ثناء کی عمر مشکل سے سولہ سال تھی کے اس کے والد کی موت
واقعہ ہو گئی ماں کو جگر کا عارضہ لاحق تھا ۔چھوٹا بھائی ساتویں جماعت میں
پڑھ رہا تھا باپ کی وفات کے بعد گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہو رہا تھا ۔تو
ثناء نے سوچا کہ کہیں نوکری کی جائے سو نوکری کی تلاش میں نکل پڑی۔میٹرک
پاس تھی نوکری کون دیتا ۔وہ بیچاری بیشمار دفاتر کی خاک چھانتی رہی ۔بلآخر
وہ ایک دفتر میں پہنچی وہاں استقبالیہ پر بیٹھی ماڈرن خاتون نے ثناء کو کہا
کہ ہمیں ایک لیڈی سیکریٹری کی ضرورت ہے ۔باس میٹنگ میں ہیں فارغ ہوں تو مل
لو ۔ثنا کو تھوڑا حوصلہ ہوا ۔اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگی ۔ثناء کے انتظار
کی گھڑیاں ختم ہوئیں باس کی میٹنگ اختتام پزیر ہوئی ۔باس نے اندر بلایا
جیسے ہی ثناء دفتر میں داخل ہوئی باس نے دیکھتے ہی چیخنا شروع کر دیا کہ تم
کسی مدرسے میں پڑھنے آئی ہو یا جاب کے لیے آئی ہو ۔بتاتا چلوں ثنا ء ایک
مشرقی لڑکی جو نقاب برقعہ میں تھی ۔ثناء ایک دم چکرا سی گئی کہ وہ پاکستان
میں ہے یا یورپ میں جہاں برقعہ پہننے پر اتنا غصہ کیا جا رہا ہے ۔ان ہی
سوچوں میں گم تھی کہ باس نے کہا جائو یہ برقعہ اور نقاب اتار کے آؤ ۔ثناء
نا چاہتے ہوئے بھی باہر چلی گئی اور برقعہ نقاب اتار کے آ گئی ۔جیسے ہی
اندر داخل ہوئی تو باس کے چہرے کی شیطانی مسکراہٹ نے ثنا کا استقبال کیا
۔ثنا کو لگ ہی نہیں رہا تھا کے یہ وہ ہی پہلے والا باس ہے ۔خیر پہلے تو باس
نے ثنا کی خوبصورتی کی تعریف کی پھر یہ پوچھنے لگا کہ پہلے تم نے کہیں جاب
کی ہے ؟پبلک ڈیلنگ آتی ہے ؟وغیرہ وغیرہ .
تعلیم کے بارے میں کوئی سوال نہ پوچھا گیا ۔ثناء تذبذب کا شکار تھی کہ یہ
کیسا انٹرویو ہو رہا ہے ۔ثناء نے یہ نام ہی پہلی بار سنے تھے ۔لیکن اسکو
نوکری چاہیے تھی سو وہ ہاں یا نہ میں جواب دیتی رہی ۔آخر میں باس نے کہا کہ
اگر تم یہ برقعہ نقاب اتار کر ایک ماڈرن لڑکی بن جاؤ تو یہ نوکری پکی سمجھو
۔تنخواہ بھی اچھی دوں گا ۔ثناء نے ایک دن کی مہلت لی اور گھر واپس چلی گئی
۔گھر پہنچ کر اس نے یہ ساری بات ماں سے کہہ ڈالی ۔ماں نے کہا بیٹی یہ لوگ
مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے تم نوکری کو رہنے دو ۔ہم بھوکے رہ لیں گے ۔ماں نے
اسکو احادیث کا حوالہ بھی دیا ۔
"حیا ایمان کا اک بڑا حصہ ہے "
سنن النسائ(- 5021)
"بے حیاء جس چیز میں ہوگی اسے عیب دار بنادے گی،جبکہ حیا جس چیز میں ہوگی
اسے خوبصورت بنا دے گی"سنن الترمذی۔۔1974) )
اور سب سے اہم بات۔
"حیا جنت میں لے جانے کا ذریعہ ہے"
سنن الترمذی۔۔2009))
لیکن ثنا کو اپنے گھر کی فکر تھی اپنے بھائی کے مستقبل کی فکر تھی سو رات
بھر سوچنے کے بعد ثناء نے فیصلہ کر لیا کے اپنے گھر کی خاطر میں یہ سب کر
لوں گی ۔ ثناء نے اپنی کسی ماڈرن دوست سے جینز اور شرٹ مانگی اور دوسرے دن
وہ ایک ماڈرن لڑکی بن کر نوکری کے لیے تیار ہو گئی .جیسے ہی اپنے گھر سے
نکلی تو گلی میں آتے جاتے لوگوں نے حیرت اور عجیب نگاہوں سے دیکھنے لگے
