پاکستان زبان دراز دشمنوں کے نرغے میں

چیئرنگ کراس لاہور میں خودکش دھماکے کے بعد باجوڑکے رہنے والے گرفتار سہولت کار انوار الحق نے دوران تفتیش بتایاکہ اس کے پاس کل چھ خودکش جیکٹس تھیں ۔ چار جیکٹیں اس نے سانحہ یوحنا آباد ، سانحہ گلشن اقبال اور سانحہ چیئر نگ کراس میں حملہ آواروں کو فراہم کیں جبکہ دو جیکٹیں اگلے ٹارگٹ میں استعمال کرنی تھیں جو گرفتاری کے بعد سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اپنے قبضے میں لے لیں ۔ اس نے مزید بتایا کہ سانحہ چیئرنگ کراس سے قبل ایک دربار پر حملہ کرنے کاٹاسک ملا تھا لیکن بعد میں تبدیل کرکے کہاگیا جہاں پولیس افسران اکٹھے ملیں وہاں حملہ کردو ۔ چیئر نگ کراس میں یہ موقعہ مل گیا ۔

ایک طرف یہ انکشافات تو دوسری جانب خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی پرویز خٹک کی زہر آلود دھمکیاں اور بھڑکیں انتہائی تشویش ناک ہیں ۔ان کا لب و لہجہ اس سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے ۔ وہ گزشتہ دنوں لاہور آئے اورپختونوں کے ایک جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔شہبازشریف باز آجاؤ ، پختونوں کو نہ ستاؤ ۔ پختون دہشت گرد نہیں اگر وہ قربانیاں نہ دیتے تو دہشت گرد تمہارے گھروں تک پہنچ چکے ہوتے ۔ایسا ہی بیان پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ دے چکے ہیں کہ پنجاب میں پختونوں کے ساتھ ہونیوالے سلوک سے وفاق کمزور ہوگا ۔جبکہ بلوچستان اسمبلی نے بھی بلوچوں کے ساتھ سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اس کے باوجود کہ جماعت اسلامی کی پالیسی ہمیشہ صوبائی تعصب سے بالاتر رہی ہے لیکن بطور امیر مولانا سراج الحق نے تاریخ میں پہلی مرتبہ منصورہ لاہور میں پختونوں کا جرگہ بلاکر جماعت اسلامی کے منشور اور روایات سے یکسر مختلف اقدام کیا ۔ زہر انڈیلنے میں وہ پرویز خٹک سے بھی آگے نکل گئے ۔انہوں نے منصورہ میں پختون جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے وہی زہر آلود باتیں کیں جو پرویز خٹک کرچکے تھے ۔

چند دن پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق آرمی کے جوانوں نے صوابی کے قریب دہشت گردوں کوجب پکڑنا چاہا تو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے پاک فوج کے ایک کیپٹن جنید اور سپاہی امجدکوشہید کوکردیا ۔جبکہ ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں ماجد سکنہ( صوابی) ، یوسف عرف چھوٹا خالد اور جواد جو خیبرپختونخواہ کے ہی علاقے (ملک آباد) کے رہنے والے تھے ۔ میں یہ بات وزیر اعلی خیبر پختونخواہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا فوج کے افسر اور جوانوں کو شہید کرنے والے دہشتگرد بھی فرشتے تھے ۔ اب اس سے اگلی خبر ملاحظہ فرمائیں پنجاب میں سرچ اور کومبنگ آپریشن کے تحت درجنوں مشکوک افراد کو حراست میں لے کر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرلیا ۔ملتان سے آنے والی رپورٹ کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں خانیوال سے قاری محمداقبال ، شیراز رسول شامل تھے جبکہ حافظ آباد سے قریب ایک گاڑی کی تلاشی کے دوران بھاری اسلحہ پکڑا گیا ملزمان کا تعلق پنجاب کے علاقے حافظ آباد سے بتایاگیا۔یہ ملزمان قبائلی علاقوں سے اسلحہ لاکر پنجاب کے دہشت گردوں کو فروخت کرتا تھا ۔

