چند ماہ قبل گوجر خان کے نواحی علاقے میں
ایک دوست کے والد بزرگوار کی رحلت کے موقع پر جانا ہوا،فاتحہ خوانی کا
بندوبست ایک وسیع و عریض اور کھلی حویلی میں تھا،مرحوم ایک بڑے سرکاری افسر
تھے جن کی آل اولاد بھی اہم اور نمایاں عہدوں پر براجمان ہے،ہم کافی دیر
وہاں رہے مجلس میں جو محدودے چند لوگ موجود تھے ان کے چہروں پر عجیب سی
اکتاہت اور بے زارگی تھی،اس وقت تو ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا جب وہاں سے نکلے
اور نزدیک کے ایک ہوٹل پر رکے اور ہوٹل کے مالک سے مرحوم کا ذکر کیا تو نیم
خواندہ شخص نے جو ایک جملہ کہا اس نے ہمارے ہوش اڑا دیے،جی ہاں ہوٹل مالک
محمد رمضان نے کہا کہ جناب ان لوگوں نے ہمیں اپنا کمی کمین اور گورکن سمجھ
رکھا ہے ساری زندگی نہ ہم ان کو یاد آتے ہیں اور نہ یہ ادھر کا رخ کرتے ہیں
جب کوئی مر جاتا ہے تو دفن کرنے کے لیے اٹھا کر ادھر لے آتے ہیں جو لوگ
ہماری کسی غمی خوشی میں شریک نہیں ہوتے وہ مرنے کے بعد یہاں کیا لینے آتے
ہیں ہم چارو نا چار ان کی قبریں بھی کھودتے ہیں اور تین سے پانچ دن ان کے
پاس بھی بیٹھتے ہیں اور یہی تین دن ہمیں یہ نظر آتے ہیں اس کے بعد دوبارہ
ان کے کسی اپنے کے مرنے تک یہ ہمیں نظر نہیں آتے، مجھے فوراً اے این پی اور
باچا خان کے ساتھ اپنا حلقہ پی پی 23اور مرحوم ظہور انور یاد آگئے، آج اگر
کے پی کے میں جا کر کوئی بات کرے تو لگے گا کہ اے این پی سے بڑا کوئی محب
وطن نہیں اور آج کے لوگ یقیناً محب وطن ہو ں گے،مگر باچا خان کی افغانستان
تدفین کی وصیت اور اس پہ عمل کا دھبہ کبھی بھی ان کی جان نہیں چھوڑے گا،اسی
طرح اپنے حلقے میں ملک ظہور انور اﷲ انہیں غریق رحمت کرے جب سے سیاست میں
آئے میدان سیاست میں مقابلے میں کسی کو بھی ٹھرنے نہ دیا،تاہم اس میں ان سے
زیادہ کمال اس حلقے کے لوگوں کا ہے کہ جنہوں نہ ہمیشہ انہیں سر آنکھوں پر
بٹھایااور ہمیشہ اپنا ووٹ ان کی جھولی میں ڈالا،مگر نہ جانے کیوں اور کیسے
اور کس نے ہمیشہ کے لیے ان کواپنے حلقے کے لوگوں سے جدا کر دیا،یہ لوگ جو
زندگی میں ان پر جان چھڑکتے تھے ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ہمیشہ
ان سے پیار کرتے رہیں گے مگر قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے لاہور جانا پرے
گا،دنیا ایک سرائے ہے کہ جہاں مسافر کچھ وقت کے لیے آتے ہیں مقررہ وقت تک
پڑاؤ کے بعد اگلی منزل کو روانہ ہو جاتے ہیں کہ یہی ہر سرائے کا اصول ہوتا
ہے،اب ظہور انور کے بعد پی پی تئیس میں ضمنی الیکشن ہونا ہے،زبردست جوڑ توڑ
شروع ہو چکا ہے ہر کوئی نیک اور مخلص قیادت کا متمنی ہے ،اگر عام افراد سے
بات کی جائے تو ن لیگ پی پی پی اور دیگر جماعتوں کو کوسنے دیتے نظر آئیں گے