۔جیسے وہ اپنی نظروں سے ثنا کا ایکسرے کر رہے ہوں ۔سٹاپ پر پہنچی تو
سینکڑوں لوگ اپنی گندی نظروں کے تیر ثناء کے جس میں پیوست کر رہے تھے ۔خدا
خدا کر کے گاڑی آئی تو ثناء سوار ہو کر اپنے نئے دفتر کی طرف روانہ ہو گئی
۔دفتر پہنچی تو سارے لوگ حیران ہوئے کہ یہ و ہی ثنا ہے جو کل ڈری سہمی ہوئی
ایک مشرقی لڑکی تھی آج یہ اتنا بڑا بدلائو کیسے آ گیا ۔انکو کیا پتہ ثناء
کو کتنی مجبوری میں ایسا بننا پڑا ۔ہر آدمی تعریف کیے جا رہا تھا ۔صاحب کی
آمد ہوئی تو انہوں نے بھی رسمی کلمات ادا کیے اور پرائیویٹ سیکریٹری کے کام
سمجھانے لگے ۔ثنا نے سر ہلا کر جی سر کہا اور اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی
۔اس کے بعد دفتر میں بیشمار لوگوں کا آنا ہوا ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو
ثناء کو اپنی ہوس زدہ نظروں سے دیکھتے رہے۔صبح سے لے کر دن بھر طرح طرح کے
لوگوں نے من ہی من میں ثنا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا دیا ۔یہ سارا کچھ ثناء
دیکھ بھی رہی تھی اور محسوس بھی کر رہی تھی ۔بہت ہی کرب میں ثناء نے دن
گزارا ۔اس ماحول میں گھٹن کا شکار ثناء جیسے چھٹی کا انتظار کر رہی تھی
۔جیسے ہی چھٹی ہوئی ثناء سٹاپ کی طرف چل دی ۔گاڑی آئی سوار ہو گئی لیکن وہ
گاڑی میں بھی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہی تھی ۔اس کا سٹاپ آیا اتر کر
تیزی سے اپنے گھر کی طرف چلنے لگی ۔اندھیرا ہو رہا تھا کچھ اوباش بھی ثناء
پر آوازیں کس رہے تھے ۔ثناء کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ سارے بھوکے شیر
ہیں اور وہ انکا شکار ۔ذرا بھی رکی تو یہ سب اس کو کو نوچ ڈالیں گے ۔جیسے
ہی گھر کے اندر داخل ہوئی اپنا بیگ ایک طرف پھینکا اور دروازے کو کنڈی لگا
کر بستر پر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کر لیں ۔ایسا محسوس کر رہی تھی جیسے
اسکا بدن تیروں سے چھلنی ہو چکا ہے۔اس کے جسم سے خون بہہ رہا ہے ۔اور سوچ
رہی تھی کہ بنت حوا کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟اسکا کردار اسکی قابلیت
کیوں نہیں دیکھی جاتی؟ اسکا جسم اور لباس ان چیزوں پر کیوں حاوی ہے ؟ماں نے
دروازہ کھٹکھٹایا ثنا ء نے دروازہ کھولا اور ماں کے گلے لگ کے رونے لگ گئی
۔ماں سمجھ گئی کے کچھ تو غلط ہوا ہے ۔ماں نے حوصلہ دیا اور کہنے لگی کہ میں
نے تمیں پہلے ہی منع کیا تھا ۔ ثناء چپ ہوئی اور فیصلہ کیا کہ آج کے بعد
نوکری کے لیے باہر نہیں جائے گی ۔اس کے بعد ثنا نے گھر میں محلے کے بچوں کو
ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا ۔اور گھر کا خرچہ چلانے لگی ۔یہ تو ایک ثناء کی
کہانی تھی اس ملک میں ہزاروں ثناء روز ہی حواس کا شکار ہوتی ہیں ۔ہم لوگ
کیوں انکی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں ؟
میری آدم کے بیٹوں سے اتنی سی گزارش ہے کہ حوا کی بیٹی پر یہ ظلم نہ کریں
آپکے گھر میں بھی حوا کی بیٹی ہے ۔ |