پتافی کے بعد مروت ۔ بختاور اور آصفہ کا دو ٹوک موقف
(Riaz Jazib, Dera Ghazi Khan)
بیمار ذہنیت کے لوگوں کو جیل میں سڑنا
چاہئے، ایسے لوگوں کو پارٹی میں نہیں لینا چاہئے۔ عرفان اﷲ مرووت کے پارٹی
میں شمولیت کے اعلان کے موقع پر آصفہ زرداری بھٹو صاحبہ نے یہ ٹویٹ کیا
ہے۔ٹویٹ سماجی رابطے کی ایک ایپس ٹوئٹر ہے جوکہ فیس بک کے مقابلے استعمال
تو کم ہوتا ہے مگرمحفوظ زیادہ ہے۔ اس میں الفاظ کی گنجائش بھی کم ہے۔ ٹوئٹر
اس سال 21 مارچ کو گیارہ برس کا ہو جائے گا۔ ٹوئٹر کے بانی نے اپنی پہلی
ٹویٹ لکھی تھی کہ ٹوئٹر کل کیسا ہو گا یہ کوئی نہیں جانتا مگر گزرے کل
ٹوئٹر کافی دلچسپ ہوگا۔
واقعی ایسا ہی ہوا ہے بہت کم عرصہ میں ٹوئٹر نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی
ہے۔ ہر کوئی ٹوئٹر کا استعمال کرتا ہے۔ مشہور کھلاڑی، اداکار ہوں یا کسی
ملک کا صدر ، وزیر اعظم اسی طرح سیاستدان سبھی اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان
میں بھی سبھی بڑے لوگوں کے ٹوئٹر اکاونٹ بنے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر
سیاسدانوں نے لازمی طور پر ٹوئٹر پر ہیں۔ سیاسی بیان ، نیوز وغیرہ موقف
دینے میں اب سب سے زیادہ انحصار ٹویٹ پر ہی کیا جاتا ہے۔ ہمارے میں ملک میں
بھی ٹویٹ نیوز کو مقبولیت حاصل ہے۔
پاکستان میں ٹویٹ کو زیادہ مقبولیت علامہ طاہرالقادری اور عمران خاں کے
دھرنا کے دوران ہوئی ،اس سے پہلے پاک فوج کے ترجمان بھی ٹویٹ کا استعمال
کررہے ہیں ان کی ٹویٹ بھی سرخی میں لگتے ہیں۔ پاناما کے ہنگامہ میں بھی
ٹویٹ نے دھوم مچائی رکھی اس میں محترمہ مریم نواز صاحبہ اور عمران خان کے
ٹویٹ زیادہ اہم ہیں،مریم نواز شریف صاحبہ کے ٹویٹ پی ٹی آئی کے حوالے سے
بہت پسند کئے گئے۔ اس عرصہ میں سب سے اہم ٹویٹ محترمہ آصفہ اور بختاور
زرداری بھٹو صاحبہ کے ٹویٹ ہیں۔ رواں سال میں ان کے دو اہم ٹویٹ تاریخی
حیثیت اختیار کرگئے ہیں پہلا امداد پتافی اور نصرت سحر عباسی کے تناظر میں
دوسر ا عرفان اﷲ مروت کی پارٹی میں شمولیت پر کیا جانے والا ٹویٹ ہے۔
سندھ اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران جب صوبائی وزیر امداد پتافی نے اپوزیشن
کی خاتون ممبر پر ذو معنی جملوں سے حملہ کیا تو خاتون ممبر نصرت سحر عباسی
نے اس کے خلاف انتہائی سطح پر جاکر احتجاج کیا اس دوران ہر کوئی ان کا
حمایتی تھا۔ خاتون ہونے کے ناطے ان کو نشانہ بنایا گیا اور یہ باقاعدہ
ہراسمنٹ تھی جوکہ کسی اور جگہ نہیں قانون منظور کرنے والی پارلیمنٹ میں کی
گئی۔بلاشبہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ مگر پارٹی کو نئی
زندگی ایک خاتون محترمہ بے نظیر بھٹو نے دی اور خود بھی قربان ہوگئیں۔ بھلا
کیسے بے نظیر کی بیٹیاں اس سارے معاملے پر چپ رہتیں۔ انھوں نے امداد پتافی
کی آڑَے ہاتھوں کلاس لی اور مجبور کیا کہ وہ نصرت سحر عباسی سے معافی مانگی
’’عورت کا درد ‘‘ایک عورت سے زیادہ بھلا کوئی اور کیاجانے گا۔ محترمہ کی
محترم بیٹوں نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ وہ (نصرت سحر)اپوزیشن کی پارٹی
سے تعلق رکھتی ہیں۔ دراصل یہ معاملہ سیاسی تھا ہی نہیں عورت کے احترام کا
معاملہ تھا،تمام تر سیاسی وابستگیوں اورمجبوریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے
دونوں بہنوں نے اصولی بات کی اس سے ان کا قد کاٹھ بڑھا۔
تازہ ترین ٹویٹ میں دونوں نے اس روایت کو برقرار رکھا اب مسئلہ اسمبلی میں
ایک خاتون ممبر کے ساتھ والا حملہ(ہراسمنٹ)نہیں بلکہ ماضی میں اس حوالے سے
متنازعہ گردانی جانے والی ایک اہم سیاسی شخصیت عرفان اﷲ مروت کا ہے۔ جن کے
بارے میں کیا گیا ٹویٹ ہے کہ ’’بیمار ذہن کے لوگوں کو جیل میں سڑنا چاہئے،
ایسے لوگوں کو پیپلز پارٹی کے قریب بھی نہیں آنا چاہئے‘‘ بختاور کا کہنا
تھا کہ پی پی کی قیادت ایک خاتون نے سنبھالی تھی، ایسے لوگ ناقابل برداشت
ہیں۔ آصفہ بھٹو نے کہا کہ عرفان اﷲ مروت کے گھناؤنے اور غیرقانونی اقدامات
قابل مذمت ہیں، انہیں پیپلز پارٹی میں نہیں ہونا چاہئے۔
نوے کی دہائی میں مسلم لیگ کے وزیر رہنے والے عرفان اﷲ مروت کی شمولیت پر
دونوں بہنیں ناراض ہیں۔ عرفان اﷲ مروت کے بارے بھی بتاتے چلیں کہ وہ اس سے
قبل مسلم لیگ ن میں تھے اور وزیر بھی رہے ہیں ان کے ایک بھائی سمیع اﷲ مروت
آئی جی سندھ بھی رہے ہیں اور موصوف خود سابق صدر اسحاق خان کے داماد ہیں
ساری زندگی انہوں نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کے مخالف سیاست کی ہے، پیپلزپارٹی
کے شدید مخالفت اورایک سیاسی خاندان کی بیٹی کے ساتھ ہونے والی مبینہ
زیادتی کے حوالے سے خاصی شہرت رکھنے والے کو پارٹی میں نہیں جیل میں ہونے
کی تکرار کرتے ہوئے دونوں بہنوں نے اپنے ٹوئٹرپر ٹویٹ کرتے ہوئے اپنے دلی
جذبات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ امداد پتافی کے معاملے میں تو ان کا واضح
موقف تھا کہ معافی یا استفیٰ یہاں البتہ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی نظر
اتی ہیں اور شاید آنے والے دنوں یہ ان کی ڈیمانڈ بھی بن جائے کہ’’ عرفان اﷲ
مروت نامنظور‘‘ بینظیر بھٹوکی بیٹیوں سے ایسی ہی جرات کی توقع ہی کی جاسکتی
ہے ۔ پارٹی کا ان کے ٹویٹ کے بعد کیا ریسپانس ہوگا اس سے سب کو دلچسپی ہے،
پارٹی کا جو بھی فیصلہ ہو وہ الگ بات ہے تاہم دونوں بہنوں کی انسانیت اور
سیاست سے گہری محبت و دلچسپی لائق تحسین ہے۔ |
|