کاغذ قلم تھامے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، مٹا دیتا
ہوں، الفاظ کی ترتیب بدلتا ہوں، بات نہیں بنتی، پھر مٹا دیتا ہوں، تخیل اور
ترتیب میں تبدیلی لاتا ہوں، بھڑاس نہیں نکلتی، پھر مٹا دیتا ہوں۔ نہ جانے
کتنی مرتبہ لکھ چکا ہوں،مٹا چکا ہوں۔ بات کہاں سے شروع کروں، جذبات کو
الفاظ کا روپ کیسے دوں؟ قومی اسمبلی میں ہونے والے آج کے دنگل نے زبانیں
گُنگ کر دی ہیں۔الزامات سے ہوتی ہوئی نوبت گالی گلوچ، ہاتھا پائی اور دست
درازی تک پہنچ گئی۔ قوم کے منتخب نمائندے، مراعات اور استحقاق کے حامل،
پاکستانی عوام کے لئے قانون بنانے والے۔ ان لوگوں کو عوام اس لئے منتخب
کرکے ایوان میں بھیجتے ہیں کہ وہ ملک کے مفاد میں قانون سازی میں حصہ لیں
گے، علاقے کی بہبود کے لئے کام کریں گے، عوام کی تعلیم، صحت اور دیگر
سہولتوں کے حصول کے لئے تگ ودو کریں گے۔ ان فرائض کا انہیں معاوضہ ملتا ہے،
اسی کے بدلے وہ معزز قرار پاتے ہیں، وی آئی پی اور محفوظ رہائش کا بندوبست
ہوتا ہے، ان کو آنے جانے کے لئے خرچہ دیا جاتا ہے، ان کا ہر جگہ احترام کیا
جاتا ہے۔ اس سے قبل الیکشن مہم میں انہیں کاندھوں پر اٹھایا جاتا ہے، اور
ووٹ دے کر انہیں سر پر بٹھا لیا جاتا ہے۔
مراعات کے دریا میں سرتاسر غرق یہ لوگ جب ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو ان کا
کردار قابلِ رشک نہیں رہتا، ان میں سے اکثریت ایسے معزز ممبران کی ہے جو
سالہا سال تک اسمبلی میں ایک لفظ بھی نہیں بولتے، ایسے بھی ہیں جو اسمبلی
میں قدم کبھی کبھار ہی رنجہ فرماتے ہیں، ایسے بھی ہیں جو اسمبلی کی
کارروائی میں دلچسپی نہ لینے کا ریکارڈ قائم کئے ہوئے ہیں۔ اسمبلی کا کورم
غریب کے چولہے کی طرح ہے، کبھی کبھار ہی گرم ہوتا ہے، اگر گرم ہو بھی جائے
تو اس میں بس دکھاوے کا سالن ہوتا ہے۔ آئے روز کورم ٹوٹ جاتا ہے، گھنٹیاں
بجتی ہیں، ممبران کو منت ترلوں سے ایوان میں لایا جاتا ہے، تب معاملہ اجلاس
کے قابل ہوتا ہے۔ ایسے اجلاس میں کارروائی ہی ہوتی ہے، قوم کے کیا مسائل حل
ہونگے، ان کے لئے کیا قانون بنایا جائے گا؟ یہ معزز ممبران اسی روز حاضر
ہوتے ہیں جب حکومت کو کوئی خاص ضرورت ہو، کوئی خاص دن یا واقعہ ہو۔ اور سب
سے بڑھ کر یہ کہ ایوان میں ٹھٹھہ مذاق، ہنگامہ آرائی، مغلظات کی گردان،
لڑائی مارکٹائی اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ ہوتا ہے۔ ستم یہ کہ ان تمام
سرگرمیوں کی بھر پور تنخواہ ملتی ہے، معقول مراعات میسرہوتی ہیں اور نرم
ونازک استحقاق دستیاب ہوتاہے۔
قوم کے اِ ن رہنماؤں کی تربیت کون کرے گا؟ وہ اپنے رہنماؤں کے نام پر ایک
دوسرے سے دست و گریبان ہورہے ہیں، ایک دوسرے کے لیڈروں کو گالیاں دے رہے
ہیں، الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں، الٹے سیدھے نام رکھ رہے ہیں، دوسرے کو
نیچا دکھانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔جب دل چاہا ایوان کے اندر ہی
دوسروں پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیا، ہنگامہ ایسا کیا کہ کان پڑی آواز سنائی
نہ دے، احتجاج اُن کا حق ہے، واک آؤٹ ان کا استحقاق ہے، مگر دوسروں کے لئے
مغلظات کی گردانیں کرنے، مُکے مارنے، تھپڑ رسید کرنے، لاتیں چلانے کا
اختیار کس قانون کے تحت انہیں ملا؟ کیا اُن کے حلف میں یہ تمام فرائض بھی
شامل ہیں؟ کیا وہ انہی خدمات کے عوض قوم کا خون چُوستے ہیں؟ کیا قوم پر
برتری کا یہی تقاضا ہے؟ کیا ان کے کچھ فرائض نہیں ہیں، کہ وہ اسمبلی میں کن
اصولوں اور قواعد وضوابط کے پابند ہیں۔ اسمبلی کے اندر ایسے واقعات دیکھ کر
خون کھولنے لگتا ہے، مگر یہ ستم بھی ملاحظہ ہو کہ اسمبلی میں عوامی سٹائل
اپنانے والوں کے ساتھی معاملہ کو ختم کروانے کی بجائے اسے مزید ہوا دے رہے
ہیں۔ عمران خان نے تو یہ تک کہا کہ ’’میں ہوتا تو مزید آگے تک جاتا‘‘،
حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ ہم ہوتے تو یہ کردیتے ،وہ کردیتے۔ اور اگر یہ
کہا جائے کہ سب سے بڑے ظالم یہ عوام ہیں جو ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں،
جو اُن کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی بجائے اپنے لیڈروں کے نام پر لڑائی
کرتے اور ماحول خراب کرتے ہیں۔ عوام شاید مولا جٹوں کو پسند کرتے اور اپنے
نمائندوں کو مخالف پارٹی کے لئے اسی روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کی فلاح
وبہبود کا نام سب لیتے ہیں، مگر سطحی قسم کی لڑائی سے کسی کو فرصت نہیں،
عوام بھی انہی کے سحر میں مبتلا ہیں، گویا جیسے عوام ہیں ویسے ہی ان کے
لیڈر اور ویسے ہی حکمران۔ |