اطلاعات کے مطابق پاکستان میں
تبدیلی کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے اور گزشتہ تین چار دنوں میں نظر آنے
والی ڈرامائی ملاقاتیں اور سیاسی ہلچل اسی فیصلے کا عملی نتیجہ ہیں۔ منصوبہ
یہ ہے کہ پہلے سید صاحب کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی
اور اسکی کامیابی کی صورت میں کسی ایسے شخص کو عبوری وزیر اعظم کے طور پر
آگے لایا جائے گا جس پر مسلم لیگ کے تمام دھڑوں اور ایم کیو ایم کا اتفاق
ہو۔ یہ عبوری حکومت چھ ماہ سے ایک برس تک قائم رہے گی اور صدر زرداری کو
اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردے گی۔ جس کے بعد پورے ملک میں مڈ ٹرم الیکشن
کرایا جائے گے۔ مزید براں اس منصوبے کو مسلح افواج اور اسکے سربراہ کی
بھرپور حمایت حاصل ہے اور اسے منتقی انجام تک پہنچانے کے لئے مسلم لیگ کے
تمام دھڑوں اور ایم کیو ایم کو گرین سگنل دے دیا گیا ہے۔ یہ بھی فیصلہ
کرلیا گیا ہے کہ چیف جسٹس اور موجودہ عدلیہ برقرار رہے گی اور آرمی چیف
بھی اپنی توسیع شدہ میعاد پوری کریں گے جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف
بھی اس آئینی تبدیلی کے لئے ناصرف تیار ہیں بلکہ تعاون پر آمادگی کا
اظہار بھی کرچکے ہیں۔ نئے سیاسی سیٹ اپ میں پیپلز پارٹی، اے این پی اور
مولانا فضل الرحمان کو باہر کردیا جائے گا لیکن پرویز مشرف کے کردار کے
بارے میں اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم انہیں بلواسطہ ذرائع سے اس
نئے اسکرپٹ کی بھنک پڑ چکی ہے۔
اسلام آباد کے مقتدر حلقوں کے مطابق اقتدار کے ایوانوں میں بھی اس نئے
سیاسی اسکرپٹ کی اطلاعات پہنچ چکی ہیں اور وہاں کے در و دیوار پر اس خبر سے
لرزا طاری ہوچکا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ گزشتہ تین چار دنوں کی سیاسی پیش
رفت سے حکمرانوں کا لہجہ بھی بدل چکا ہے جو عوام کے لئے انکی رخصتی کی پیام
اور نوید ہے۔ واضح رہے کہ ہفتہ کے روز پیپلز پارٹی کا ایمرجنسی میں بلایا
گیا اجلاس اور لاہور میں سید صاحب کا خطاب اسی نئے لہجے کی عکاسی کرتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے اس صورت حال پر گہری نگاہ رکھی ہوئی اور ان تمام معاملے کو
سنبھالنے کے لئے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو طلب کرلیا ہے۔
دوسری طرف رحمن ملک، بابر اعوان اور یاروں کے یار بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے
ہیں۔ تاہم باخبر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اب بال زرداری اینڈ کمپنی کی
کورٹ سے نکل چکی ہے اور اب جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔ اس
نئی سن گن کی وجہ سے حکومت کے حامی تجزیہ نگاروں کے تبصروں اور تحاریر میں
بھی واضح تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔
اس خاکہ کا ایک کردار پارلمان سے باہر بیٹھی سیاسی قوتوں نے بھی ادا کرنا
ہے جن میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں۔ مزید اطلاعات کے
مطابق آئندہ بننے والی عبوری حکومت میں ان جماعتوں کو بھی حصہ دیا جاسکتا
ہے۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی کے بے اثر ہوجانے کی وجہ سے انہیں نئے
سیاسی سیٹ اپ میں کوئی جگہ نہیں ملے گی اور وہاں گورنر راج نافذ کیا جائے
گا، سندھ میں متحدہ، پیرپگارا اور لوٹوں پر مشتمل سیٹ اپ ہوگا اور اگر لوٹے
کم پڑے تو گورنر کی خدمات حاصل کی جائیں گی جبکہ بلوچستان کی موجودہ پوزیشن
جوں کی توں رکھی جائے گی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رئیسانی برقرار رہیں گے۔
دوسری طرف پیر پگارا سے شیخ رشید اور چوہدری شجاعت کی ملاقات اور آل
پاکستان مسلم لیگ کا اعلان کرنا، اسحاق ڈار کا سب سے پہلے نائن زیرو جاکر
الطاف حسین کے ساتھ کھڑے ہونے کا عندیا دینا، ایم کیو ایم کا کھلے عام وزیر
داخلہ سندھ پر الزام لگانا اور نواز شریف کا پہلی دفعہ مڈٹرم الیکشن کی
حمایت کرنے کا بیان جاری کرنا اس پوری صورت کی زبردست غمازی کر رہا ہے۔
مڈٹرم الیکشن کی خبر یہ ہے کہ یہ سیٹ آئندہ سال کے وسط میں لگایا جائے گا
اور اس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں حصہ لیں گی۔ اس الیکشن کو پرامن اور
شفاف بنانے کے لئے جسٹس بھگوان داس پر مشتمل الیکشن کمیشن اور مسلح افواج
کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
حیرت انگیز اور خوش آئند بات یہ ہے کہ کامیابی سے آگے بڑھتی اس سیاسی
اسکرپٹ کو پاکستان ہی میں لکھا گیا ہے اور اس اسکرپٹ کی تیاری میں "محب وطن
جرنیل" بھی پیش پیش رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبہ توقعات کے مطابق کامیاب ہوگیا
تو یہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوگا کہ امریکہ کی منظوری کے بغیر کوئی بڑی
تبدیلی رونما ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے زرداری اینڈ کمپنی اس اسکیم کی راہ میں
کس طرح کی رکاوٹیں ڈالتی ہے اور سید حکومت کی موت کا آخری جھٹکا کس نوعیت
کا ہوگا۔ بہرحال سوال یہ ہے کہ کیا جاتے جاتے زرداری اینڈ کمپنی دسمبر 2007
کے طرز کا کوئی انتہائی قدم اٹھاسکتی ہے۔ آخر آخری مکا بھی تو کوئی چیز
ہوتی ہے۔ |