جانوروں کی سیاست اور سیاست کے جانور

ایک زمانے تک سیاسی جماعتوں کی شناخت جانور ہوا کرتے تھے۔ پنڈت نہرو کا دعویٰ تھا کہ صنعتیں، تحقیقی تجربہ گاہیں اور پن بجلی گھر جدید دور کی عبادتگاہیں ہیں مگر ان کی پارٹی کا نشان کارخانے کی چمنی نہیں بلکہ بیلوں کی جوڑی تھا اس لئے کہ ملک کیاکثریت کسانوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل تھی۔ ہندو مہاسبھا نےبھارت وجئےکرنے کیلئےرام چندرجی کاگھوڑا اشومیگھنشان بنایا۔ شیوسنااکا نشان شیر اور ارون گوولی کی اکھل بھارتیہ سینا کا نشان گائے تھا ۔ کانگریس منقسم ہوئی تو اندرا گاندھی نے گائے اور بچھڑاچنا ۔ آزاد امیدواروں میں کوئی خرگوش تو کوئی پرندہ نشان لے لیتا لیکن پھر غالباً جانوروں نےاس توہین آمیز نمائندگی سےمعذرت چاہ لی اور سیاسی پارٹیاںہاتھی کے سوا سارےجانوروں سے محروم کردی گئیں۔

سیاست میں نشان کے طور پر تو جانور کا استعمال تو ممنوع ہوگیا مگر تقاریر میں وہ اب بھی موجود ہیں ۔ پچھلے دنوں شرد پوار کی بیٹی سپریہ سولے نے کہا کہ بالاصاحب ٹھاکرے کے بعد شیوسینا میں پہلے جیسا دم خم باقی نہیں ہے۔ اس لئے اسے اپنے جھنڈے پر شیر کوکالی بلی سے بدل دینا چاہئے۔ سینا شیر کی طرح دہاڑتی تو نہیں بلکہ کام بگاڑتی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی پر طنز کرتے کہا مہاراشٹر کی عوام کتے کی چھتری اور سینا کی چھتر چھایا کا فرق خوب جانتےہںں اس لئے اگر کوئی کتاکہے کہ بارش ہورہی ہے اس لئے میری چھتری میں آجاو تو کوئی نہیں جائیگا۔ بہار کے وزیر اعلیٰ جتن رام مانجھی جب سبکدوش ہوئے تو لندن کےگارجین میں چھپا چوہے کھانے والے وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دے دیا اس لئے ان کی ذات کے لوگ چوہے کھاتے ہیں ۔ اڑیسہ کے کانگریسی رہنما نرنجن پٹنائک نے ایک بیان میں کہا کہ کانگریس کو اندرسے چوہے کھوکھلا کررہے ہیں ۔ ان لوگوں کا نہ پارٹی سے نظریاتی تعلق ہے اور نہ ہی آمدنی کا جائز ذریعہ ہے۔ پٹنائک کی یہ بات کانگریس ہی نہیں بلکہ ہر سیاسی پارٹی اور رہنما پر صادق آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اناّ پورنہ کرشجیو کو Rats and cats of Indian politics نامی کتاب لکھنی پڑی۔

وزیراعظم اگر کسی مسئلہ کو اٹھاتے ہیں تو اسے نئی بلندیوں پر لے جاتے ہیں ۔ جب انہوں رو رو کر کہا کہ میں نے ملک کیلئے سب کچھ قربان کردیا تو ایوان پارلیمان میں کانگریس کے رہنما ملک ارجن کھرگے نے جواب دیا جس قدر قربانی اندراگاندھی کے کتے نے دی ہے اتنا تیاگ بھی مودی نے نہیں کیا۔ وزیراعظم نے ایوان میں اس کا جواب دیا کہ ہماری پرورش کتوں کے درمیان نہیں ہوئی ہے ۔ عوام نے سوچا جی ہاں مودی جیسے گئو بھکت کی پرورش گا ئےبیل کے درمیان ہوئی ہوگی لیکن اترپردیش کی انتخابی مہم میں اکھلیش کے طنز پر کہ امیتابھ بچن گجرات کے گدھوں کی تشہیر چھوڑ دیں مودی جی نے بڑے فخر سے کہا کہ گجرات کے گدھے بھی قابلِ تعریف ہوتے ہیں ۔ وہ تو گدھے سے ترغیب لیتے ہیں اور گدھے کی طرح کام کرتے ہیں اس لئے کہ گدھا بہت محنتی جانور ہے ۔

وزیراعظم نےگدھے کےمحنتی ہونے کا ذکر توکیا کی مگر بھول گئے کہ وہ نہایت احمق جانور ہے ۔ کیا یہ مشترک صفت قابلِ فخر ہے ۔گدھا بیچارہ دھوبی کی طرح کپڑے دھونے کا نہیں صرف کپڑے ڈھونے کا کام کرتاہے اور موقع بے موقع دولتیّ جھاڑ دیتا ہے۔ جس طرح کی ڈھینچو ڈھینچو مودی فی الحال اتر پردیش میں کررہے ہیں اس سے اندیشہ ہے کہ کہیں ان کی حالت دھوبی کے کتے کی سی نہ ہوجائے جو نہ گھر کا ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا ۔ آپ تو جان ہی گئے ہوں کہ اگر کسی نے وزیراعظم کواس مثال سے آگاہ کردیا تو وہ کیا کہیں گے؟ اپنا ۵۶ انچ کا سینہ پھلا کر وہ بولیں گے ملک کے ۱۲۵ کروڈ عوام کا میں اسی طرح وفادارہوں جیسا کہ کتا ہوتا ہے اور میں اس سے بھی ترغیب لیتا ہوں لیکن اب ان سے کوئی پریرنا نہیں لیتا۔
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220499 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.