لوٹ کر بھاگ گئے بیچ کر کھا گئے ،ملک کو باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے مگرحیرت
کا مقام یہ ہے کہ جب بھی ووٹ دینے کی باری آتی ہے تو ووٹ چاچے مامے کو
سامنے رکھ کے دیا جاتا ہے اس وقت ملک دور کہیں پیچھے رہ جاتا ہے سامنے
دیکھا جاتا ہے کہ گاؤں یا برادری میں مقابلے پہ کون ہے اس کی مخالفت کرنی
ہے،ہر کسی کو شخصیت سراج الحق کی پسند ہے مگر ووٹ زرداری یا نواز شریف کا
یا اب بنی گالہ والوں کا،ہم وہ قوم ہیں جو جیب میں حرام مال ڈال کر سارا
بازار محض حلال گوشت کی تلاش میں چھان مارتے ہیں،امیدوار اور قیادت نیک اور
صالح چاہیے مگر ہمارا ہر کام ہونا چاہیے چاہے وہ غلط ہو یا صحیح،ہم اسی کو
ووٹ دیں گے جو ہمارے مخالف پر جھوٹا پر چہ بھی درج کروا سکے کسی کی زمین پر
قبضہ بھی کرواد ے اور اگر یہ سب نہیں تو شاملات کی زمین کے چندٹکڑے تو
ہمارے کھاتے میں ڈلوا ہی دے ،اب اس خالی نشست پر جہاں اور بہت سے موروثی
امیدوار اپنے سوٹ سلوا رہے ہیں وہیں پرجماعت اسلامی کے ڈاکٹر حمید اﷲ بھی
موجود ہیں مگر تاحال نہ جانے کن مصلحتوں کا شکار ہیں کہ کھل کے سامنے نہیں
آ رہے،جماعت والے لوگوں کا ایک المیہ غالباً یہ بھی ہے کہ یہ ہر صحیح کام
غلط وقت پر کرتے ہیں تبھی کبھی بیرونی دنیا میں لوگ کسی پاکستانی کو دیکھ
کر پوچھتے تھے اچھا اچھا آپ مودودی کے ملک سے ہو جبکہ آج پوچھتے ہیں اچھا
اچھا آپ ایدھی کے ملک سے ہو،یہ مفروضہ کیوں تبدیل ہوا اس موضوع کو پھر کسی
وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں،ابھی بات جماعت اور اس کے ضلعی سربراہ کی ہورہی
ہے تو ڈاکٹر حمید اﷲ کو جہاں تک میں جانتا ہوں انتہائی نفیس اور پڑھے لکھے
انسان ہیں،کرپشن کا کوئی دھبہ ان کے دامن پہ نہ ہے،عوامی خدمت پر یقین
رکھتے ہیں جس کی بڑی مثال ان کے کئی عوامی خدمت کے منصوبے ہیں جن میں فلاحی
ڈسپنسریاں اور تلہ گنگ میں ایک جدید ترین ہسپتال کی تکمیل آخری مراحل میں
ہے،چکوال ضلع میں جماعت کا نظم و نسق ان کے حوالے ہے جسے انتہائی احسن
طریقے سے نبھا رہے ہیں،میرے علاوہ میڈیا کے اکثر دوستوں سے رابطے میں رہتے
ہیں،تنقید کو بھرپور طریقے سے نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ نہایت ہی خندہ
پیشانی سے جواب بھی دیتے ہیں،حلقہ پی پی 23کے لوگ روایتی سیاستدانوں اور
سرمایہ داروں کو آزما چکے ہیں اب ایک بار ان کو بھی موقع دیں ،فرق صاف نظر
آ جائے گا،جماعت اسلامی کو بھی اب تمام مصلحتیں ایک جانب رکھ کر کھل کر
میدان میں آنا چاہیے،کیوں کہ سیاست ٹائمنگ کا کھیل ہے اور ٹائم پہ صیح اٹھا
یا گیا قدم جہاں آپ کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے وہیں ذرا سی
غلطی اکثر منزل کھوٹی کر دیتی ہے۔اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔ |