خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

غلام قوم کی ہر گرتی لاش کے ساتھ غلامی کی زنجیر کی ایک کڑی ٹوٹ جاتی ہے-
ایڈوکیٹ زمان مری کے بہیمانہ قتل پر ( بلوچ ہوم لینڈ ڈوٹ کوم ) نے خبر کے ساتھ پاکستان سپریم کورٹ کی تصویر کے سنگ غالب کا یہ شعر بھی دیا تھا کہ “ خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک “ جو موقع مناسبت سے پاکستانی عدل و عدالتی نظام کے چہرے پر زور دار طمانچہ ہے- ایڈوکیٹ زمان مری بلوچ کو ١٨ اگست کو اغواء کر کے لے جایا گیا تھا اور اب ٦ ستمبر کو اس کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی ہے جو ایک سلسلے کی کڑی کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے جو قابض نے بلوچ قوم کے خلاف خاموش قتل عام کے طور پر شروع کر رکھی ہے- جس کے تحت روز کسی بلوچ ماں کی آنکھوں کا نور خون میں لتھڑی ہوئی لاش کی صورت میں کسی گلی کوچے میں ملتا ہے- جن لوگوں کو پہلے یقین نہیں تھا وہ اب اپنی بند آنکھیں کھولیں اور غور سے دیکھیں کہ آج اسلام آباد میں کون بیٹھا ہے؟ آج اس ملک کا سب سے بڑا جمہوریت کا چمپیئن ( نام نہاد ) پی پی پی کا صدر براجمان ہے جس نے آتے ہی کہا تھا کہ بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھوں گا لیکن بلوچ قوم و پاکستان کے درمیان موجود مسئلے سے دقیق واقفیت رکھنے والے شروع دن سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر ہی کہہ رہے تھے کہ بلوچ بارے اسلام آباد کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور نہ کوئی آئندہ ایسی امید رکھے۔ یہی بات پاکستان کی ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے-

اپنی برطرفی کے وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری عالمی سیاسی لیڈروں کی طرح بھاشن جھاڑ کر اپنے ملک میں انصاف لانے کی بات کرتے تھے لیکن اب وقت نے ثابت کیا کہ بلوچ مسئلہ بارے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انصاف لانے کا دعویدار بھی آنکھوں سے محروم ہوگیا اور جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے وہ انہیں دیکھ نہیں سکتا- صرف اگست کے مہینے میں اس بار رمضان کا بابرکت مہینہ بھی تھا سولہ بلوچ گمشدگان کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن میں چند ایسی لاشیں بھی شامل ہیں جو تشدد کے باعث مسخ ہوکر ناقابل شناخت ہوچکی ہیں لیکن مجال ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے کوئی سوموٹو ایکشن وغیرہ کی بات سامنے آئے- ان کی ایسی بے حسی و خاموشی دیکھ کر ذہن میں یقیناً یہ سوال آتا ہے کہ اگر ان گولیوں سے چھلنی لاشوں میں سے ایک لاش چوہدری افتخار یا اعتزاز احسن کے اپنے بیٹے کی ہوتی تو وہ کیا ایسا ہی خاموش تماشائی بنے رہتے یا ان کا ردعمل کچھ اور ہوتا؟

بلوچ قوم کو آج کسی کی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں لیکن یہ بات کہنے کی ضرورت صرف اس لیے پیش آرہی ہے کہ کچھ لوگ اب بھی ان کا علاج پاکستان کے اندر نئے انتخابات و نئی حکومت آنے میں دیکھتے ہیں- اور اب پاکستان کے وزیر داخلہ نے اپنے کوئٹہ کے دورہ کے دوران کھل کر یہ بھی کہہ دیا کہ بلوچ لبریشن آرمی ( یعنی بی ایل اے ) اور بی ایس او ( بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ) کے خلاف آپریشن کرنے کی ضرورت ہے گویا ابھی تک جو کچھ ہورہا ہے وہ حساب میں نہیں آرہا- اس سے پہلے کہ ہم اس تناظر میں بلوچ قوم کی نئی حکمت عملی پر مختصر نظر ڈالیں موجودہ وزیر داخلہ سمیت پاکستانی ارباب اقتدار کو یہ یاد دلا دیں کہ ١٩٤٨ سے لے کر آج ہر حکمران نے اپنے طور پر اس قوم کو مکمل غلامی پر آمادہ کرنے کے لیے اپنی زور آزمائی کی ہے- ضیاءالحق نے تو جنرل رحیم الدین جیسے سفاک کو بی ایس او جیسے طلباء سیاسی تنظیم کی سرکوبی کے لیے بھیجا جس نے آج کے وزیر داخلہ کی طرح اپنی کرسی کی گھمنڈ میں للکار کر بولا “ کہ بلوچستان میں، میں رہوں گا یا بی ایس او رہے گی“- آج تیس اکتیس برس گزرنے کے بعد یہ بات کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ رحیم الدین اور اس کے آقا کو اس میں کتنی ذلت آمیز ناکامی ہوئی اور نہ ہی اس بات کے لیے دلیل دینے کی ضرورت ہے کہ بی ایس او آج بھی اس آب وتاب کے ساتھ بلوچ سیاست کے میدان میں شان سے موجود ہے-

پاکستان کے وزیر داخلہ کا یہ اعلان تو ایک اعتراف جرم اور وعدے سے مکرنے کا بے شرمانہ راہ فرار ہے جب ان کی جماعت حکومت میں آئی تھی تو وزیراعظم اور صدر دونوں نے کہا تھا بلوچوں کے گمشدگان واپس اپنے گھروں کو لوٹیں گے اور مزید کوئی بھی ریاستی اداروں کے ہاتھوں اغواء نہیں ہوگا- اب جب دیکھ رہے ہیں کہ وہ خفیہ اداروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہیں توبہ امر مجبوری یہ بھی کہہ دیا کہ ہم بی ایل اے اور بی ایس او کے خلاف آپریشن کریں گے تاکہ بار بار اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہ پڑے کہ آپ کی جمہوری حکومت میں یہ بلوچ بے گناہ کیوں غائب و قتل ہورہے؟ اب جب اپنے جرائم سے انکار ناممکن رہا تو اقرار جرم میں پناہ لی جارہی ہے-

قابض کی نیت اور اقدامات دیکھ کر ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں ہورہی کہ وہ اس جنگ کو آخری جنگ سمجھ کر وہ اپنے تہی اسی کوشش میں لگا ہے کہ اس قابض کو بلوچوں کے وسائل سے زندہ و سلامت رکھے دوسری طرف بلوچ قوم بھی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگر اس بار وہ دھوکہ کھا کر آزادی سے کم کسی بھی سمجھوتے کے جال میں پھنس گیا تو پھر اسے گمنامیوں سے کوئی بھی طاقت نہیں بچا سکتی- بلوچ قوم کی اس اجتماعی فکرونتیجہ گری کے باوجود کچھ بلوچ جماعتیں اور کچھ بلوچ بااثر شخصیات اپنے گروہی مفادات کے حصار سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہورہے گویا وہ اپنی پوٹلی بچانے کے لیے کشتی کو ڈبونے پر تلے ہوئے ہیں- ان دو حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر بلوچ قوم نے اپنی نئی حکمت عملی بنانی ہے-

ان دونوں حقیقتوں کو چیلنج سمجھ کر ان سے نمٹنے کا واحد ذریعہ بلوچ قوم کا اتحادواتفاق ہے- تاکہ پہلے قابض کے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے اور دوسرے بلوچ قومی تحریک آزادی سے الگ قوتوں کو قومی تحریک آزادی کے دھارے میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ بلوچ قومی مفاد کے خلاف بلوچ دشمن قبضہ گیروں کا آلہ کار نہ بنیں اور اس کارن پاکستانی ضلعی ناظم، تحصیل ناظم، ایم این اے، ایم پی اے و سینٹر بننے کی لالچ میں نہ مریں- اگر وہ قومی مفادات کے تحفظ میں ساتھ نہیں رہ سکتے تو وہ بلوچ معاشرے میں ایسے بے توقیر ہوں کہ تحریک آزادی کو کوئی بھی نقصان نہ دے سکیں- اس وسیع اتحادواتفاق کی بنیاد یقیناً بلوچ نیشنل فرنٹ پارٹی نے ہی کرنا ہے جو بے پناہ مشکلات، نادان دوستوں اور چالباز دشمنوں کے پے درپے حملوں کے باوجود میدان عمل میں موجود اس قومی تحریک کی ہر اول سیاسی قوت ہے-

بلوچستان کے اندر حالات روز بروز بگڑتے جائیں گے نہ تشدد شدہ لاشوں کا سلسلہ رکے گا اور نہ اغواء ہونے والوں کا سلسلہ رکے گا- لٰہذا جھٹکوں میں بھٹکے قسطوں میں مر کے خود کو کمزور کرنے سے بہتر ہے کہ بلوچ قوم مجموعی طور پر اس حقیقت کو سمجھے کہ پاکستان اور بلوچستان کے تمام مصنوعی رشتے ٹوٹ چکے ہیں جنہیں جوڑنے کے لیے پاکستانی ریاست اپنے روایت کے مطابق بربریت سے نہیں کترائے گا- ایسے میں بلوچ قوم کے لیے ایک بات لازم ہے کہ وہ اس موت وزیست کے مرحلے میں صرف ایک پوائنٹ گلزمین کی آزادی پر متقق ہوکر جدوجہد میں شامل ہوجائے- پاکستانی اداروں سے کسی خیر کی توقع نہ رکھیں یہ عدل وعدالت یہ پارلیمنٹ یہ سب کچھ اسی ریاستی پالیسی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کام کررہے ہیں کہ بلوچ بحثییت قوم پاکستانی قوم میں ضم ہوکر ہمیشہ کے لیے اپنی شناخت سے محروم ہوجائے-

عرض نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر
دامن کو اس کے حریفانہ کھینچئے
Baloch Tawar
About the Author: Baloch Tawar Read More Articles by Baloch Tawar: 6 Articles with 5608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.