قیامت دیکھیے

مردود رد سے ہے۔ رد کی گئی چیز پسند میں نہیں آنی چاہیے۔ سچائی اور نیاؤ کی تو یہ ہی ہے لیکن عمل سے سوائے محدودے چند اس سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ منہ زبانی رد پر لعنت کرنے اور پناہ مانگنے والے ہی اسی کی آغوش میں آسودگی محسوس کرتے چلے آئے ہیں‘ جب کہ اس سے کوسوں دور بسنے والے گنتی کے چند ان زبانی کلامی کی پناہ ماگنے والوں کے ہاتھوں درد اور کرب کی صلیب پر مصلوب ہوتے آئے ہیں۔
منفی کا ردعمل معلوم ہوتے‘ اس کے موڈھی کے دیکھائے گئے حسن و جمال کی گرہ میں بڑے بڑے یودھا بندھ گئے ہیں اور انہیں نتائج کی کبھی پرواہ نہیں رہی۔ اس کے نتیجہ میں ہوئی بربادی سے اگلا شکار عبرت نہیں لیتا۔ عجب حقیقت ہے کہ بربادی کے نشانات کو دیکھ کر بھی اس راہ کو تیاگنا مشکل ترین عمل رہا ہے۔
برائی یا خرابی کو زبان سے برا یا خراب کہنا ہی کافی نہیں ہوتا جب تک اسے عمل میں داخل نہیں کیا جاتا۔ بلا اجتناب وہ برائی یا خرابی نہیں کہلا سکتی۔ ہر مرتشی رشوت کے خلاف لمبا چوڑا لیکچر دیتا نظر ائے گا لیکن اس کی رشوت کے بغیر آنکھ کی قبض نہیں ٹوٹتی۔

شبانہ کی ماں پسا کوئلہ اور پسے کچے چاول رات سوتے وقت کھاتی اور اس کے بعد چائے پیتی تھی۔ خیر دن کو بھی کبھی کبھی ان اشیا کو کھا کر لطف اندوز ہوتی تھی۔ یہ عادت بد اس کے لیے عادت بد نہ تھی۔ شدید علالت کا شکار ہوئی۔ سسک سسک کر دم دیا۔ اس کی عبرت ناک موت کا منظر دیکھ کر لوگ کانپ کانپ گئے اور توبہ توبہ کر اٹھے۔

وہ روکنے پر بھی نہ رکی تھی۔ باریک نظر کی خبر گیری کے باوجود کوئی ناکوئی چور رستہ نکال ہی لیتی۔ اسے معلوم تھا یہ شغل اسے رفتہ رفتہ موت کی جانب لے جا رہا ہے اس کے باوجود اس نے اس علت بد سے ہاتھ نہ کھنچا بل کہ روکنے والوں کو وہ اپنا دشمن سمجھتی تھی حالاں کہ وہ ہی اس کی جان کے سجن تھے۔ ہسپتال کے خرچے اور لے جانے کی صعوبت اپنی جگہ وہ چاہتے تھے کہ شبانہ کی ماں جان سے نہ جائے اور آسودہ زندگی بسر کرے۔ دوا دارو میں معمولی نوعیت کے تساہل پر بھی وہ بھڑک اٹھتی۔

اس کی کرب ناک موت کو دیکھ کر ہر کسی کا کانوں کو ہاتھ لگانا بنتا ہے۔ قیامت دیکھیے اس کی بہو کے سامنے اس کی موت ہوئی وہ بھی اس علت بد کا شکار ہو گئی۔ ان دنوں شفاخانؤں کی خاک چھان رہی ہے۔ ادویات کیا کام کریں گی جب کہ وہ اس صلیب پر لٹکا رہنے میں آسودگی محسوس کرتی ہے۔ گھر والے پہرہ دیتے ہیں لیکن کڑی نگرانی میں بھی روزانہ کسی ناکسی طرح داؤ لگا ہی لیتی ہے۔ دیکھو کب موت کو پیاری ہوتی ہے۔

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.