کہنے کامقصد یہ ہے کہ دہشت گردوں کی نہ کوئی قوم ہوتی ہے اور نہ شناخت۔ اگر پنجاب کے لوگ پنجابی دہشت گردوں اور مجرموں کو معصوم قرار دے کر، سندھی عوام، سندھی دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو ہیرو بنا کر ، بلوچی عوام ، بلوچ لبریشن آرمی کو معصوم قرار دینے لگے تو کیا اس طرح پاکستان اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا ۔ کیا پاک فوج اپنا اتحاد اور ڈسپلن قائم رکھ سکے گی اور اگر خدانخواستہ یہ اتحاد اور ڈسپلن ختم ہوگیا تو نتائج کس قدر خطرناک ہوں گے کبھی اس کے بارے میں بھی زہریلے بیانات دینے والوں سوچا ہے ۔ دلوں میں تھوڑی سی بھی دراڑ پڑ جائے تو پھریہ دراڑ کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ قومی یکجہتی اور سا لمیت کے خلاف زہراگلنے والے 1971ء کے سانحے کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ جب بنگالیوں بے اعتبار ٹھہرے توافواج پاکستان کے تینوں اداروں کوناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔مغربی پاکستان میں تو پھر کچھ صورت حال بہتر رہی لیکن مشرقی پاکستان میں جس قدر تکلیف دہ مناظر سامنے آئے اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیاجاسکتا ۔ اگر کسی کو شک ہے تو اس دور کی کوئی کتاب لے کر پڑھ لے ۔جس میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستانی فوجیوں اور سویلین کے ساتھ انتہائی درد ناک اور وحشت ناک وارداتوں کی بھیانک تصویر نظر آتی ہے ۔ یہ وہ تلخ حقیقتیں ہیں جن سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ کبھی صوبائیت پھیلا کر ، تو کبھی مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر تو کبھی ذات برادری کو اونچ نیچ کی شکل دے کر جو مظاہر ے پاکستانی معاشرے میں دیکھنے میں آرہے ہیں وہ نہایت تکلیف د ہ ہیں ۔ ان کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیئے ۔

نفرتوں کے بیج اگر زمین میں بوئے جائیں گے تو پھول نہیں اگتے بلکہ کیسے کانٹے اگتے ہیں جو جسم میں پیوست ہوجاتے ہیں اور زخموں سے بہنے والا خون کسی کا بھی ہوسکتا ہے ۔ اﷲ نہ کرے وہ وقت آئے ۔ کسی کی ماں کو گولی دو تو لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں کیا یہ وطن ہماری ماں نہیں ہے کیا ہم ماں کی گالیاں سن کر بھی اسی طرح خاموش رہیں گے جس طرح آجکل محب وطن افراد کی اکثریت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور اخبارات اور ٹی وی لوگوں کو وطن عزیز کے خلاف زہر اگلتے ہوئے دیکھ کر خاموشی اختیار کی جارہی ہے ۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر تم برائی کے خلاف ہتھیارسے جہاد نہیں کرسکتے تو زبان سے مخالفت کر لو اگر ایسا بھی نہ کرسکو تو کم ازکم دل میں ہی اس کے بارے میں برا سو چ لوں ۔ زہر آلود بیانات دینے والوں کی نقل و حرکت اور حشرسامانیوں دیکھ کر ہم میں سے کسی بھی شخص میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ وطن عزیز کی سالمیت اور پاکستانیت کے خلاف بات کرنے والے کی زبان کو حلق سے باہر کھینچ لے ۔

گھر کی حفاظت گھر کے افراد ہی کرتے ہیں کوئی باہر سے آکر گھر کو نہیں بچاتا۔ اگر گھر کے افراد ہی باہم دست گریبان ہوجائیں تو اس گھر کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا ۔ پاکستان ہمارا گھر اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ہم سب کی ہے۔ جس طرح پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، کے پی کے اور گلگت کے لوگ پاکستان کے محافظ ہیں اسی طرح افواج پاکستان میں بھی پٹھان پنجابی سندھی بلوچی ، گلگتی اور کشمیری شامل ہیں جو پاکستان کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کررہے ہیں۔ خدانہ کرے پرویزخٹک ، محمود اچکزئی ، مولانا سراج الحق اور اسفند یار ولی جیسے مکروہ لوگوں کا سایہ بھی ان پر پڑے ۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو کیا پاک فوج دنیا کی عظیم فوج رہ سکے گی۔ اگر فوج نہ رہی تو کیا ہم سب آزاد اور باوقاررہ کر زندگی گزار سکیں گے ۔ہمیں اس لمحے شام اور عراق کا حشر نہیں بھولنا چاہیئے جو سارے کا سارا ملک ہی کھنڈر کا ڈھیر بن چکا ہے اور شامی مسلمان یا تو اپنی ہی فوج اور ان کے خلاف لڑنے والے باغیوں کے ہاتھوں میں شہید ہوکر قبرستان میں جاسو ئے ہیں یا وہ سمندری لہروں کی نذر ہوکر موت کی وادی میں جاسوئے ہیں ۔ اب بھی مارتے ہیں اور بیگانے بھی جینے نہیں دیتے ۔اس مسلکی جنگ میں امریکہ ، سعودی عرب اور روس ،ایران کی شرکت نے صورت حال کو اور بھی گھمبیر بنا دیاہے ۔ آٹھ دس لاکھ شامی مسلمان جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں لیکن وہ راستہ نہیں مل رہا جس پر چل کر پرامن زندگی کی جانب پیش قدمی کی جائے ۔

