جناب آصف علی زرداری کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ’’ شارٹ
کٹس‘‘میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ عرفان اﷲ خان مروت کے ساتھ دوبئی میں ملاقات
کے بعد ان کی پی پی پی میں شمولیت کا فیصلہ یا اعلان ہوتے ہی بختاور اور
آصفہ بھٹو زرداری کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی بہنوں
کی حمایت کی۔ یہ کہا گیا کہ بینظیر کی صاحبزادیوں نے پارٹی کارکنوں اور
رہنماؤں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما کی پی پی
پی میں شمولیت کی مخالفت کرتے ہوئے دونوں بہنوں نے ٹویٹ کا استعمال کیا۔
انہوں نے عرفان اﷲ مروت کو’’ بیمار ذہنیت‘‘کا شخص قرار دے کر کہا کہ انہیں
پی پی پی میں نہیں بلکہ جیل میں سڑنا چاہیئے۔ وہ ایسے لوگوں کو پی پی پی کے
قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا چاہتیں۔ آصف علی زرداری نے مروت کو کیوں پارٹی
میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ،بختاور اور آصفہ بھٹو زرداری کیوں مروت کی
مخالفت کر رہی ہیں۔ اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔ عرفان اﷲ خان مروت سابق صدر
غلام اسحاق خان کے داماد ہیں۔ جب کہ ان پر پی پی پی چھوڑنے والے سابق
وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کے دور میں کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی
اے )کے ڈی آئی جی پی سمیع اﷲ مروت کے ساتھ مل کر پی پی پی پر مظالم ڈھانے
کا الزام ہے۔وہ وزیراعلیٰ کے مشیر داخلہ تھے۔جبکہ صدر مملکت کے داماد کی
حیثیت سے بھی وہ حکومت کے کرتا دھرتا بنے تھے۔ اس لئے انہیں متنازعہ شخصیت
سمجھا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے بھی ان پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں پر
تشدد کا الزام لگایا تھا۔ صدر غلام اسحاق خان نے جب 1990میں محترمہ بینظیر
بھٹو کی حکومت ختم کی میاں نواز شریف وزیراعظم اور اور سندھ میں جام صادق
وزیراعلیٰ بنے۔ عرفان اﷲ مروت کو سندھ کابینہ میں وزیر بنایا گیا۔ 1991میں
سابق وزیراعلیٰ سکندر حیات کی پوتی اور مسلم لیگی سینئر رہنما سردار شوکت
حیات کی بیٹی وینا حیات نے پولیس رپورٹ میں الزام لگایا کہ عرفان اﷲ مروت
نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کا گینگ ریپ کیا۔ مروت نے اس کے جواب میں
کہا کہ آصف زرداری نے انہیں پھنسانے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا ہے۔ یہ اپنے دور
کا ایک بڑا سکینڈل تھا ۔ اس کی وجہ سے نواز شریف اور جام صادق علی کی
حکومتیں قبل از وقت ختم کر دی گئیں۔ وینا حیات سمیت سندھ اسمبلی کی ڈپٹی
سپیکر شہلا رضا اور سابق سپیکر راحیلہ ٹوانہ پر بھی گرفتاری کے بعد سی آئی
اے سنٹرز پر تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ جو بینظیر بھٹو کی دوست
تھیں۔ شہلا رضا محترمہ کے بچوں کے کافی قریب ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بلاول بھٹو
زرداری کو اردو بول چال سکھا رہی ہیں۔
آصف علی زرداری موجودہ صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ مسلم
لیگ ن اور پی ٹی آئی کی سرد جنگ میں وہ فاتحانہ کردار ادا کرنے کے لئے سر
پاؤں مار رہے ہیں۔ وہ چوہدری برادران اور فیصل صالح حیات سے ہاتھ ملانا
چاہتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو پارٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو ریس میں
جیتنے والے گھوڑوں کا کردار ادا کر سکیں۔ایم پی اے امتیاز شیخ کی پی پی پی
میں شمولیت بھی اسی تناظر میں دیکھی جاتی ہے جب کہ وہ جام صادق کے سیکریٹری
رہ چکے ہیں۔ پی پی پی کے قائدین اور کارکنوں کی گرفتاری، تشدد، اغوا کے لئے
ان پر بھی الزامات عائد کئے جا تے ہیں۔وہ صدرجنرل(ر) پرویز مشرف کی ٹیم کا
بھی حصہ رہے ہیں۔اسی طرح جام صادق کا قریبی عزیز جام مدد علی بھی پی پی پی
میں شال ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں لا تعداد لوگ پارٹی کے سینئرز کی مرضی کے
خلاف پی پی پی میں شامل ہو چکے ہیں اور بعض شمولیت کے لئے پر تول رہے ہیں۔
عرفان اﷲ مروت کا حلقہ کراچی کا محمود آباد ہے۔ جو صوبائی اسمبلی کی نشست
ہے۔ شاید زرداری کے پی کے میں سیف اﷲ خاندان کی حمایت کے لئے مروت کو ساتھ
ملانا چاہتے تھے۔ پارٹی میں شمولیت کی شدید مخالفت سامنے کے بعد آصف زرداری
نے اپنے فیصلے پر از سر نو غور کیا ہے۔ شاید انھوں نے تحفظات سے مروت کو
بھی آگاہ کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ پی پی پی میں شامل ہونے کی تردید کر رہے
ہیں۔ جب کہ انھوں نے اس کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ
انھوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی صرف پی پی پی کی حمایت اور اس کی
قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مروت کی شمولیت سے پی پی پی
کے سینیٹر سعید غنی کو سیاسی نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ۔
ان کا تعلق محمود آباد سے ہے۔ عرفان اﷲ مروت بھی سمجھتے ہیں کہ بختاو ر اور
آصفہ بھٹو زرداری کو ان کے خلاف بھڑکانے میں سعید غنی کا ہاتھ ہے۔ تا ہم
عرفان اﷲ مروت نے مسلم لیگ ن کے خلاف جو الفاظ استعمال کئے اور پارٹی کی
پالیسیوں سے تنگ آنے کا بیان دیا، اس کی وجہ سے انہیں شاید مسلم لیگ ن سے
برطرف کر دیا جائے۔ انہیں 2013میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر پی ایس 144سے ایم
پی اے منتخب کیا گیا۔ ایم کیو ایم کی درخواست پر عدالت نے انہیں نا اہل کر
دیا تھا۔ یہ نشست اب تک خالی ہے۔ مروت بتا رہے تھے کہ انہیں زرداری پر
اعتماد ہے اس لئے ان کے ساتھ ملاقات کی۔ مگر اب سمجھا جاتا ہے کہ وہ کہیں
کے نہیں رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن ان کے خلاف ایکشن لینے پر غور کر رہی ہے۔ یہ
سب محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی صاحبزادیوں کی وجہ سے ہوا یا اس میں سینیٹر
سعید غنی کا ہاتھ ہے یا شہلا رضا کا انتقام کام کر گیا۔ جو بھی ہو ، آصف
علی زرداری کو پہلی بار ایسے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اب وہ مستقبل
میں قدم پھونک پھونک کر رکھیں گے اور بچوں کو نظر انداز کرنے کا خیال دل سے
نکال لیں گے۔ |