآمد
نہ کرنے کویہ کہہ کر بطور ہتھیار استعمال کر سکتا تھا کہ پہلے اس ملک کے
خلاف کاروائی کی جائے جس نے ستر سالوں سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل
نہ کرکے اپنے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے نیز سب سے پہلے
اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کے متعلق اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کروائے تب ہم
بھی حافظ سعید کے خلاف قرارادادوں پر عمل کریں گے افسوس کہ ایسا نہیں ہوا
بلکہ اس کے برعکس وطن عزیز میں بھارتی ایجنٹوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی بلکہ
یہ کہنابجانہ ہوگا کہ بھارتی ایجنٹوں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے ۔ اس بات
کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ آج تک ان حکمرانوں نے کلبھوشن یادیو کے
معاملے کو بین الاقوامی سطح پر نہیں اٹھایا ۔جسکی تازہ مثال حال ہی میں
جرمنی میں ہونے والی سیکورٹی کانفرنس میں بجائے اس بات کہ کہ بھارتی دہشت
گردی کو اجاگر کیا جاتااوربھارت کے مکروح چہرے کو سامنے لایاجاتاجبکہ انڈین
حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو کی پاکستان میں گرفتاری اور پاکستان کو
دولخت کرنے کے بارے میں بھارتی وزیراعظم مودی کا بنگلہ دیش میں دیا جانے
والا بیان اعتراف کی شکل میں موجود ہے اس کے برعکس یہ نئی پھلجھڑی چھوڑ دی
کہ حافظ سعید معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ بالواسطہ
طورپرملک میں اور ملک سے باہر دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ جی ہاں یہ بھی تو
حقیقت ہے کہ انڈیا نے حال ہی میں افغانستاں کے ذریعے وطن عزیز میں جو بم
دھماکے کرکے سینکڑوں نعشوں کا تحفہ پیش کیا ہے وہ دہشت گردی نہیں بلکہ دہشت
گردی تویہ ہے کہ حافظ سعید کی جماعت کے کارکن ان زخمیوں کی مرہم پٹی اور
امداد کے لیے سب سے پہلے کیوں پہنچ گئے اگر پاکستانی عوام مرتی ہے تو انہیں
مرنے دیتے ،تھرپارکر میں حکومتی نااہلی کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کوبھوک پیاس
سے ایڑھیا ں رگڑرگڑ کر مرنے دیتے ان مفلوک الحال لوگوں کے لیے کنویں کھود
کر میٹھا پانی مہیا کرکے اور خوراک اور مناسب علاج کا بندوبست کرکے اتنی
بڑی دہشتگردی تو ہی کی ہے اور ویسے بھی حافظ سعید اور اس کی جماعت معاشرے
کے لیے خطرناک ثابت ہوچکے ہیں کیونکہ وہ معاشرے میں یہ شعور جو بیدار کر
رہے ہیں کہ فرقہ واریت اور تکفیریت ملک و ملت کے لیے زہرقاتل ہیں جی ہاں
حافظ سعید اس بدامنی ،تکفیریت،دہشتگردی اور فرقہ واریت سے بھرپور معاشرے کے
لیے بہت بڑاخطرہ ثابت ہورہے ہیں کیونکہ وہ باغی لوگوں کو پیارومحبت اور
خدمت خلق کے ذریعے محب وطن بنانے میں اہم کردار جو ادا کر رہے ہیں ۔ جی ہاں
حافظ سعید معاشرے کے لیے خطرہ بن چکے ہیں کیونکہ وہ انڈیا کے ساتھ تجارت کے
خلاف ہیں اور عوام کو یہ سچ ببانگ دہل بتا رہے ہیں کہ 2006ء میں بھارت کے
ساتھ تجارت میں پاکستان کو 510ملین ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑا2015,16میں
دونوں ممالک کا باہمی تجارتی حجم 2612 ملین ڈالرتک پہنچ گیا جس میں پاکستان
نے بھارت سے 2171ملین ڈالر کی اشیاء درآمد کی اور صرف 441ملین ڈالر کی
اشیاء بھارت کو برآمد کیں 10سال بعد باہمی تجارتی خسارہ 510ملین ڈالر سے
بڑھ کر 1730ملین ڈالر تک پہنچ گیا ۔ جی ہاں اگر حافظ سعید کشمیر پر مؤثر
آواز نہ اٹھاتے اور انڈیا کی آبی دہشت گردی سے عوام کو آگاہ نہ کرتے توشاید
وہ ایسے معاشرے کے لئے خطرناک ثابت نہ ہوتے جس میں حکمران ملکی مفاد کی
بجائے فقط اپنا مفاد عزیز رکھتے ہوں۔ |