مساجد و مدارس پر حکومت کی نگاہیں

تحریک کو زیر کرنے کے نام پر علماء کو نشانہ بنانے کی تیاریاں مکمل

 دلی والوں کا المیہ یہی ہے کہ وہ دلی میں مقیم باتونی مگر حالات سے بے خبر دانشوروں اور سراغرساں اداروں کی رپورٹوں پر مکمل تکیہ کرتے ہو ئے کشمیر کی صورتحال کو قابو میں لانے کی بے سود کوششیں باربار کرتے ہیں ۔نتیجہ اس کا یہ ہے کہ دلی والے پانی کی طرح روپیہ بہانے کے باوجود مکمل طور پر ناکام ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج کی دوا شفاء کے بجائے بیماری کو قابو کرنے کے بالکل برعکس ’’بے قابو ردعمل‘‘پیدا کر دیتی ہے ۔ 1948ء سے لیکر اب تک باربار مشاہدے میں آنے کے باوجود دلی والے سبق حاصل کرنے کے بجائے پھر وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ گذشتہ ستر برس میں کرتے آئے ہیں ۔اس کے اسباب بہت سارے ہیں مگر ایک اہم سبب شاید یہ بھی ہے کہ مختلف اداروں میں سربرآوردہ افسران کی ایک بڑی تعداد ابھی تک رٹائر منٹ حاصل کر کے گھر نہیں جا سکی ہے ۔جسمانی طور کمزور ااور لاغر لوگ پر تعیش دفتروں میں بیٹھ کر میدانی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بجائے پرانی ذہنیت کے ساتھ الفاظ بدل کر حکومتی اداروں کو غلط اطلاعات فراہم کر کے گمراہ کرنے کے باعث بنتے ہیں ۔اس کے لئے خفیہ رپورٹ ڈھونڈکر بطور دلیل پیش کرنے کی ضرورت قطعاََ نہیں ہے بلکہ اتنی سی بات کافی ہے کہ کشمیر کے حوالے سے دلی کا ذہن جہاں 1948ء میں تھا آج بھی اسی مقام پراکھنڈ بھارت اور ڈیجیٹل انڈیا کے خواب دیکھنے کے باوجود ڈھیرے ڈالے آپ اپنے اوپر ماتم کناں ہے ۔دلی کو یہاں کے حالات کا تجزیہ کرنے کے لئے لا محالہ کسی پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے ان اہم ترین ذرائع میں یہاں سے ہجرت کرنے والی کشمیری پنڈت برادری بھی ہے جن کے ذہنوں پر ابھی تک کشمیری مسلمانوں کے حوالے سے یہ غبار اٹا ہوا ہے کہ ہمیں دربدر کرنے والے کسی نرمی اور محبت کے حقدار نہیں ہیں یہ حضرات حکمرانوں کو کیاکیا بتاتے ہوں گے الیکٹرانک میڈیا سے لیکر پرنٹ میڈیا تک ان مہاجر بھائیوں کا لفظ لفظ اس پر خود ایک دلیل ہے ۔ ان میں بعض اصحاب ابھی تک کشمیر کی آٹھ سوسالہ ’’ہندؤ بھومی‘‘اور پھر ہمارے آباء کے اجتماعی طور پر داخل اسلام ہونے پر کڑھتے ہو ئے اسی پسِ منظر میں بات کرتے ہیں ۔

رہی مین اسٹریم یہ بصدقِ دل مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے خلاف ہے ۔کہنے کو وہ گذشتہ کئی سال سے مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کی وکالت کرتی ہوئی نظر آتی ہے مگر ان کے یہ بیانات اُن آف دی ریکارڈ سرگوشیوں سے قطعاََمیل نہیں کھاتے ہیں جو وہ وقت وقت پر ’’اپنوں‘‘کے سامنے کھل کر بیان کرتے ہیں ۔انھیں مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا مفاد اور اقتدار ختم ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کی بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ 2008ء سے لیکر2016ء دسمبر تک جب بھی کشمیر میں عوامی تحریک برپا ہوئی تو یہ حضرات انتہائی ہائی سیکورٹی زونز میں ’’مقید‘‘ہو کر خوف اور اندیشوں میں مبتلا نظر آئے ۔