جمعرات کے روزایک مرتبہ پھرقومی اسمبلی کے اراکین میں بات
نقطہء نظرکے اختلاف اورالزامات وجوابی الزامات سے بڑھ کر ہاتھاپائی بلکہ
مارکٹائی تک پہنچ گئی مارکٹائی سے یادآیابچپن میں ناناکے گھرجاتے ہوئے
راستے میں جوسینماپڑتاتھااسکے پوسٹروں پہ اکثریہ الفاظ لکھے ہوئے ملتے تھے
’’لڑائی اورمارکٹائی سے بھرپورشاہکار‘‘ کافی عرصے تک مارکٹائی کے معنی سمجھ
میں نہیں آئے ایک مرتبہ اپنے چچاسے پوچھناپڑاکہ چچاجی یہ مارکٹائی کیاہوتی
ہے؟ جب انہوں نے سمجھایاتوسمجھ میں آیاتب سے اب تک ہرفلم میں جب مارکٹائی
کے مناظرسامنے آتے ہیں تودماغ میں بچپن کی وہ یادداشت تازہ ہوجاتی ہے جب
مارکٹائی کامطلب تک سمجھنے سے قاصرتھے بہرحال قومی اسمبلی کی راہداریوں میں
ایک مرتبہ پھردوقومی نمائندگان الجھ پڑے اورایک دوسرے کوتھپڑمارنے کی نوبت
آئی شام کو اکثرٹی وی چینلزنے اس مارکٹائی کوپھرپورکوریج دی اوربریکنگ
نیوزمیں یہ خبرچلائی گئی یقین کیجئے یہ خبرسن کردل کوایک ٹھیس سی پہنچی کہ
ہماری قوم کن لوگوں کومنتخب کرکے ایوانوں میں بھیج دیتی ہے جنہیں ناہی
توبات کرنے کی تمیزہے ،ناہی یہ جمہوری روایات کاپاس رکھتے ہیں ،ناہی انہیں
جمہوریت کی الف ب کاپتاہے،ناہی انہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکارہے،ناہی
انہیں اخلاقیات کاکوئی علم ہے،ناہی ان میں برداشت کامادہ موجودہے اورناہی
ان کاکرداراس قابل ہے کہ یہ اسلامی دنیاکے سب سے اہم ملک کی پارلیمنٹ کے
ممبربن سکیں مقام افسوس ہے کہ اس پارلیمنٹ میں ایسے نمائندگان بھی رسائی
حاصل کرلیتے ہیں جن کی ڈگریاں تک جعلی ہوتی ہیں ،جن کی اخلاقی گراوٹ کایہ
حال ہوتاہے کہ انکے لاجزسے شراب کی بوتلیں برآمدہوتی ہیں ،یہ سرعام نشے
کااستعمال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ،یہ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے مرتکب
ہوتے ہیں،یہ ٹی وی ٹاک شوزمیں غیراخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں،یہ جلسوں
میں کسی پرکوئی بھی الزام لگادیتے ہیں،یہ مسخرے بن کر کسی کی بھی نقل
اتارتے ہیں،یہ مخالف سیاستدان کو’’سب سے بڑادونمبرآدمی‘‘ قراردیتے ہیں،یہ
امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں،کلبوں میں ڈانس کرتے ہوئے انکی
فوٹوزسوشل میڈیاپردیکھی جاتی ہیں،انکی گاڑیوں سے غیرقانونی اسلحہ اورمنشیات
برآمدہوتی ہیں،انہیں کرپشن میں قیدکی سزائیں ملتی ہیں،یہ نیب کے ساتھ
بارگین کرتے ہیں اوران تمام برائیوں کے باوجودیہ ہمارے نمائندے ہیں ہمارے
حکمران ہیں ہمارے آقاہیں اورہم انکے غلام ہیں ہم اگراس خوئے غلامی
کوخیربادنہیں کہیں گے اسی طرح ’’غیرمعیاری‘‘لوگوں کومنتخب کرتے رہیں گے،
انکے بے مقصدجلسوں میں ناچتے رہیں گے،اپنے اپنے لیڈروں کونعوذ بااﷲ نبی اور
پیغمبرکادرجہ دیتے رہیں گے،انکی برائیوں سے بھی پیارکرتے رہیں گے ،سیاسی
جماعتوں کے اعلیٰ وادنیٰ عہدیدار اپنے لیڈر کے اداکئے گئے الفاظ کادفاع
کرتے ہوئے نظرآئیں گے،’’ان کامطلب یہ نہیں تھا، ان کااشارہ اس طرف نہیں
تھا،وہ یہ نہیں کہناچاہتے تھے،انکی بات کودرست رپورٹ نہیں کیاگیا‘‘ کی
گردان کاہی قصورہے کہ آج ہماری سیاست گالم گلوچ کے مجموعے کاروپ
اختیارکرچکی ہے کل ہم بھرے جلسوں میں سرعام لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے رہے آج
کسی نے ہمارے لیڈرکوغدارکہاتوہمارے ہاتھ اسکے گال اورگریبان تک پہنچ جاتے
