اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہت بڑی کامیابی درج
کرائی ہے اور اس پر بجا طور پر وزیراعظم نریندر مودی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اترپردیش نے ۲۰۱۴ میں بی جے پی کو اکثریت سے نواز کر سب کو چونکا دیا تھا
۔وہ ۳۲۸ حلقۂ انتخاب میں آگے تھی اور ۴۲ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس کے فوراً
بعد اگر اسے ۳۱۲ نشستیں ملتیں اور ۴۰ فیصد ووٹ ملتے تو کسی کو تعجب نہیں
ہوتا لیکن درمیان میں دہلی اور بہار نے توقعات بدل دیں ۔ خوشی ، غم اور
حیرت و استعجاب کا تعلق توقعات ہی سے ہوتا ہے ۔ نوٹ بندی کی حماقت اور کے
سبب ہونے والی عوامی مشکلات نے بی جے پی کی ناکامیوں کے امکانات میں اضافہ
کردیا لیکن اس کے رہنماوں کی محنت و مشقت اور امیت شاہ کی ذات پات کی سیاست
نے اس پر قابو پالیا ۔
حالیہ انتخابات کو کرکٹ کی سیریز سے تشبیہ دی جائے تو کہنا پڑے گا کہ اس
میں ایک ۵ دنوں کا ٹسٹ میچ دو ایک دن کے کھیل اور دو بیس اوورس کے مقابلے
تھے۔ ان میں سے ٹسٹ میچ ایک اننگز سے بھی زیادہ فرق سے بی جے پی نے جیت لیا۔
ایک دن کا کھیل برابری پر چھوٹا کانگریس اور بی جے پی نے ایک ایک میچ
تقریباً برابر فرق سے جیتا ۔ ٹی ۲۰ کے دونوں کھیلوں میں کانگریس معمولی فرق
سے کامیاب ہوئی ۔اس طرح ایک بڑی اور ایک اوسط کامیابی کے ساتھ بی جے پی کو
ایک اوسط ناکامی اور دو معمولی ناکامیوں سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے۔ایک
زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ جب اپنی قومی ٹیم ہارنے لگتی تھی تو کچھ دیش بھکت
یا سٹے ّ بازوں کے ایجنٹ میدان میں کود جاتے تھے ۔ میچ روک دیا جاتا ہے اور
ریفری کے ذریعہ ہارجیت کا فیصلہ کروایا جاتا تھا ۔ امیت شاہ بھی سیاسی
اکھاڑےکے ریفری یعنی گورنرکی مدد سےچیٹنگ کرکےگوا اور منی پور کا فیصلہ
اپنے حق میں کروا نے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ دراصل میدان میں ہاری ہوئی
بازی کو دولت کی مدد سے جیتنے کی سازش ہے لیکن عوام فیصلہ دیکھ چکے ہیں ۔
اتر پردیش میں بنیادی طور پر بی جے پی نے سماجوادی پارٹی کو اقتدار سے بے
دخل کیا اور بہوجن سماج پارٹی کو سرکار بنانے سے روکا کانگریس مقابلے میں
نہیں تھی اس لئے وہ نہیں ہاری لیکن بی جے پی کو تینوں مقامات پر کانگریس نے
ہرایا ۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح اس بارامیت شاہ نے کانگریس مکت بھارت کا
نعرہ بلند کرنے سے محروم رہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے علاقائی جماعتوں کا
مضبوط ہوجانا بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن کانگریس کی ٹوٹی پھوٹی کامیابی بھی