رہے جموں کے ہندو دوست انھوں نے اب وزیر اعظم ہاوس میں ڈھیر ڈالکر اپنے متعلق 2016ء اگست میں تمام تر غلط فہمیاں ختم کردیں جب انھوں نے پارلیمنٹ میں یہاں تک فرما دیا کہ آخر کشمیر جب ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور آزاد کشمیر ہمارا مطلوب ہے تو بحث و مباحثے کا آغاز کر کے ’’گڑھے مردے‘‘باہر نکالنے کی ضرورت کیا ہے ۔دلی میں برسراقتدار گجراتی ٹیم کو جب یہ ’’مخلصین‘‘ نجی محافل میں کشمیر پر کچھ کرنے کی التجا کرتے ہو ں گے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ بے شک آن ریکارڈ ’’آزاد کشمیر پر ایٹم بم گرانے‘‘کی بات شاید نہیں کرتے ہوں گے مگر کشمیر کی مساجد ،مدارس اور علماء کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کرنے تجویز ضرور دیتے ہوں گے اور نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے کہ جہاں گوجر برادری اور بکروالوں کے امدادی پیکیچ کی سفارش کی گئی وہی علماء اور مدارس پر ہاتھ ڈالنے کی وکالت کر کے پوری ریاست کو اضطرابی کیفیت میں مبتلا کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے ۔

عقل حیران ہے کہ دلی کے دانشمندوں سے یہ کس نے کہا ہے کہ حریت کے اعتدال پسند دھڑے پر’’ مذاکراتی احسان‘‘جتا کر اور سخت گیر حضرات پر ٹیکس محکمے کے ذریعے لگام کسنے سے وہ لوگ باز آجائیں گے اور پھر مساجد و مدارس کے ساتھ ساتھ علماء پر ہاتھ ڈالنے سے ان کا کوئی بھلا ہوگا !سچائی یہ ہے کہ ایک مرتبہ بھی مساجد و مدارس اور علماء پر ہاتھ ڈالتے ہی تحریک آزادی کشمیر ایک آتش فشاں بن جائے گا۔گو کہ وہ تحریک سے الگ تو نہیں ہیں مگر ان کی سرگرمیاں ایک الگ دائرے تک محدود ضرور ہیں ۔مساجد و مدارس کے ساتھ کشمیر کے مسلمانوں کے دل جڑے ہیں اور علماء کو یہاں ہر دور میں قابل احترام سمجھا جاتارہا ہے ان مقامات کو چھیڑنے کا مطلب براہ راست یہی لیا جائے گا کہ یہ ناگزیر جمعہ کرفیو نہیں بلکہ براہ راست اسلام میں مداخلت ہے ۔ویسے بھی اس حکومت سے متعلق مجموعی تاثر خاصا افسوسناک ہے اس لئے کہ یہ حکومت کرسی کے خاطر دلی والوں کوایک بھی مسئلے میں نا کہنی کی روادار نہیں ہے ۔تازہ انکشافات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت آزادی پسند لیڈروں کے بڑھتے اثرات اور مختلف معرکوں میں عوام کی بندوق بردار نوجوانوں کو بچانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا نے اور ’’مجاہدین کی شہادتوں‘‘کے بعدان کے لئے عوام کی بے مثال اظہار محبت و عقیدت نے ان کی نیندیں اڑا دیں ہیں اور عقل سے کام لیکر کچھ مثبت کرنے کے برعکس اسی طبقے کو کمزور کرنے کے بجائے اور قوت فراہم کرنے کے لئے ہر ادارے اور فرد پر ہاتھ ڈالنے کی حماقت کرنے کا عزم کیا ہے جو عوام میں ذرا بھی مقبولیت رکھتا ہو ۔