بھارت ، امریکہ،اسرائیل اور افغان حکمران ، پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ امریکی ، بھارتی اور افغانی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہمارے ملک میں اپنا نٹ ورک کامیابی سے بنا چکی ہے اور ہمارے ہی ہم وطن پاکستانیوں کو جن میں پنجابی پٹھان بلوچی اور سندھی لوگ بھی شامل ہیں پیسوں کا لالچ دے کر بم دھماکوں اور خود کش دھماکوں کے لیے اپنے ساتھ ملا چکی ہیں لیکن ہمارے بعض ناعاقبت اندیش سیاسی رہنمااور مذہبی لیڈر ان دہشت گردوں کو فرشتہ اور اپنا ہیرو ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔جن کی کاوشیں ہر سطح پر قابل نفرت اور قابل احتساب ہیں ۔

ہم یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اگر نفاق اور نفرت کے اس راستے پر چل رہے ہیں جو انتشار اور بربادی کی طرف جارہاہے ۔ تو ان کو روکنے اور قانون کی گرفت میں لانے کے لیے ہمارے حکمرانوں کے پاس وقت نہیں ہے ۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ذمہ دار حکومتی عہدوں پر فائز لوگ بھی ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔حالانکہ جس کو پاکستانی عوام اپنی نمائندگی کا حق تفویض کرتے ہیں انہیں بات کرنے سے پہلے تولنا پھر بولنا چاہئیے ۔کہنے والے تو اب یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران اور الطاف حسین کے زہر آلود بیانات میں اب کوئی فرق نہیں رہ گیا۔وہ کراچی بند کرنے کی دھمکی دیاکرتے تھے اور عمران پاکستان ہی بند کرنا چاہتے ہیں ۔پاکستان سپرلیگ ٹو کافائنل کا انعقاد تو متحدہ عرب امارات میں ہواتھالیکن لاہور میں فائنل میچ کروانے کا فیصلہ کرلیا گیا ۔اس پر پوری پاکستانی قوم بہت پرجوش تھی لیکن عمران خان سے قوم کی خوشی برداشت نہیں ہوئی اور فورا ہی بیان داغ دیا کہ لاہور میں فائنل کروانا پاگل پن ہے اور فوج کی نگرانی میں تو عراق اور شام میں بھی ورلڈ کپ کا فائنل کروایا جاسکتاہے ۔ یہ اس قدر زہریلا بیان تھا جو کوئی بھی محب وطن پاکستانی نہیں دے سکتا تھا لیکن عمران خان پاکستان کو بدنام کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ اسی بیان کو بنیاد بنا کر کوئٹہ کے سب سے ممتاز کھلاڑی( جن میں پیٹرسن بھی شامل تھے) یہ کہتے ہوئے لاہور میں فائنل کھیلنے سے انکار کردیا کہ جب عمران خود لاہور میں فائنل کروانے کو پاگل پن قرار دے رہا ہے تو میں اس پاگل پن کا حصہ کیوں بنوں ۔پیٹرسن اور کچھ دیگر کھلاڑیوں کے واپس جانے سے کوئٹہ کی ٹیم میں جو مضبوطی تھی اس میں بے حد کمی واقعی ہوگئی جس کا عملی مظاہرہ فائنل میچ کے دوران بخوبی دیکھاگیا ۔

