چار نومبر 2015 کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس
میں وزیر اعظم نواز شریف نےبڑئے واضع انداز میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا
کہ ’’عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے‘‘، پھر10 مارچ 2017 کو
انہوں نے جامعہ نعیمہ، لاہورمیں سیمینارسے خطاب کرتے علماءکرام سے مانگ کی
کہ ’’علماء کرام دہشتگردوں کے دلائل کا جواب دیں اورصوبائی تعصب کے خلاف
بھی آواز بلند کریں‘‘۔وزیر اعظم نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ’’خون کی
ہولی کھیلنے والوں کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔اسی دوران 7مارچ 2017 کو
اسلام آبادہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے لال مسجد کے دہشتگردوں
کی جانب سے بدنام زمانہ صفحات بھینسا، روشی اورموچی کے کے خلاف داخل کی
ہوئی ایک پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے بڑئے جذباتی انداز میں فرمایا کہ’’لبرل
ازم دہشتگردی سے زیادہ خطرناک ہے‘‘۔ اگرہم وزیر اعظم اور جسٹس شوکت کے کہے
ہوئےجملوں کا جائزہ لیں تو یہ آپس میں متصادم ہیں۔ملک کے وزیر اعظم کہنا
ہے کہ عوام کا مستقبل لبرل پاکستان میں ہے جبکہ ایک جج کی رائے یہ ہے کہ
’’ایک لبرل ایک دہشتگرد سے زیادہ خطرناک ہے‘‘۔
آجکل اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی جن پر اپنے عہدے سے
ناجائز فائدے اٹھانے کے الزامات ہیں مذہبی انتہا پسندوں میں خاصے مقبول
ہورہے ہیں، موصوف جماعت اسلامی کے بانی رکن مولانا نعیم صدیقی مرحوم کے
خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جماعت اسلامی والے بھی بڑئے فخر سےان کو اپنا ہی
کہہ رہے ہیں۔سال 2011 کے آخر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج منتخب ہوئے،
ابتک انہوں نے جو بھی فیصلے دیئے ہیں وہ ایک غیر جانبدار جج کے کم بلکہ ایک
مخصوص انتہا پسند سوچ رکھنے والے شخص کے زیادہ لگتے ہیں۔یکم اکتوبر 2011 کو
دہشتگردی کی عدالت کے جج پرویز علی شاہ نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل
ملک ممتاز حسین قادری کو دو مرتبہ سزائے موت اور دو لاکھ روپے جرمانہ کی
سزا سنائی۔ دو مرتبہ سزائے موت اس لئے سنائی گئی کیونکہ جج کے نزدیک یہ
دہشتگردی تھی اور فیصلے میں بھی دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ دہشتگردی
کی عدالت کے جج پرویز شاہ نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پرجسٹس صدیقی کیلئے
راہ بلکل کھلی چھوڑ دی تھی کہ جناب آئیے اور ممتاز قادری کے حق میں فیصلہ
کیجئے۔ جج پرویز شاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ممتاز قادری کا کام عین
شرعی ہے مگر پاکستانی قانون کے مطابق اسکی سزا موت ہے۔ یہ کیس مارچ 2015
میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوا تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس
شوکت عزیز صدیقی نےاس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے سوال کیا کہ
’’دہشتگردی کی دفعات کیوں شامل کی گئی؟‘‘۔جسٹس صدیقی نے اپنی سوچ کا
اظہارتو اپنے ریمارکس میں کردیا لیکن ممتاز قادی کووہ رہا نہ کرسکے بس اتنا
کیا کہ فیصلہ دیتے ہوئے دہشتگردی کی دفعات کو ختم کردیا اور ممتاز قادری کو
ایک مرتبہ سزائے موت کا حکم دیا،اور جب یہ کیس سپریم کورٹ میں پہنچا تو
سپریم کورٹ نے ممتاز قادری پر دہشتگردی کی دفعات کو دوبارہ بحال کیا
اورسزائے موت کا فیصلہ بھی برقرار رکھا، ممتاز قادری کو 29 فروری 2016 کو
پھانسی دئے دی گئی۔
اس سال جنوری میں سوشل میڈیا پر انتہا پسندی کے خلاف سرگرم ہیومن رائٹس
بلاگرز کو غائب کیا گیا اور مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے یہ افواہیں بھی
پھیلائی گئیں کہ اسلام آباد کے ڈاکٹرسلمان حیدر اور ان کے ساتھی بھینسا،
موچی اور روشنی نام کے ایسےصفحات چلا رہے ہیں، جو کہ اسلام اور افواج
