خصوصی طیارے نے اسلام آبادسے اڑان بھری، کچھ ہی دیر
میں وہ صحرائے چولستان کے کنارے آباد خوبصورت شہر بہاول پور کے ائیر پورٹ
پر اترا۔ یہ طیارہ تیس سے زائد افراد کو یہاں لایا تھا، جن کا تعلق صدرِ
مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کے سٹاف سے تھا، ان
میں سٹاف اور سکیورٹی کے افسران شامل تھے۔ اسی سفر میں دو عدد مرسڈیز کاریں
بھی وی آئی پی افسران کے ساتھ مسافر تھیں۔ اگلے روز صدرِ مملکت نے بہاول
پور آنا تھا، سو ایک اور خصوصی طیارہ اسلام آباد سے بہاول پور آیا، اس میں
صدر اور ان کے اہلِ خانہ تشریف لائے۔ آئینِ پاکستان میں لکھی گئی ہدایات پر
عمل کرتے ہوئے کم وبیش آٹھ سو کے قریب پولیس اہلکاران نے سکیورٹی کے فرائض
نبھائے۔ آئین چونکہ پاکستان کی مقدس اور محترم کتاب ہے، حکمران اس سے سرِ
مُو روگردانی نہیں کرتے، اس کے حرف حرف کو متبرک جانتے اور اس پر عمل پیرا
ہوتے ہیں۔ شہر بھر کے تھانے پاکستان کے آئینی سربراہ کی حفاظت پر مامور تھے،
کہتے ہیں کہ اس روز بہاولپور کے تھانوں میں جرائم کی شکایات موصول نہیں
ہوئیں، یقینا جرائم پیشہ افراد نے اس اہم ترین شخصیت کے احترام میں ایک روز
کے لئے اپنے شیڈول کو ملتوی کردیا ہوگا۔ ان کے قیام کے مقام اور قرب وجوا ر
میں پولیس کی بھاگ دوڑ رہی، کہ یہی ان کی حفاظت کا تقاضا تھا۔
صدرِ محترم اپنے ایک دیرینہ دوست کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی غرض سے نجی
دورے پر تشریف لائے تھے، اسی قسم کا ایک دورہ وہ پہلے بھی فرما چکے ہیں۔
انہوں نے سرکٹ ہاؤس میں مسلم لیگ ن کے ممبرانِ اسمبلی، بلدیاتی نمائندوں
اور پارٹی عہدیداروں سے ملاقات کرکے ملاقاتیوں کی اہمیت میں مزید اضافہ کیا،
بعض مخالفین اس بات پر معترض ہیں کہ صدر کا عہدہ غیر سیاسی ہوتا ہے،
معترضین کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عہدہ دینے والے کون ہیں،اور ان کا
شکریہ کس طرح ادا کیا جاسکتا ہے؟ بہاول پور خوبصورت اور پرامن شہر ہے، جب
سے یہاں ’’پی ایچ اے‘‘ نے قدم رکھے ہیں شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے
ہیں۔ سڑکوں پر صفائی کے ساتھ سبزہ بھی دکھائی دینے لگا ہے، پھول بھی اپنی
بہار دکھا رہے ہیں، سڑکیں ون وے ہورہی ہیں، کچھ سڑکوں میں توسیع ہورہی ہے۔
مگر قریب ہی ایک دوسرے کو ملانے والی سڑکوں کی طرف ابھی کوئی توجہ نہیں۔
سرکٹ ہاؤس سے شادی ہال (جہاں صدر نے شادی میں شرکت کے لئے جانا تھا) تک
جانے کے لئے لنک روڈ اگرچہ بہت اہم تھی، مگر ایک عرصہ سے گڑھوں اور کھڈوں
نے وہاں ڈیرہ لگارکھا تھا، روز وہاں سے ہزاروں لوگ گزرتے اور اپنے نمائندوں
وغیرہ کی جان کو کوستے تھے، مگر اﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہاں سے صدرِ
پاکستان نے گزرنا تھا، راتوں رات اس سڑک کی قسمت جاگ گئی، اس ہنگامی مرمت
پر کتنا خرچ اٹھا، یہ مت پوچھئے، کہ ایسے میں حساب کا نہ وقت ہوتا ہے نہ
ماحول ،نہ ہی کوئی حساب دیتا ہے اور نہ ہی کوئی حساب رکھتا ہے۔
صدرِ مملکت نے اپنی گفتگو میں مخصوص ایشوز پرروایتی انداز میں روشنی ڈالی،
سی پیک کی بات، پانامہ کی صفائی اور کرپشن فری حکمرانوں کی خبر۔
پروٹوکول،مرتبے اور احتیاط وغیرہ کا تقا ضا تھا کہ مہمان سے کوئی مطالبہ نہ
کیا جاتا، ویسے بھی اپنے ممبرانِ پارلیمنٹ اپنے قائدین سے کسی قسم کا
مطالبہ کرکے ان کا موڈ قطعاً خراب نہیں کرتے، نہ ہی وہ اس پوزیشن میں ہیں،
بس عقیدت سے انہیں دیکھا کرتے ہیں، اگر وہ مسکرا دیئے تو یہ بھی مسکرا دیتے
ہیں، اگر انہوں نے بے تکلفی دکھائی تو ہمت کرکے ’’سیلفی‘‘ بنا لیتے ہیں،
اسے فریم کروا کے اپنے ڈرائینگ روم میں سجا لیتے ہیں۔ یہ رپورٹ بھی شائع
ہوئی کہ پولیس والوں کی ڈیوٹی چونکہ رات کو ہی شروع ہو چکی تھی وہ بھوکے
پیاسے رہے۔ وہ شکر کریں ابھی موسم اچھا تھا، یہاں توگرمیوں میں استقبالوں
میں سکولوں کے بچوں کو بھی گھنٹوں کھڑا رکھا جاتا ہے، اور برق رفتاری سے
گزرنے والی شاہی سواری کے بعد انہیں خواری کے انداز میں فارغ کردیا جاتا
ہے۔ایک نجی دورے پر یہ جہازوں پر گاڑیوں اور ٹیم کا آنا،قومی خزانے سے
لاکھوں کا خرچہ اٹھنا ، یہ سب کچھ معمول کی باتیں ہیں، یہ ایک دورہ ہے، ان
کے تمام دورے ایسے ہی ہوتے ہیں، اس کے لئے الگ سے فنڈ طے شدہ ہے۔ مگر کیا
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ سب عیاشیاں کربناک ظلم نہیں؟ کرپشن کا
تو حکمرانوں نے مکمل خاتمہ کردیا ہے، مگر عوام کے پیسے کے استعمال کا حساب
شاید یومِ حساب کو ہی ہوگا۔ |