بہرکیف پھر جب وزیر اعظم نواز شریف ، آرمی چیف اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی مشترکہ کوششوں سے لاہورمیں فائنل میچ کاانعقاد کچھ اس شاندار طریقے سے ہواکہ اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کراچی سے پشاور تک لوگوں نے ایک ہی دن میں ٹکٹ خرید کر ریکارڈ قائم کردیا ۔ اگر 26 ہزار شائقین سٹیڈیم کے اندر موجود تھے تو اس سے دو گنا زیادہ شائقین ٹکٹ سے محروم رہنے کی بناپر شہروں میں لگی ہوئی سکرینوں پر میچ دیکھ رہے تھے ۔کراچی ، کوئٹہ ،پشاور میں بھی بہت اہتمام سے فائنل میچ دیکھاگیا ۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق ، شیخ رشید احمد ، جاوید ہاشمی سمیت کتنے ہی سیاست دانوں نے یہ شاندار میچ گراؤنڈ میں عوام کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا اس رنگارنگ میچ میں پاک فوج کی پیراشوٹ کے ذریعے جہاز سے زمین پر اترنے کامظاہرہ ، بہترین میوزک شو بھی کرکٹ میچ کے علاوہ شامل تھے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سارے پاکستان نے مل کر یہ میچ نہ صرف دیکھا بلکہ بہت انجوائے کیا کیونکہ یہ صرف میچ نہیں تھا بلکہ پاکستان سے روٹھی ہوئی کرکٹ واپس لانے کی ایک کوشش تھی ۔ اس فائنل میچ کے پرامن انعقاد کے بعد زمباوے کی ٹیم پاکستان آنے پر آمادہ ہوچکی ہے ، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز سے بات چیت جاری ہے تو قع ہے کہ ان میں دوایک ٹیم ضرور پاکستان میں میچ کھیلنے پر آمادہ ہوجائے گی ۔اس لمحے جب ہر کوئی پاکستانی پرامن فائنل میچ ہونے پر خوشی منا رہا تھا تو عمران خان سے قوم کی یہ خوشی بھی نہیں دیکھی گئی اور فورا زہر آلود بیان داغ دیاکہ پاکستان سپر لیگ میں پھٹیچر قسم کے کرکٹر بلوائے گئے تھے جن کو کوئی ملک بلانے کی خواہش نہیں رکھتا ۔ ان کو اگر پیسہ دیا جائے تو وہ کسی بھی خطرناک جگہ پر جاکر کھیل سکتے ہیں ۔