پاکستان کے خلاف ہیں۔ ان صفحات کے بارئے میں عام طور پرلوگ نہیں جانتے تھے
لیکن عامر لیاقت نے بول ٹی وی پربیٹھ کر اس کا بہت پروپگنڈہ کیا، کچھ دن
بعد ڈاکٹرسلمان حیدر سمیت تمام بلاگرز اپنے گھروں کو واپس پہنچ گئے۔ ان
صفحات کے خلاف لال مسجد کے دہشتگردوں نے ایک پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ
میں جمع کرائی، ماضی میں لال مسجد کے دہشتگردوں کے کیس لڑنے والے جسٹس شوکت
عزیز صدیقی اب اس پٹیشن کو دیکھ رہے ہیں، ایک موقعہ پر وہ بہت جذباتی
ہوگےاور کہا کہ ان صفحات کو بند کروانے کیلئے اگر مجھے وزیراعظم کوبلوانا
پڑا تو میں انھیں بھی عدالت میں حاضری کا حکم دونگا اور اگر پورا سوشل
میڈیا بند کرنا پڑا تو وہ بھی کروں گا، اگر پی ٹی اے سے یہ صفحے بند نہیں
ہوتے تو پی ٹی اے کو ختم کردو مگر یہ بھینسا ، گینڈا ، کتا اور سور سب بند
ہونے چاہیں، جبکہ لوگوں کے مطابق یہ صفحات پہلے ہی بند ہوچکے ہیں۔ آخر میں
جسٹس شوکت نے اپنے دل کی بات یوں کہی کہ’’لبرل ازم دہشتگردی سے زیادہ
خطرناک ہے‘‘۔ اس موقعہ پر نامور خاتون وکیل عاصمہ جہانگیرکا کہنا تھا کہ
’’جس کو امام مسجد ہونا چاہیے وہ منصف بن بیٹھا‘‘۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اس بیان کی تعریف میں سارئے مذہبی شدت پسند واہ
واہ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد
پراچہ نے کہاہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے عاشقان
رسول کے دل جیت لیے ہیں ۔ طالبان، لشکر جھنگوی اور داعش کا حمایت یافتہ
دہشتگردگروپ’’تحریک الاحرار‘‘ نے جسٹس شوکت کے اس بیان کو خراج تحسین پیش
کیا ہے، یاد رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ پاکستان کے دستور کو مانتے ہیں اور
نہ ہی پاکستان کے قانون کو ۔ جسٹس شوکت سے پہلے پی پی پی کے سینیٹر
عبدالرحمان ملک تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر کوئی میرے سامنے گستاخی کرے
تو میں اسے قتل کردونگا، کئی بار ٹاک شوز میں انتہائی لبرل جبران ناصر اور
ماروی سرمد جیسے لوگ بھی یہ بات کرچکے ہیں۔جسٹس شوکت کی عدالت نے جن لوگوں
کی درخواست پر سماعت کی ہے وہ لوگ لال مسجد سےتعلق رکھتے ہیں، لال مسجد
والوں اور جماعت اسلامی کا مؤقف دہشتگردوں کے بارے میں یکساں ہے۔ لال مسجد
کے مولوی برقعہ اور جماعت اسلامی کے منور حسن کے بیانات سب کو یاد ہیں جو
دہشتگردوں کی حمایت اور پاک فوج کے خلاف تھے۔
اس میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتیں کے کوئی مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا مگر کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے
کہ کوئی مسلمان یہ قبیح فعل کر سکتا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ قبیح فعل خود
لال مسجد کی طرف سے کیا گیا ہے، کیونکہ اس گندئے فعل سے ملک میں انتشا
پھیلے گا جو دہشتگرد چاہتے ہیں۔ لال مسجد کا دہشتگرد عبدالعزیز اور اسکے
ساتھی کچھ بھی کرسکتے ہیں، لہذا جسٹس شوکت لبرل کو کوسنے کے بجائے یہ
تحقیقات کریں کہ بدنام زمانہ بھینسا، روشی اورموچی کے صفحات کس نے بنائے
تھے اور کون چلا رہا تھا، اور یہ تحقیقات اگر لال مسجد سے شروع کریں تو
شاید بھینسا، روشی اورموچی کے ساتھ ساتھ گینڈا، کتا اور سور سب وہیں مل
جایں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی یاد رکھیں کہ ایک لبرل کسی نہ کسی مذہب کو ماننے
والا ہوتا ہے، اسکے نزدیک مذہب کی بے حرمتی کرنا ناممکن ہے جبکہ لبرل کے
برخلاف دہشتگرد کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔جسٹس صدیقی نے جو جذباتی باتیں اپنے
آفس میں کیں ہیں حکومت پاکستان کو ان کو اس طرح کےرویے سے روکنا چاہیے
دوسرئے بھینسا، روشی اورموچی اور ان جیسے صفحات کے تخلیق کاروں کو تلاش
کرکے ان تمام پر سائبر کرائم لا کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور الزام ثابت
کرکے اس قانون کے تحت موت کی سزا دلوائی جائے۔
|