برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ عالیہ چشتیہ ایک معروف روحانی
سلسلہ ہے ۔سلطنت ِ مغلیہ کے دور میں جب تصوف کو عروج حاصل ہوا اورسلسلہ
عالیہ چشتیہ کے بزرگوں نے اس علاقہ میں تعلیماتِ اسلام کی ترویج اور چشتیہ
سلسلےکی اشاعت کی اُن میں حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ
تھے جنہوں نے جہاں آباد میں چشتیہ سلسلے کی اشاعت کی ،ان کے بعد ان جانشین
ولی اورنگ آبادی نے اورنگ آباد(دکن) میں اپنے مُرشد کا پیغام عام کیا
۔پھر ان کے بعد ان کے فرزند فخر الدین فخر شاہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ
نے دہلی میں بیٹھ کر شمالی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے خلفاء
بھیجے۔آفتاب و ماہتابِ طریقت ، واقف ِ رازِ حقیقت ، مخزنِ رُشد و ہدایت
حضرت خواجہ نُور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ انہیں خلفاء میں سے ہیں جنہوں
نے پنجاب میں سلسلہ چشتیہ کو فروغ دیا۔
خواجہ نور محمد مہاروی ۱۴ رمضان المبارک ۱۱۴۲ھ ۱۷۲۹ء کو قصبہ چوٹالہ میں
پیدا ہوئے جو بہاولپور کے قریب ہے کچھ عرصہ کے بعد آپ کا خاندان چوٹالہ سے
قصبہ مہار میں آگیا ۔آپ کے آبائو اجداد کا پیشہ زراعت تھا ۔والدین نے
آپ کا نام بہیل رکھا تھا جس کو آپ کے شیخ شاہ فخرالدین نے بدل کر نُور
محمد رکھا ۔والدین نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی آپ نے پہلے
قرآن مجید حفظ کیا پھر مہار شریف میں رہ کر علوم عقلیہ اور علوم نقلیہ
سیکھے ۔ بعدازاں ڈیرہ غازی خاں جا کر درسی کتب پڑھیں اور پاکپتن کے نواح
میں موضع بیلا کی علمی شخصیت شیخ احمد کھوکھر سے بھی تعلیم حاصل کی کچھ
عرصہ بعد خواجہ محکم دین کے ہمراہ تحصیلِ علم کے سلسلہ میں لاہور تشریف
لائے ۔جب آپ تصوف و روحانیت کی طرف مائل ہوئے اُس دور میںدہلی میں حضرت
خواجہ فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا چرچا تھا ۔آپ دہلی تشریف لے گئے اور
وہاں پر حافظ محمد صالح کے ساتھ حضرت خواجہ فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے
آستانہ پر حاضر ہوئے ۔ حضرت شاہ فخر نے آپ کو دیکھا تو مسند سے اُٹھ کر
استقبال کیا ، گلے سے لگایا اور پنے ساتھ بٹھایا ۔ پوچھا : کہاں سے آئے ہو
؟ شاہ نور محمد نے جواب دیا : کہ پاکپتن کے قرب و جوار کا رہنے والا ہوں ،
خواجہ فخر الدین نے پوچھا حضرت باب صاحب کی اولاد سے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا
نہیں : پھر پوچھا : کس غرض سے آئے ہو ؟ شاہ نور محمد نے جواب دیا : سُنا
ہے آ پ علم ِ دین سکھاتے ہیں ، علم و معرفت کی کشش مجھے آپ کی خدمت میں
کھینچ لائی ہے ۔ حضرت فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : آج کل پڑھانا
موقوف تھا لیکن اگر آپ کی مرضی ہے تو ہم سے پڑھ لیا کریں ۔ اسےکے بعد شاہ
نور محمد نے آپ سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی ۔ چند ہی روز کے بعد انہیں
محسوس ہوا کہ وہ جس شخصیت کے پاس آئے ہیں وہ روحانیت کے بہت بلند مرتبہ پر
فائز ہیں اور علوم و معرفت کا سمندر ہیں ۔چنانچہ آپ نے ۱۱۶۵ھ ۱۷۵۱ء میں
شاہ نور محمد مہاری نے حضرت شاہ فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست
پرسلسلہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت کی ۔خواجہ صاحب کو اپنے پیرو مُرشد سے حد
درجہ محبت تھی اور پیر ومرشد بھی آ پ سے بہت پیار کرتے تھے آپ نے سولہ
سال اپنے پیر ومرشد کی خدمت کا شرف حاصل کیااور فیوض و برکات حاصل کیے
۔مرشد کریم کے ساتھ پاکپتن اور مہار شریف کے ساتھ سفر کیا ۔ سفر سے واپسی
پر حضرت فخر الدین نے خواجہ نور محمد سے فرمایا : اے نور محمد ! آپ کے
کندھوں پر مخلوق کا بوجھ پڑنے والا ہے یہ سن کر خواجہ نور محمد نے حیران ہو
کر فرمایا کہ میں کمترین پنجابی ہوں میں کسی کے کیا کام آسکوں گا شاہ فخر
خاموش رہے پھر کچھ دن بعد حضرت فخر الدین دہلوی نے آپ کو خرقہ خلافت عطا
فرما کر حکم دیا کہ اپنے وطن مہار شریف میں رشد و ہدایت اور تبلیغ و اشاعت
اسلام کا کام کریں ۔۔اپنے پیر و مرشد کےفرمان کے مطابق حضرت خواجہ نور محمد
مہاروی رحمۃ اللہ علیہ مہار میں تشریف لائے اور ارشاد و ہدایت کی ایسی شمع
روشن کی جس کی روشنی سے پورا پنجاب روشن ہوگیا اور دور دور سے علم و معرفت
کے پیاسے آپ کے پاس آنے لگے ۔آپ اپنے مریدوں کی اصلاح و تربیت کی طرف
خاص توجہ دیتے اور شریعت کی پابندی کا حکم دیتے تھے ۔آپ بڑے صاحب ِ کرامت
تھے آپ پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا بہت فضل و کرم تھا اور جو زبان سے نکلتا
پورا ہوتا تھا۔ علم و معرفت کا یہ آفتاب ۳ ذوالحجہ ۱۲۰۵ ہجری بمطابق ۱۷۹۱
کو غروب ہوگیا آپ کا مزار پر انوار چشتیاںمیں موجود ہے ۔ آپ کے روحانی
خلفاء نے سلسلہ چشتیہ کی ترویج و اشاعت میں بہت اہم کردار ادا کیا اور آپ
کے فیضان کو عام کیا۔آپ کی اولاد مبارکہ میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔
|