نہ ہی میرے قلم میں سکت، نہ ہی میری گفتار میں وہ جولانی
اور نہ ہی میرے کردار میں بلندی پھر بھی اچانک بیٹھے ہوئے کیوں مجھے خیال
آگیا کہ اس رجل عظیم کے بارے میں لکھوں جو میرے لکھنے کا محتاج نہیں ، لیکن
میں احسان فراموش بھی نہیں ، کہ اس شخص کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار
نہ کروں ، کہ جب میں عام پڑھے لکھے نوجوانوں کی طرح شکوک وشبہات میں مبتلا
اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا ۔اہل اسلام کے اختلاف دیکھ کر دین سے
متنفر ہو رہا تھا اور اس میں اہل اسلام کا کردار بھی تھا اور میری تشنگی
بھی جو مجھے سوالات پر ابھار رہی تھی۔ لیکن مجھے تو بتایا گیا تھا کہ وہ تو
گمراہ ہے۔ پھر نہ جانے کیسے ان کی کتاب "سنت کی آئینی حیثیت "کے مطالعہ کا
موقع ملا تو مجھے لگا کہ آج میں اندھیرے سے روشنی ،جہالت سے شعور اور
گمراہی سے راہ حق کی طرف آگیا میرے ذہن کے بند دریچے کھلنے لگے میری علمی
تشنگی کم ہونے لگی۔ حدیث کی حیثیت پر جتنے اعتراضات تھے انکا اتنا مدلل
جواب کہ بے اختیار دل آپکی طرف مائل ہو گیا ۔ پھر میں نے اپنی زندگی کا اک
عرصہ اس مجدد اعظم رجل عظیم مولانا سیدابوالاعلی مودودی کی تحاریر کے لیے
وقف کردیا مجھے یاد نہیں کہ میں کسی بھی جگہ ہوں میرے ہاتھ پہ مولانا کی
تحریر ، میرے بیڈ کے سرہانے آپکی کتاب نہ ہو ۔ میں نے باقاعدہ اپنی آمدنی
سے آپکی کتابیں خریدنے کیلیے کچھ رقم وقف کر دی ۔ پھر میرے لیے کوئی سوال
لاینحل نہ رہا الجھن ایسی نہ رہی جو مجھے شکوک میں مبتلا کر دے مجھے میرے
خدا کی پہچان نصیب ہوئی جو میری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے ۔آپ سے میں نے
سیکھا رائے انبیاء کے علاوہ بڑے سے بڑے عالم کی ایمان نہیں ہوتی اور نہ کسی
کی ذاتی رائے دین ۔ دین تو رائے کا احترام کرتا ہے لیکن اسکو پرکھنے کی
کسوٹی صرف اللہ کی کتاب اور نبی کی حیات ہے۔ آپ نے مجھ میں پرکھنے کی
صلاحیت اور ،اواختلاف کو برداشت کا حوصلہ پیدا کیا ۔ (یہ میرے جذبات کی رو
تھی جو مجھے بہا لے گئی جس سے اختلاف کی گنجائش ہو سکتی ہے )
بیسویں صدی کا آغاز امت مسلمہ کے لیے سیاسی اور فکری تنزلی لے کے آیا۔
خلافت عثمانیہ گو کہ علامتی خلافت تھی لیکن امت مسلمہ کیلیے اک سیاسی وحدت
کی علامت تھی اسکو ختم کر دیا گیا ۔ کمیونزم ، سوشلزم ،اشتراکیت اور
سیکولرازم جیسے نظریات عروج پکڑنے لگے ۔جنہوں نے عام تعلیم یافتہ نوجوان کو
متاثر کرنا شروع کردیا ۔اہل مدرسہ قیل وقال کی بحثوں میں الجھ کر اسلام کے
آفاقی پیغام کے بجائے اپنے مسلک کی دعوت میں مصروف ہوگئے ۔ خالص اسلام کی
بجائے اپنے مسلک اور فرقہ کے دفاع کیلیے کتابوں پہ کتابیں لکھی جانے لگی ۔
علاقہ ،زبان ،رنگ ونسل کی بنیاد پر قومیت کا تصور عام کیا جانے لگا ۔بڑے
بڑے علما نے ہندو اور مسلم کو علاقے کی مماثلت کی بنا پر اک قوم قرار دیا
۔سیاست و حکومت کے معاملات سے اسلام کو نکال کر نماز ،روزہ کی حد تک دین کا
تحفظ کیا جانے لگا ۔گو کہ امت مسلمہ میں اک فکری جمود اور ذہنی پسماندگی
پیداہو رہی تھی ۔ ایسے حالات میں عام مسلمان کے لیے رہنمائی مفقود ہوچکی
تھی ۔ اس فکری یلغار کے مقابلہ میں اللہ نے دو رجال عظیم کو اس فکری انتشار
کے خلاف عملی جہاد کی توفیق عطا فرمائی ۔ عرب میں حسن البناء اور برصغیر
میں مولانا مودودی کی صورت میں دین کے سیاسی تصور کی تجدید ہوئی ۔
مولانا مودودی نے برصغیر کے اندر اہل اسلام پہ احسان عظیم کرتے ہوئے رنگ
ونسل ،زبان و علاقہ کی بنیاد پر قوم کے تصور کو رد کرتے ہوئے تمام اہل
اسلام کو ایک قوم قرار دیا ۔ مسلمان خواہ کسی علاقہ رنگ ونسل اور زبان سے
تعلق رکھتا ہو وہ ایک قوم ہے ۔کمیونزم ، سیکولر ازم ،اشتراکیت اور وطن
پرستی جیسے نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام اپنا ایک مکمل نظام
حیات رکھتا ہے اور ہر مسلمان سے اسکے نفاز کے لیے کوشش کا مطالبہ کرتا ہے
۔اور یہ کوشش فرض عین ہے۔ اور دعوت صرف اسلام کی دی جائے گی نہ کے مسلک کی
۔مسلک سارے اسلام کے گلدستے ہیں جن کی منزل اسلام ہے ۔ پھر کہنے کی حد تک
نہیں آپ نے اس دور میں اسلامی نظام حکومت کیلیے ایک عظیم الشان لٹریچر
فراہم کیا جس میں موجودہ دور میں اسلامی معاشرت اور معیشت کے خدوخال واضح
کیے ۔
اس جدوجہد میں آپکی مخالفت کی گئی آپ پر فتوے لگائے گئے اور گمراہ قرار دیا
گیا لیکن جس نے آپکو کھلے دل سے پڑھا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اللہ
تعالی اس مجدد اعظم کی قبر پر کروڑوں رحمت فرمائے جس نے موجودہ دور کے
الحاد کا فکری اور عملی میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کیا اور مقابلہ کا حق ادا
کر دیا ۔ |