فرمودات ایک وفاقی وزیر کے!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
’’ٹیکس دے کر جواء کھیلنا جائز ہے،
بہت سارے ممالک میں یہ کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے ․․․ کرکٹ میں میچ
فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو معاف کردینا چاہیے، نوجوانی میں انسان سے
غلطیاں ہو جاتی ہیں ․․․․‘‘۔ یہ فرمودات جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے
کھیل کے وفاقی وزیر میاں ریاض حسین پیرزادہ کے ہیں۔ وہ سیاست کے کھیل میں
بہترین اننگز کھیل رہے ہیں، صوبائی وزارت سے لے کر متعدد مرتبہ وفاقی وزارت
کے مزے بھی لے چکے ہیں، پارٹیاں بدلنے کے حوالے سے بھی انہوں نے کبھی بُخل
سے کام نہیں لیا، فراخدلی سے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یوں تجربے کی
بنا پر سیاست کے کھیل کے داؤ پیچ اور نشیب وفراز سے خوب آگاہ ہیں، شاید اسی
لئے ’کھیل‘ کے وزیر بنائے گئے ہیں۔ کھیلوں کے وزیر ہونے کے ناتے اپنے آبائی
علاقہ میں ایسی ہی ایک تقریب میں وہ مدعو تھے، ایک پہلوان کے نام تقریب تھی،
شاید اسی تناسب سے کھیلوں کے وزیر نے بیان دیا کہ ’’کبڈی کو قومی کھیل ہونا
چاہیے‘‘۔ جناب آپ وزیر ہیں ، اگر آپ کی یہ خواہش ہے تو اگلے روز اسمبلی میں
قرار داد پیش کردیں، آپ کی حکومت ہے، اسے منظور بھی کروالیں۔ مگر یہ خیال
بھی رکھنا کہ پاکستان میں کبڈی کی روایت اور مقبولیت کس قدر ہے؟اور یہ خیال
بھی رکھنا کہ اگلی دفعہ جب آپ کسی اور کھیل کی تقریب میں تشریف لے جائیں گے
تو زیبِ داستاں کے لئے اُس کھیل کوبھی ’قومی‘ قرار دینے کی خواہش کا اعلان
کردیں گے۔ یوں آپ کی تقریبات ہوں گی اور قومی کھیل، دیکھیں بات کہاں جاکر
رکتی ہے۔
جواء تو مملکتِ خداداد میں ممنوع ہے، بس کچھ ظالم لوگ ہیں، جو قانون کو
ہاتھ میں لے لیتے ہیں، اور حکومت کی رٹ کر چیلنج کرتے ہوئے غیر قانونی
اقدام کرتے ہیں۔ کبھی مرغوں کی چونچ لڑائی پر جواء، کبھی گدھوں کی دوڑ پر
جواء، کبھی کُتوں کی لڑائی پر جواء، کبھی اونٹوں کے دنگل پر جواء اور سب سے
بڑھ کر یہ کہ کبھی کرکٹ کے میچ پر جواء۔ میچ کی ہار جیت پر جواء لگانا تو
الگ بات ہے، اس میں کھلاڑیوں کو شریک کر لینا خطرناک بات ہے، پیسے لے کر
میچ فکس کر لینا افسوسناک بھی ہے، اپنے ضمیر اور اپنے معاہدے سے انحراف بھی۔
یہی وجہ ہے کہ اس عمل کو بہت ہی ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے، یہ عمل
برطانیہ میں ہو یا دبئی میں، عمل پیرا ہونے والوں کو کسی حد تک سزا بھی
ملتی ہے، اور بدنامی کا طوق بھی گلے میں لٹکانا پڑتا ہے۔ مگر وزیر موصوف
چونکہ کھلے دل کے مالک ہیں، اس لئے وہ ان چھوٹی موٹی باتوں کی پرواہ نہیں
کرتے۔ انسان خطا کا پتلاہے، شاید نوجوانوں سے تو خطائیں بھی کچھ زیادہ ہی
ہو جاتی ہیں، مگر کچھ باتیں ذاتی نوعیت کی ہوتی ہیں، کم نقصان دہ یا محدود
اثرات کی حامل یا قابلِ معافی ۔ مگر کچھ سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے، برطانیہ
کی جیلوں میں سزا بھگتنی پڑتی ہے، تاحیات پابندی کی سزا برداشت کرنا پڑتی
ہے۔ رہی بات جوئے کے جواز کی تو یہ ٹیکس دینے کی صورت میں پاکستان میں بھی
جائز ہے، پرائز بانڈ کو ہی دیکھ لیجئے، کہ چند سو یا چند ہزار روپے کے بدلے
اگر کسی کو لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ملتے ہیں، تو یہ جواء ہی تو ہے، مگر
بہت ہی کم لوگ ہیں جن کی نگاہ میں یہ جائز نہیں ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت
کا کاروبار ہے، اس پر ٹیکس کاٹا جاتا ہے، گویا سرکار کے خزانے سے نکلنے
والا کالادھن ٹیکس کٹنے سے یقینا مکھن کی طرح سفید ہو جاتا ہے۔
وزیر موصوف نے کچھ سیاسی باتیں بھی کیں، یہ ایک روایت ہے، تقریب کسی ایشو
پر بھی ہو، سیاست کی بات کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اگر حکومتی عہدیدار ہے تو
حکومت کی تعریف اور مخالف کی مخالفت اور اگر اپوزیشن سے تعلق ہے تو حکومتی
کاموں میں کیڑے نکالنا۔ وزیراعظم کے بارے میں کہا کہ ’’ نواز شریف عرصہ سے
عوام کی خدمت کررہے ہیں‘‘۔ یہی ریاض پیرزادہ مشرف اور چوہدری برادران کی
کابینہ میں بھی وفاقی وزیر تھے، تب بھی حکومت کی ہی تعریف ہوتی تھی۔ یہ بھی
کہا کہ’’ عمران خان نے گالیوں کی سیاست کو فروغ دیا ہے‘‘۔ موصوف کے طرزِ
تکلم کا اندازہ لگانے کے لئے ان کی محفل میں کچھ ہی وقت گزارنا کافی ہوگا۔
رہی بات تیس برس سے کرپشن کرنے والے سیاستدانوں کو پکڑنے کی تو جناب آپ
وفاقی کابینہ کے اہم رکن ہیں، کرپشن کرنے والوں کی نشاندہی فرمائیں اور
قانون کے حوالے کروائیں، کون روک رہا ہے؟ |
|