جہاں تک یہاں کی مساجد ان کے ائمہ اور خطباء کا تعلق ہے ان میں عموماََ سیاسی گفتگو نہیں ہوتی ہے ۔کشمیر میں جاری کشت و خون پر بھی بہت کم لب کھلتے ہیں ۔ 2010ء کے بعد اس رجحان میں قدرے تبدیلی ضرور آئی ہے اس لئے کہ سال کے چھ مہینوں میں یہاں احتجاج کا موسم نہیں رہتا ہے لہذا ائمہ اور خطباء اس بحث سے اجتناب کرتے ہیں جن کا زمینی حالات سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ چار مہینوں رمضان ،ذی الحجہ،محرم اور ربیع الاول میں روزوں ،قربانی اور سانحہ کربلا کے مسائل اور فلسفے میں نکل جاتے ہیں اور ربیع الاول میں سیرت النبیﷺ کے سوا کسی بھی بات کا تذکرہ نہیں رہتا ہے ۔لے دے کے وہ دو مہینے رہتے ہیں جو اگر گرمیوں کے ساتھ ساتھ احتجاجی تحریک کے ساتھ کسی طرح جوڑ کھالیں تو اس پر بات ضرور کرتے ہیں اور اگر خطیب اس پر بات نا کرے تو دوسرے جمعہ پر مولوی صاحب کی ان مخصوص حالات میں چھٹی یقینی بن جائے گی لہذا خطیب کو وہ بات کرنے کا حق حاصل ہے جس کا وقت تقاضا کرتا ہے ۔وہ عوام کی گردنیں کٹنے اور ان کے بچوں کے اندھے ہونے پر خاموش نہیں رہ سکتا ہے اس لئے کہ 2010 ء اور2016ء کے دو سالوں میں کشمیرکے اندر ایک بھی طبقہ بشمول ِ علما اور خطباباقی نہیں بچا جس کو سیکورٹی ایجنسیوں نے نشانہ نا بنایا ہو۔بلا تخصیص مسلک و تنظیم آج بھی بہت سارے خطباء اور علماء جیلوں میں بند ہیں تو کیا اس کا اثر دوسروں پر مرتب نہیں ہوگا ۔شاید ہی کسی صاحب ہوش انسان کو اس بات سے انکار ہو کہ کشمیر کے مسلم سماج میں علماء کا مؤثر رول ہے جس کا اعتراف گذشتہ اسمبلی اجلاس میں علماء سے متعلق وزیر اعلیٰ نے بھی مشکوک انداز میں کیا تھا گرچہ اس کے دعوے سے حقیقت کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

حکومت کا ان اداروں اور اشخاص پر ہاتھ ڈالنے کا مقصد جو بھی ہو کشمیر کے حالات اسے بدسے بدتر ہو جائیں گے اس لئے کہ یہ مذہبی ادارے ہیں اور قومِ کشمیر اس کو براہ راست اسلام کے خلاف ایک چیلینج مان کر مقابلہ کر ے گی اور پھر دوبارہ حالات بگڑ جائیں گے جو حالات آج بھی 8جولائی2016ء کی طرح ایک چنگاری کے منتظر ہیں۔حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حالات میں کوئی بھی مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر تعلیم کے بے سروپا بیانات نے حالات کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ شاید لوگ زخموں کو بھول تو جائیں مگر ان کے سوشل میڈیا پر پرانے رواں وی ڈیو بیانات بھولنے ممکن نہیں ہیں ۔پرانے زمانے میں سیاست دانوں کے لئے جھوٹ بولنا آسان تھا اس لئے کہ نہ ہی وی ڈیو کیمرے تھے نہ موبائل اور نا ہی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ۔آج کل سوشل میڈیا پر محبوبہ مفتی کے 2010ء کے حکومت کے خلاف سخت بیانات اور نوجوانوں اور تحریک کے تئیں ہمدردی پر مشتمل بیانات کے ساتھ راج ناتھ سنگھ کی ڈب شدہ وہ وی ڈیو وائرل ہو چکی ہے جس میں محبوبہ جی انڈے ،دودھ اور ٹافی کا سبق سنا کر اپنی پارٹی کارکنان تک کو برہم کرنے کا باعث بنی اس لئے کہ گپکار روڑ کے سیکورٹی حصارمیں کشمیرکے ’’شہزادوں اور شہزادیوں‘‘کا رہنا اورحالات کے رحم و کرم پر جینے والے کارکنان کے حالات میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کشمیر کے حالات اب کبھی بھی اخوانی غنڈہ راج کی جانب دوبارہ پلٹ جائیں گے تو مان لینا چاہیے کہ یہ لوگ عقل و دانش ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔

حیرت کی بات یہ کہ حکومت عوام کی اکثریت کو ناراض کرنے کے بعد مذہبی طبقے کو نشانہ بنانے کی تاک میں بیٹھی ہے یہ سمجھے بغیر کہ ہر محلے اور بستی میں بس یہی لوگ ایسے ہیں جن کو عزت و احترام کے ساتھ سنا اور سمجھا جاتا ہے اب اگر عقل سے عاری اور غلط اطلاعات پر بھروسہ کرنے کی خوگر دلی نے انہیں بھی مکمل طور پر حریت کانفرنس کی طرح نشانہ بنانے کی ٹھان لی ہے اور انھیں اسی میں اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہونے کی امید ہے تو انہیں احمقوں کی جنت میں رہنے کے شوق سے کون روک سکتا ہے ؟مذہبی طبقے اور ان سے جڑے لوگوں کے نظم و نسق کا اندازہ ان اجتماعات میں بخوبی لگایا جا سکتا ہے جن میں پانچ پانچ دس دس لاکھ لوگ شریک ہوتے ہیں اور ایک پیسہ کا بھی نہیں نقصان ہوتا ہے اور نا ہی بد نظمی کی کوئی شکایت ملتی ہے اس کے برعکس آپ غیر مذہبی لوگوں کے اجتماعات اور جلسوں کو دیکھئے، اتنی شکایتیں کہ اﷲ کی پناہ ۔حکومتی اداروں کو معلوم ہو یا نا ہو اگر 2016ء کے احتجاجی جلسوں اور اجتماعات کو مذہبی اور آزادی پسند طبقہ سامنے آکر نہ سنبھالتا تو کشمیر میں ریکارڈ قتل عام اورآخری درجے کے انسانی المیہ نے جنم لے لیا ہوتا ۔سو شہادتوں اور ہزاروں کے زخمی ہونے کے باوجود معاملات بالکل دوسرے ہو تے اور آج کشمیر بین الاقوامی برادری کی نگاہ میں کسی شام یا عراق سے کم نہ ہوتا اس لئے کہ مذہبی اور آزادی پسند قیادت نے نوجوانوں کو اس وقت صبر و تحمل اور توڑ پھوڑ سے باز رہنے کی تلقین کی جب پوری مین اسٹریم بے پتہ ہو کر دلی کی جانب دیکھ رہی تھی ۔شعلہ آتش اور بپھرے ہو ئے اس نوجوان نسل کاسامنا کرنے کی ہمت یہاں کی مین اسٹریم جماعتوں میں ہے ہی نہیں ۔ 2016ء میں ان لاکھوں نوجوانوں کے بیچ کھڑے ہو کر ان کے مزاج کے خلاف بات کرنے والے یہی آزادی پسند لیڈرشپ تھی کوئی دودھ ٹافی کے طعنے دیکر پیٹرول چھڑکنے والے نہیں۔

اس نازک صورتحال میں مذہبی رہنماؤں کو بالعموم اور علماء کو بالخصوص سمجھ لینا چاہیے کہ پورے اٹھائیس برس تک دامن بچاتے بچاتے بھی دلی ان کے حوالے سے اپنے ’’کفر‘‘پر لوٹ آئی گویا ان کے نزدیک ہر کشمیری مسلمان ہر حال میں ناقابل بھروسہ اور ناقابل اعتماد ہے ۔آپ نے بے شک تحریک آزادی میں 2016ء تک کوئی سرگرم رول نہیں نبھایااور دین کے اہم ترین شعبے کی دل و جان سے خدمت انجام دی مگر مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ہماری یہ غفلت ہمارے لئے علماء اندلس جیسی صورت کا پیش خیمہ ثابت نا ہو ۔