قابلِ توجہ ہے۔ اتر پردیش میں نہ تو بی جے پی پہلی بار اقتدار میں آئی اور
نہ پہلی بارکسی کو ۳۰۰ سے زیادہ نشستیں ملی ہیں۔ یہ چوتھا موقع ہے کہ جب
کسی جماعت نے ۳۰۰ سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ ۱۹۵۱ میں کانگریس کو ۳۲۸
نشستوں پر کامیابی ملی تھی اس کے بعد ۱۹۷۷ میں نوزائیدہ جنتا پارٹی ۳۵۲
نشستیں جیت گئی تھی۔ ۱۹۸۰ میں پھر یہ ہوا کہ کانگریس کو ۳۰۵ نشستیں مل
گئیں اور اس بار بی جے پی کے محاذ کو ۳۲۵ سیٹوں پر کامیابی ملی اس لئے یہ
کوئی انہونی نہیں ہے۔
بی جے پی کی کامیابی کے پیچھے ہندوسماج میں ذات پات کا تناسب اور اس کا
مختلف انداز اپنے آپ کو ترتیب دینے کا عمل کارفرماہے۔ اتر پردیش میں ۴۲
فیصد پسماندہ ذاتیں ہیں جن میں ۹ فیصد یادو ہیں۔ نام نہاد اونچی ذات کے لوگ
۲۳ فیصد ہیں جن میں ۱۰ فیصد براہمن ہیں ۔ دلت ۲۱ فیصد اور مسلمان ۱۹ فیصد
ہیں ۔ ۱۹۹۱ میں رام رتھ یاترا کے بعد جب اونچی ذات کے لوگوں کو بی جے پی
کے اقتدار میں آنے کی امید بندھی تو وہ سب اس کے ساتھ ہوگئے۔ ان کے علاوہ
پسماندہ ذاتوں کے غیر یادو لوگ بھی بی جے پی کے ساتھ آئے اور اسے ۲۲۱
نشستوں پر کامیابی ملی۔ اس کے بعد جب براہمن اس سے مایوس ہوئے تو ان میں سے
کچھ کانگریس اور بی ایس پی کی جانب متوجہ ہوئے ۔ اس طرح بی ایس پیدلتوں کے
علاوہ براہمنوں اور مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آگئی ۔ جب تک اونچی ذات
کے لوگ بنٹے رہے بی جے پی اقتدار سے محروم رہی ۔ پارلیمانی انتخاب میں بی
جے پی کی کامیابی کے بعد پھر سے اعلیٰ ذات کے لوگوں نے یک مشت بی جے پی
کوووٹ دیا اور وہ پھر سے اقتدار میں آگئی ۔
اس بار امیت شاہ نے سماجوادی پارٹی میں موجود یادو اور غیر یادو کی تفریق
ڈال دی اور ۳۳ فیصدغیر یادو رائے دہندگان میں سے ایک طبقہ کو لبھانے میں
کامیاب ہوگئے۔ بی جے پی یوپی کا صدر ایک پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتا تھا ۔بی
جے پی سماجوادی پارٹی کےناراض پسماندہ رہنما وں کو ساتھ لینے میں کامیاب
ہوئی ۔ اسی طرح بی جے پی نےاس بار مایاوتی کے خیمہ سے دیگر طبقات بلکہ
دلتوں کے بھی اپنے قریب کیا۔ وہ تو صرف مسلمان اور یادو ہیں کہ اس کے خلاف
دیوار بن کر کھڑے رہے۔ امیت شاہ کو اس انتخاب میں سماجوادی پارٹی اور
کانگریس کانادانستہ تعاون حاصل ہوگیا۔ سماجوادی پارٹی کے اندر ملائم سنگھ
یادو کے خاندان کی اقتدار کے حرص نے دیگر پسماندہ رہنماوں کو برگشتہ کیا ۔
ایوانِ پارلیمان میںملائم ، ان کا بھائی، اور ایک بہو ۔ اسمبلی کی دوڑ میں
بھائی ، بیٹا اور دوسری بہو گویا اقرباء پروری تمام حدود کو پار کرگئی ۔ اس
کے علاوہ ملائم اور اکھلیش کی نورا کشتی کی زد میں جوغیر یادو رہنما آئے
