کتے کو وفادار جانور سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ
کتے کی وفاداری ہڈی سے مشروط ہوتی ہے۔ آج تو خیر چوری کا رواج نہیں رہا
ڈاکہ اور سینہ زوری کا رواج چل نکلا ہے۔ ماڑے کی گرہ کا مال اگر تگڑے نے
ہاتھ کر لیا ہے تو وہ تگڑے کا ہے۔ دعوی باندھنے کی صورت میں ماڑہ دھر لیا
جاتا ہے۔ بھلے زمانے تھے‘ چوریاں ہوا کرتی تھیں۔ سارا مال چور کا ہوا کرتا
تھا۔ آج کی طرح نہیں کہ ڈاکے کے مال کا غالب حصہ ڈاکا کشوں کا ہوتا ہے۔
اگلے وقتوں میں سیانے چور اپنے ساتھ ہڈی رکھتے تھے۔ کتے کے سامنے ہڈی پھینک
دیتے کتا ہڈی کا ہو رہتا اور وہ خود مال سمیٹنے میں مصروف ہو جاتے۔ گویا
کتے کی وفاداری مالک یا کسی شخص سے نہیں ہڈی سے وابستہ ہے۔
شروع شروع میں اسے دانت کا درد ہوا۔ قریب کے عطائی ڈاکٹروں سے دوا وغیرہ لے
کر کام چلانے کی کوشش کی گئی۔ کبھی آرام آ جاتا اور درد کچھ وقفہ ڈال کر
پھر سے شروع ہو جاتا۔ اس کے بعد دو ایک دانت کے ڈاکٹروں سے دوا لی گئی۔
عطائی ڈاکٹروں اور ان میں رائی بھر کا فرق نہ نکلا۔ ناچار دانت ہی نکلوانے
میں خلاصی خیال کی گئی۔ ہفتہ بھر غرارے کرنا پڑے اور دی گئی دوا کھانا پڑی۔
اس سے تقریبا دو ماہ آفاقہ رہا۔ اس نے شکر ادا کیا۔
دو ماہ بعد مسوڑے سے درد نکلنا شروع ہو گیا، حسب سابق معالجے کا کام شروع
ہوا۔ درد تھا کہ جان ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔ ناچار سرکاری ہسپتال لے جایا
گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ چھوٹے بڑے ڈاکٹر اور دوسرا عملہ صرف اور صرف
تنخواہ دینے کے لیے بھرتی کیا گیا ہے۔ تھک ہار کر لاہور کے سرکاری ہسپتالوں
کا رخ کیا گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہاں تو مقامیوں کے بھی پیو بیٹھے
ہوئے ہیں۔
گھر والوں نے سوچا بندہ دوا دارو کی تھوڑ سے مرنا نہیں چاہیے۔ پرائیویٹ
ڈاکٹروں کو آزمانے کا چارہ کیا گیا۔ انہوں نے علاج سے زیادہ ٹسٹوں پر زور
رکھا۔ ایک کا رزلٹ دوسرے سے میچ نہ کرتا تھا۔
دو سال ان ہی گھمن گھیریوں میں گزر گیے۔ زیور بک گیا مکان گروی پڑ گیا۔ اس
تگ و دو کا نتیجہ منفی صفر رہا۔ بےچارہ ندیم سوکھ کر تیلا ہو گیا لیکن اسے
اپنے گھر والوں پر کوئی گلا نہ رہا۔ ان بےچاروں نے اپنی پوری کوشش کی تھی۔
کہیں سے فیض حاصل نہ ہو پایا تھا۔ ہاں مسیحائی سے وابستہ نام نہاد مسیحاؤں
کے چہرے سے نقاب ضرور اتر گیا۔ وہ مسیحا کم قصابوں کے ابا حضور زیادہ تھے۔
ایک روز جانا تو ہے ہی‘ ندیم بھی چلا گیا اور اس حقیقت سے پردہ ضرور سرکا
گیا کہ کتے سے زیادہ بیماری وفادار ہے اور وہ جس کے ساتھ سانجھ بناتی ہے اس
کا آخر دم تک ساتھ دیتی ہے۔ اپنی راہ میں آنے والی ہر روکاوٹ کا ڈٹ کر
مقابلہ کرتی ہے۔ ہاں اسے ڈاکڑوں سے قطعا کوئی گلا یا شکوہ نہیں کیوں کہ وہ
بیمار سے زیادہ اسی کے طرف دار ہوتے ہیں۔
وہ بھی سچے ہیں کہ اگر بیمار تندرست ہو گئے تو ان کے طبلے الٹے ہو جائیں
گے۔ ان کی بڑی بڑی کوٹھیاں کاریں اور دیگر عیش و عشرت ان بیماروں کے دم ہی
سے تو قائم ہے۔ اگر بیمار تندرست ہو گیے تو وہ ناکارہ شے ہو کر رہ جائیں
گے۔ |