اندلس میں سب کچھ تھا حتیٰ کہ ہزاروں مدارس اور یونیورسٹیاں بھی مگر وہ اس یلغار کا مقابلہ نہ کر سکی جو اندلس کو اسپین بنانے کے لئے ایک سیلاب کی صورت میں اندلس میں داخل ہوا اور پھر آسمان نے وہ دن بھی دیکھے جب قرطبہ کی مساجد اذانوں کے لئے ترسنے لگیں اور مومنین کی جبینوں کوچومنے کے لئے وہاں کی زمین تڑپ اٹھی مگر ہوا وہی جو غافل قوموں کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ مہلت خداوندی کے ختم ہوتے ہی قہاریت غالب آگئی اور ہم ہاتھ ملتے رہے اور اب آٹھ صدیوں تک آنسوں بہانے کے باوجود کفارہ ادا نہ ہوا۔عیسائیوں کے ہاتھوں قتل و غارت گری کے بعد دسترخوان پر ذلت کا سامنا اسپین کے مسلم علماء اور رہنماؤں کو ہرگز نہ کرنا پڑتا اگر انھوں نے چنگیز خان کے ہاتھوں سقوط بغداد سے سبق حاصل کر لیا ہوتا اس لئے کہ جو موقع انہیں اﷲ تعالیٰ کی جانب سے میسر ہوا تھا انھوں نے اس کو فقہی اور مسلکی اختلافات کی آگ بھڑکانے میں سرف کیا پھر وہی ہوا جو بغداد میں پیش آیا کہ آسمان سے نداءِ غیب آنے لگی ’’اے کافرو ان فاسقوں کو قتل کردو‘‘مگر مہلت ختم ہو چکی تھی یاس اور قنوطیت کا دروازہ کھل چکا تھا جو آج تک کھلا ہی ہے اس لئے کہ بقول حضرت عمرؓ توڑا ہوا دروازہ بند کبھی نہیں ہوگا ۔علماءِ کرام کہیں وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل تو نہیں جا رہا ہے اور ایسا نا ہو کہ کل ہمیں نا سوسائٹی قبول کرے اور نا ہی دوست اور دشمن ۔

مین اسٹریم جماعتوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ انہیں کشمیر کی مذہبی یا سیاسی جماعتوں کے ساتھ شدید اختلافات ہو سکتے ہیں مگراختلافات سے بڑھکر اتفاقات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مماثلتیں اور کئی مضبوط رشتے بھی ہمارے بیچ پائے جاتے ہیں۔وطنی ،مذہبی ،تہذیبی ،ثقافتی ،تاریخی اور جغرافیائی رشتے اس قدر مستحکم اور مضبوط ہیں کہ انہیں گنا جائے تو مستقل تاریخ وجود میں آجائے گی ۔ان رشتوں اور مماثلتوں کو دیکھ کر کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ مین اسٹریم دلی سے صاف صاف الفاظ میں کہدے کہ ہم وطن اور مذہب پر کوئی انگلی اٹھانا برداشت نہیں کریں گے ۔آخر مین اسٹریم کو ان مواقع پر سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے ؟جب اقتدار کی دیوی سے جوڑنے والی قوم کے اجتماعی مفاد کو زک پہنچانے والی قوتیں سامنے آتی ہیں ۔آخر مین اسٹریم کس مرض کی دوا ہے کیا صرف اقتدار اور کرسی ہی ان کا مطمح نظر ہے ۔آخر ایک روز مرنا ہے ۔تاریخ کا بے رحم قلم ہی نہیں خدائی قلمکار بھی آپ کے دونوں کندھوں سے ہر وقت جڑے آپ کی ڈائری لکھ رہے ہیں ،وہاں پل پل کا جواب تو دینا ہوگا مگر اس مرحلے سے قبل قوم کے سامنے جواب بھی تو تلاش کرنا ہوگا ۔ووٹ لینے کے بعد یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ وطن ،قوم،مساجد،مدارس اور مذہب سے متعلق انگلیاں اٹھانے والوں کو انہی کی زبان میں جواب دیں اس لئے کہ یہ قوم سہولیات ہی نہیں بلکہ آپ کے ذمہ ضروریات پہنچانے کے کام کو نظر انداز توکر سکتی ہے مگر مذہب اور وطن سے متعلق شرمناک زبان اور عزائم نہیں ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83115 views writer
journalist
political analyst
.. View More