عورت کو تماشہ نہ بنائیں
(Dr Tasawar Hussain Mirza, Lahore)
دنیا بھر میں 35 فی صد خواتین اورلڑکیاں
اپنی زندگی میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔
آج کی 70کرورخواتین کی شادی بچپن میں ہی کردی گئی تھی۔ ان میں سے 25 کرورکی
شادی تو 15 سال کی عمر سے پہلے ہوگئی تھی اور یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ
دنیا بھر میں 13 کرور خواتین اور لڑکیاں نسوانی جنسی اعضا کی قطع و برید کا
شکار ہوئی ہیں․ عورتوں پراس تشدد کا خاتمہ ہنگامی نوعیت کا مسئلہ ہے․
‘‘عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کے تجربے کی جڑ، پرامن معاشروں اوربحران کا
شکارہونے کی وجہ عورتوں کودوسرے درجے کی شہری مانا جاتا ہے۔ یا مردوں کی
جاگیر، جائیداد سمجھا جاتا ہے۔ جہاں اس رویے کو تبدیل کرنا بہت ہی مشکل ہے
۔ لیکن نہ ممکن نہیں !․اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے حکومت پنجاب نے گزشتہ
سال ایک قانون بنایا تھاwomen protection کے نام سے اس قانون کے تحت خواتین
کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں
جبکہ تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی مدد کے لیے بھی ہیلپ لائن، حفاظتی
مراکز اور قانونی امداد سمیت کئی سہولتیں رکھی گئی ہیں۔
یہ بل اسلامی تعلیمات کے منافی، مردوں کے حقوق سے متصادم اور مغربی ایجنڈے
پر عمل درآمد کی ایک سازش ہے۔ جمیعت العلمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل
الرحمان نے تو یہاں تک کہا ہے کہ پاکستان میں مغربی معاشروں کے قوانین نافذ
کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول میاں بیوی کے متعلق قوانین میں شریعت سے
رہنمائی حاصل کی جانی چاہیے۔ ان کے بقول اس بل کے نفاذ سے گھر ٹوٹیں گے اور
مرد غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ ان کے خیال میں پنجاب حکومت نے یہ قانون غیر
ملکی این جی اوز کو خوش کرنے کے لیے بنایا ہے۔پنجاب حکومت نے گزشتہ سال جو
بل پاس کیا تھا ۔
women protection بل اس قانون کے دو حصے ہیں، پہلے حصے کے مطابق خواتین پر
تشدد کرنے والوں، انہیں ہراساں کرنے والوں، ان پر تیزاب پھینکنے والوں یا
ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کرنے والوں کو تو سخت سزا ملنی چاہیے اور
انہیں کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ یہ اقدام درست ہے لیکن اس بل کے دوسرے
حصے میں عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں،
وہ خاندانوں کو توڑ دیں گے، طلاقوں کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ ان کے بقول
مردوں کو جی ایس پی ٹریکر والے کڑے پہنا دینے یا ان کو گھر سے نکال دینے سے
گھر آباد نہیں ہوتے۔ اس سے معاشرے میں بے روزگاری، غربت اور منشیات کے
خاتمے کے ذریعے بھی خواتین کے مسائل میں کافی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
ان کے مطابق یہ قانون اسلام کے حکیمانہ طرز کے خلاف ہے، ’’اس طرح کے بل
مغرب میں بھی خواتین کے مسائل کو پوری طرح حل نہیں کر سکے ہیں۔ حکومت کو
چاہیے کہ وہ اس قانون کے حوالے سے علمائے کرام اور عام شہریوں اور محب وطن
صحافیوں کو اعتماد میں لے۔‘‘اس قانون کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے
سلمان صوفی چیف منسٹر اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ لاء اینڈ آرڈر کے سینئیر ممبر
ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ا ن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی
سے اس بل پر تنقید کرنے والوں نے اس قانون کا تفصیل سے مطالعہ نہیں کیا ہے
اور اس قانون کے خلاف بلا سوچے سمجھے پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
سلمان صوفی نے کہا کہ اس بل کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ نو ماہ
تک مشاورت کی گئی حتی کہ پنجاب اسمبلی میں موجود جماعت اسلامی کے رکن ڈاکٹر
وسیم اختر کی تجویز پر اس بل کے مسودے میں ترمیم بھی کی گئی۔ ان کے بقول یہ
کہنا بھی درست نہیں ہے کہ اس بل کے ذریعے خاندان تباہ ہو جائیں گے۔ ان کے
مطابق خاندان کو بچانے اور گھریلو جھگڑوں کو سلجھانے کے لیے اس بل میں
مصالحتی کمیٹی کا رول رکھا گیا ہے تاکہ محلے داروں اور دیگر لوگوں کی مدد
سے پولیس کی مدد کے بغیر ہی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔
انہوں نے کہا اسلام نے خواتین سمیت تمام انسانوں کی جان اور مال کی حفاظت