ہونا اعزاز تھالیکن عمران خان نے پہلے اسے پاگل پن قرار دیا اب چہرہ بگاڑ کر کیڑے نکالنے میں مصروف ہیں۔کیا عمران سمیت یہ زہر آلود باتیں کرنے والے قانون سے بلندترہیں ، کیا ان کی زبان کو حلق سے باہر نہیں نکالا جاسکتا۔اگر الطاف حسین پر غداری کا مقدمہ بن سکتا ہے تو عمران ، پرویز خٹک ، محمود اچکزئی ،اسفند یار ولی پر کیوں نہیں بن سکتا ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی آستین میں کتنے ہی ملک دشمن چھپے بیٹھے ہیں جو پاکستان کی یکجہتی اور سلامتی کے خلاف روززہر اگلتے ہیں اور گرفت سے محفوظ رہتے ہیں ۔ کیا وزیراعظم کی حیثیت سے وطن عزیز کو غداروں سے محفوظ رکھنا نواز شریف کی ذمہ داری نہیں ہے اگر اسی طرح وہ خاموش رہے اور خدانخواستہ ملک کی سالمیت کونقصان پہنچا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ وہ جس سی پیک منصوبے کی گردان ہر لمحے کرتے رہتے ہیں۔ پھر نہ سی رہے گی اور نہ ہی پیک کہیں نظر آئے گا ۔ یہ گیم چینجر منصوبہ اسی وقت قابل عمل ہوگا جب تمام صوبے پاکستان کا حصہ رہیں گے اورتمام لوگوں کے دل میں محبت ، چاہت ، احترام اور رواداری پیداہوگی ۔ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے سے محبت بڑھتی ہے ۔لیکن غداروں کا سرکچل کر اپنے گھر ،وطن اور ملک کی حفاظت کرنابھی بہت ضروری ہے ۔کیا نواز شریف اور دیگر صوبائی حکمرانوں کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ایسے مکروہ لوگ جو زہر آلود باتیں کرتے پھرتے ہیں ان کے اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف انتشار پھیلانے اور بغاوت پر اکسانے کے مقدمات قائم کرکے انہیں مشق ستم بنائیں ۔ مولانا فضل الرحمان بظاہر تو نواز شریف کے دوست اور حمایتی ہیں لیکن ان کی وفا دار ی صرف اور صرف اپنے مفادات کے لیے ہوتی ہے وہ مفادات بھی حاصل کرتے ہیں اور دھمکیاں بھی خوب دیتے ہیں ان جیسا شاطر انسان پاکستانی سیاست میں نہیں دیکھاگیا ۔ انہوں نے قبائلی علاقوں کے عمائدین کی رگوں میں ہی زہر انڈیلنا شروع کررکھا ہے ۔وہ دل سے نہیں چاہتے کہ قبائلی علاقے پاکستان میں شامل ہو ں۔ وہ رہتے پاکستان میں ہیں لیکن دم افغانستان اور دہشت گردوں کا بھرتے ہیں ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ بھی نواز شریف کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں ۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی آستین میں نہ جانے کتنے ایسے ہی سانپ چھپے ہیں جو روزانہ زہر اگلتے ہیں لیکن نواز شریف کی زبان سے ایک لفظ بھی ان کے خلاف ادا نہیں ہوتا ۔کیااس طرح وزیر اعظم نواز شریف اپنی وطن پرستی اور اچھی شہرت کو داغدار نہیں کررہے ۔ وہ ملک دشمن عناصر کو کھلم کھلا کھیلتے ہوئے دیکھ کر اپنی توجہ سی پیک منصوبے پر ہی مرکوز رکھے ہوئے ہیں لیکن اگر نفرتوں کایہ آلاؤ آسمان کو چھونے لگا تو پھر نہ سی رہے گااور نہ پیک ۔ ہرمنصوبہ یکجہتی کے ماحول میں ہی پروان چڑھتا ہے نہ جانے کیوں یہ بات نوازشریف اور شہباز شریف کو سمجھ نہیں آتی ۔ اگر وہ پرویز خٹک کے ساتھ مل کر ان کی غلط فہمیاں دور کردیتے تو شاید انکی زبان سے قومی یکجہتی کے حق میں کوئی میٹھا لفظ بھی نکل آتا ۔ لیکن شہباز شریف نے بھی لاپرواہی کامظاہرہ کرکے چنگاری کو شعلے بنانے میں اپنا کردار ادا کیاہے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر نواز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے زہر اگلنے والے سانپوں کا سر نہ کچلا تو یہ پاکستان کی سلامتی ، یکجہتی اور سا لمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیں گے اور اس کے ذمہ دار بلا شبہ نواز شریف ہی ہوں گے ۔کیونکہ یہ سب کچھ انہی کے دور کا شاہکار بنے گا ۔ جہاں انہیں آج تک ایٹمی دھماکوں ،موٹرویز کی تعمیر ، سی پیک پراجیکٹ ، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے تقریبا خاتمے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نیک نامی اور معاشی استحکام کا کریڈٹ انہیں ملتا ہے وہاں ان کے دور میں ہونے والے منافقانہ حرکتوں ،بیانات اور مظاہرہ کا کریڈٹ بھی یقینا انہی کے کھاتے ہیں جائے گا ۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ جو شخص بھی ( چاہے وہ وفاقی یاصوبائی وزیر ہی کیوں نہ ہو )اگر وہ قومی یکجہتی ، فوج ، عدلیہ کے خلاف کوئی زہریلا بیان جاری کرے اور سیاسی منافرت پھیلانے میں اس کا ہاتھ نظر آئے تو اسی وقت قانون کو حرکت میں آجانا چاہیئے اور ایسے شخص کو ہر قسم کے سیاسی و انتظامی عہدے پر ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دینے کے ساتھ ساتھ عمر قید کی سزا بھی دی جانی چاہیئے ۔ اگر ایسا کیاگیا تو ہوسکتا ہے کہ یہ مکرو ہ اور قابل نفرت لوگ پاکستان کے خلاف اپنی زبانیں کھولنے سے پہلے کچھ بار سو چ لیں وگرنہ جیسے پرویز خٹک وزیر اعلی خیبر پختوانخواہ کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود لاہور میں آئے اور اپنی زہر آلودہ گفتگو سے سارے ماحول کو پرگندہ کرکے چلتے بنے ۔ وہ پختون بھائی جو مدت دراز سے پنجابی کلچر کا حصہ بن کر پرسکون انداز سے اپنی زندگی اور کاروبار چلا رہے تھے انہیں صوبائی تعصب کے رنگ میں رنگ کر پرویز خٹک نے ایک قومی سطح پر ایک ایسی دراڑ پیدا کرنی کی جستجو کی ہے جس کو فوری طور پر اگر نہ بھرا گیا تو یہ دراڑ آگے چل کر بہت وسعت اختیار بھی کرسکتی ہے ۔ اﷲ نہ کرے ایسا ہو ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 652930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.