ہیں تم اسکے لیڈرکو’’چور،اچکا،ڈاکو،شلواریں گیلی‘‘ اورنجانے
کیاکیااورناقابل اشاعت گالیوں سے نوازتے ہومگرجواب ملنے پرآپے سے
باہرہوجاتے ہویہ کس ’’انقلابی ایجنڈے‘‘ کی تکمیل ہورہی ہے؟ یہ کونساسیاسی
کلچراس ملک میں پروان چڑھایاجارہاہے؟ اپنے ہرہرفعل کوبہرصورت درست منوانے
کی ضداس قوم کواخلاقی دیوالیہ پن کی جانب لے جارہی ہے خدارااپنے سیاسی
روئیوں پرنظرثانی کیجئے ورنہ یہ قوم اگرعرش پرپہنچاسکتی ہے توفرش پربھی پٹخ
سکتی ہے آج اگرغلطی سے کچھ لوگوں کو’’ضرورت سے زیادہ‘‘ عزت ملی ہی ہے
تواسکی لاج بھی رکھ لینی چاہئے اپنامقام دیکھ کرکوئی فعل سرانجام دیناچاہئے
آپ نے اگرہزاروں ووٹ حاصل کئے ہیں توسامنے والابھی لاکھوں لوگوں کانمائندہ
ہوسکتاہے آپ اس ملک کے تمام لوگوں کوریپریزنٹ نہیں کرتے اس ملک کے تمام لوگ
آپکی بات کودرست نہیں سمجھتے بائیس کروڑلوگوں کے اپنے اپنے لیڈرہیں جوانہیں
چاہتے ہیں، انکی نظریات سے اتفاق رکھتے ہیں ،انکی بات کودرست سمجھتے ہیں
اوراسے فالوکرتے ہیں کسی ایک سیاسی لیڈرکوتضحیک کانشانہ بنانے سے ہزاروں
لاکھوں لوگوں کے جذبات کوٹھیس پہنچتی ہے وہ آپکے لیڈرکوغداربھی کہیں گے ،اسے
احمق اوربے وقوف بھی کہیں گے اوراسے سیاستدان بھی نہیں مانیں گے آپ نے
اگران روئیوں کوبدلناہے، اس کاسامنانہیں کرناچاہتے اپنے لیڈرکیلئے گالم
گلوچ سننانہیں چاہتے تواپنی زبان کوقابومیں رکھناہوگااپنے مقام
کودیکھناہوگااپنے مرتبے کاخیال رکھناہوگادوسروں کوعزت دینی ہوگی انکے عزت
نفس اورجذبات کومدنظررکھ کرزبان کھولنی ہوگی جن روئیوں کی آج تک ہمارے
ہردلعزیزراہنماترویج کرتے آرہے ہیں آج اسی کانتیجہ ہے کہ قومی اور صوبائی
اسمبلیوں میں گالم گلوچ ہورہی ہیں، غیرپارلیمانی زبان استعمال ہورہی ہے،
غیرضروری فضول اورلغوالزامات لگائے جارہے ہیں اورسرعام ’’اگرمیں ہوتاتو اس
سے بھی آگے جاتا‘‘ یعنی تھپڑمکوں اورلاتوں سے تشفی نہ ہوتی تو گھتم
گھتاہوتے بات ماں بہن کی ننگی گالیوں تک جاتی اسلحے کااستعمال کیاجاتا
کارکن آپس میں لڑناشروع ہوجاتے بات گلی اورمحلوں میں لڑائیوں تک پہنچ جاتی
کیا ہی بہترروئیہ ہوتااگرکوئی ’’بڑا سیاسی لیڈر‘‘ اپنے کارکنوں
اور’’ٹائیگرز،شیروں،متوالوں ،جیالوں‘‘ کوصبرکی تلقین کرتابات سلجھانے کی
کوشش کی جاتی اوراسے بڑھنے ہی نہ دی جاتی مگراب بات حدسے بڑھ رہی ہے ان
روئیوں کوقانون کی سختی کیساتھ نفاذ سے روکناہوگاکوئی چاہے کتناہی
بڑامتوالا،جیالایاسرہتھیلی پہ لے کے پھرنے والاکیوں نہ ہوسپیکرقومی اسمبلی
کوواقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کراکے قصوروارکوقرارواقعی سزادلانی ہوگی
یہ سزاقومی اسمبلی کے اجلاس میں دی جائے سر شرم سے جھکنے جیسے روایتی
بیانات اس مسئلے کاحل نہیں کسی کے ساتھ کوئی نرمی یارعایت نہ برتی جائے
تاکہ سیاستدان اوراراکین پارلیمنٹ اپنے افعال وافکارکوانجام دیتے ہوئے
اوربیان کرتے ہوئے سمجھ بوجھ تدبریاکم ازکم اخلاقیات کاہی پاس رکھاکریں
گالم گلوچ اورلڑائی مارکٹائی کی سیاست سے ملک وقوم کی کوئی خدمت نہیں
ہوسکتی ہم نے اگرخودکوجمہوری معاشرہ کہلواناہے سیاست کرنی ہے تومہذب
اورشائستہ روئیے اپنانے ہونگے سیاست میں اختلاف دلیل سے کی جاتی ہے الزام
کاجواب الزام سے دیاجاتاہے غلیظ زبان اورتھپڑیامکوں کاسیاست سے کوئی تعلق
نہیں یہ داداگیری اورغنڈہ گردی کہلائی جاتی ہے۔ |