کی بات کی ہے، خاوند کو بیوی کی کفالت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور ظلم اور
زیادتی سے روکا ہے، ان کے بقول اس بل میں انہی اصولوں پر عمل درآمد کے لیے
اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ اس قانون کو پنجاب
اسمبلی کے مروجہ قانونی طریقے سے منظور کروایا گیا ہے، چونکہ اس پر کوئی
اختلافی بات سامنے نہیں آئی تھی اس لیے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو نہیں
بھیجا گیا تھا۔
ان کے نزدیک ٹریکر ہر مرد کو نہیں لگیں گے بلکہ عورت پر تشدد کرنے والا
عادی مجرم اگر بار بار اپنے جرم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر اسے
متاثرہ عورت سے دور رکھنے کے لیے ٹریکر عدالت کی منظوری کے ساتھ کڑے کی
صورت میں پہنایا جائے گا تاکہ اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے، ’’اس
سارے کچھ کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ قانون حرف آخر نہیں، ہم ہر ایک کی
بات سننے کو تیار ہیں، کسی بہتر تجویز کی صورت میں اس قانون میں ترمیم بھی
کی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ پنجاب میں ہر روز پانچ عورتوں
کے خلاف قتل یا اقدام قتل، آٹھ عورتوں کے خلاد عصمت دری، 32 کے خلاف اغوا
کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور عورتوں کے خلاف جرم کرنے والوں کے خلاف
کارروائی کا تناسب صرف دو فی صد ہے۔‘‘
عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی پاکستان کی ایک بڑی غیر سرکاری تنظیم
عورت فاونڈیشن کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ممتاز مغل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس
قانون کے آنے کے بعد پنجاب کی عورتوں کو تحفظ کا احساس ملا ہے۔ ان کے بقول
یہ بل فیملی سسٹم کو مضبوط کرنے اور عورتوں پر تشدد کو روکنے میں بہت معاون
ثابت ہو گا۔ اس بل کے ذریعے دارلامان کو قانونی حیثیت مل گئی ہے۔ اس بل کے
تحت سزا ہر مرد کو نہیں بلکہ تشدد کرنے والے لوگوں کو ملے گی۔ مرد کو گھر
سے نکالنے کا مقصد یہ ہے کہ غصے میں آ کر لڑائی کرنے والے فریقین کو تھوڑی
دیر کے لیے الگ کر دیا جائے تاکہ وہ ٹھنڈے دل سے معاملات پر غور کر سکیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ حقوق نسواں کی جتنی بھی
این جی اوز ہیں ان سب کا ایک ہی مطلب ہے کہ عورت کو غلامی سے آزادی دلانا
بڑی معزرت کے ساتھ ان کے گوشہ گزار کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے منشور کے دو ہی
مفہوم نظر آتے ہیں کہ ’’ آج کی عورت آزاد نہیں ‘‘ ایسا بلکل غلط ہے مجھے
کلاس اول کے معصوم بچے کا واقعہ یاد آگیا ہے گزشتہ دن مقامی سکول بنام ایم
اسماعیل پبلک سکول پوران آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک والدہ اپنے معصوم
بچے کے ساتھ سکول آفس بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی کہ بچہ کوئی کام یعنی ہوم
ورک نہیں کرتا اس کی ٹیچر سے پوچھیں کہ اس کو کام نہیں نہیں دیا جاتا؟
پرنسپل صاحبہ نے مسکراتے ہوئے بچے کو مخاطب کرت ہوئے کہا اپنا سکول بیگ
مجھے دو ! سکول بیگ سے پرنسپل بیگ سے پرنسپل صاحبہ نے ڈائری نکالی اور اسکی
والدہ کو دیکھایا کہ ہر روز بچے کو ہوم ورک ملتا ہے لیکن یہ نہ لکھ کر لاتا
ہے اور نہ یادکر کے آتا ہے!
’’عورتوں کے حقوق ‘‘کی رٹ لگانے والے ایسے ہی ہے جیسے معصوم بچے کی والدہ۔
جس طرح جماعت اول کے طالب علم کی والدہ نے سکول بیگ کھول کر ڈائری نہیں
دیکھی تھی اسی طرح حقوق نسواں کے علمبرداروں نے سیرت النی ﷺ کا مطالہ نہیں
کیا کاش وہ بھی ’’ قرآن پاک ‘‘ کھول کر سمجھ کر دیکھتے تو بچہ کی والدہ کی
طرح شرمندہ نہ ہوتے ۔
اگر کوئی بشر حقوق نسواں کی بات کرتا ہے تو وہ ایسے ہی جیسے عورت کو حقوق
کے نام پر تماشہ بنارہا ہے ! اس سے بڑا عورت کے ساتھ کیا تماشہ ہو سکتا ہے
کہ حقوق کے نام پر عورت کو ڈیکوریشن پیس ، شراب و شباب کی محفل میں رقص ،
بغیر شادی بچوں کی ماں اور اس جیسے تمام اخلاقی و جنسی تعلاقات کی کھلم
کھلا چھٹی ، جناب یہ عورت کی آزادی نہیں بلکہ زلالت ہے۔جو لوگ اس قسم کی
عورت کی آزادی یا حقوق کی بات کرتے ہیں وہ اﷲ اور اﷲ پاک کے رسول ﷺ کی
تعلیمات کا علم نہیں رکھتے ۔مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہو رہا ہے کہ عورت
کی عزت احترام اور حقوق سمیت آزادی اور اصل آزادی وہ ہی ہے جو میرے اور
تمام دنیا کے آقا رحمتِ عالم نبی نورمجسم ﷺ نے14 سوسال سے پہلے دنیا کو
عملی طور پر پیش کر دیئے تھے۔ |
|