کیا تمہیں معلوم نہیں

شام کو کام کاج سے فراغت کے بعد دونوں دوست قریبی پارک میں چلے جاتے۔ چہل قدمی کے ساتھ ساتھ تاڑا تاڑی کا شغل بھی جاری و ساری رہتا۔

علاقے کی یہ واحد تفریح گاہ تھی جہاں شام کو شوریفا اور عموم بھی گھر والوں کے ساتھ تازہ اور صاف شفاف ہوا خوری کے لیے چلے آتے تھے۔ ہوا خوری کے ساتھ ساتھ پہونڈی کا عمل بھی زور و شور سے جاری رہتا۔ یہ معاملہ یک طرفہ نہ تھا۔ صنف نازک ادائیں اور صنف غیر نازک مردانہ جواہر کا مظاہرہ کرتے۔ مسکانوں اور اشاروں کی زبان میں بہت کچھ کہا سنا جاتا۔

کچھ جوان اور جواننیاں کا آنا ہی تاڑا تاڑی کے لیے ہوتا تھا لہذا ان کے معاملے کو ان سب سے الگ رکھا جا سکتا ہے۔ ایک آدھ اڑپھس بھی ہو رہتی۔ پہلے سے پھسوں کی انجوائےمنٹ دوسروں سے قطعی الگ تر ہوتی۔
بوڑھے اپنی بیماری کا رونا روتے۔ دواؤں اور ٹسٹوں پر گفتگو کرتے۔

جگہ جگہ بیبیوں کے چغلیوں اور بخلیوں پر مشتمل مشاہرے ہو رہے ہوتے۔ آنسو اور بےمعنی و بامعنی جعلی اور نیم اصلی لفظوں کے رونے دیکھنے کو ملتے۔

ایک دن ان دونوں میں سے ایک دوست کا دوست بھی چہل قدمی کے لیے ساتھ آیا ہوا تھا۔ وہ دونوں حسب روٹین چہل قدمی کے ساتھ ساتھ تانکا جھانکی میں مصروف تھے۔ وہ جوان حوروں کے حسن سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن یہ مہمان دوست بوڑھی اور آدھ کھڑھ بیبیوں کا حدود اربعہ ناپ رہے تھے۔

حمید نے توقیر سے ماجرہ پوچھا کہ تمہارا دوست بھی عجیب ہے۔ حسن کی شہزادیوں کو چھوڑ کر پرانی بوسیدہ اور بوریوں کو ہی کیوں اتنی دل چسپی اور پیار سے دیکھ رہا ہے۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اور کہنے لگا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ کباڑہ ہے۔ کباڑ میں جو جوہروگوہر اسے نظر آتے ہیں ہمیں نظر نہیں آتے۔

حمید نے اپنے دوست تنویر سے کہا یار کسی دن اس کے پاس جا کر اس فیلڈ کا بھی نالج حاصل کرتے ہیں۔ وہ پھر ہنسا اور کہنے لگا: چھوڑو اپنی اپنی فیلڈ ہے ہر کسی کو اپنی ہی فیلڈ سے وابستہ رہنا چاہیے۔ یہ ہی درست اور بہتر ہوتا ہے۔

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 194471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.