انہوں نے بی جے پی میں شامل ہو کر کمل کو کھلا نے میں اہم کردار اداکیا ۔
کانگریس نے ابتداء میں اپنے براہمن رائے دہندگان کو لبھانے کیلئے شیلا دکشت
کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بنایا ۔ اس کے نتیجے میں ریتا بہوگنا جوشی
جواترپردیش میں کانگریس کا براہمن چہرا تھا بی جے پی میں چلی گئی۔ آگے چل
کانگریس نے جب سماجوادی کے ساتھ الحاق کرلیا تو رہے سہے براہمن بھی بی جے
پی کے ساتھ چلے گئے اس لئے کہ براہمن اور یادو ساتھ نہیں آتے ۔ اس طرح
سارے اعلیٰ ذات کے ووٹ ایک طرف ہوگئے۔ مایاوتی کا ساتھ چونکہ پسماندہ اور
اعلیٰ ذات کے لوگ چھوڑ چکے تھے اس لئے انہوں نے ۱۰۰ ٹکٹ مسلمانوں کو دے
دیئے۔ اس بار اتر پردیش کے مسلمان یکمشت ووٹ دینے میں چوک گیا۔مسلم ووٹ ایک
ہی حلقۂ انتخاب میں بی ایس پی اور ایس پی کے درمیان تقسیم ہوا جس کے نتیجے
میں کئی مسلم اکثریتی علاقوں سے بھی بی جےپی کے امیدوار بہت کم فرق سے
کامیاب ہوئےاور بی جے پی کو ۴۰ فیصد ووٹ کے باوجود ۷۵فیصد نشستیں ملیں ۔
انتخاب کے درمیان میں شمسان اور قبرستان کی بحث، گجرات سے آئی ایس آئی
اور داود کے نام پر گرفتاریاں اور سیف اللہ کے انکاونٹر سے بی جے پی نے
کھلی فرقہ پرستی کا سہارا لے کر ہندو رائے دہندگان کو رجھانے کی کوشش کی ۔
مجلس اتحاد المسلین کا براہِ راست فائدہ تو بی جے پی کو چند سیٹوں پر ہی
ہوا مگر ہندوتوا کی اشتعال انگیزی کاترکی بہ ترکی جواب نےبہت سارے ہندووں
کو بی جے پی کے خیمہ کی جانب ڈھکیلا ۔ یہ دانستہ اور نادانستہ محرکات مودی
لہر کہلائے۔ ان انتخابات سےہندو رائے دہندگان کی ایک خاص نفسیات کا بھی
مظاہرہ ہوا۔عام طور پر مسلمانوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی
شکست دینے کیلئے امیدوار کا اخلاق و کردار نہیں دیکھتے یا اس کی وعدہ
خلافیوں سے بے نیاز ہوجاتے ہیںلیکن اس بار ہندو رائے دہندگان تواپنے
امیدوار کو جتانے کی ہوڑ میں ان تکالیف کو بھی بھول گئے جو نوٹ بندی کے
حماقت خیز فیصلے کے سبب ہوئی تھیں۔ اے ٹی ایم کی لائن اور اس میں ہونے والی
اموات تک ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکی بلکہ ذات اور مذہب کا بول بالا
ہوگیا ۔
انتخابی نتائج سے قبل اکھلیش کہا تھا کہ اگر ذات دھرم کے نام پر ہی رائے
دہندگان ووٹ دیتے ہیں تو کوئی ہائی وے (سے مرادترقیاتی کام ) کیوں بنائے؟
سچی بات تو یہ ہے کہ عوام کو اپنی فلاح و بہبود میں اور سیاسی جماعتوں کو
ملک کی تعمیر و ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عوام تو بس تفریح طبع اور
اپنی شان بگھارنے کیلئے یا غم غصے کا اظہار کرنے کیلئے ووٹ دیتے ہیں ۔ جس
کا فائدہ اٹھا کر سیاسی رہنما عیش کرتے ہیں ۔ ہندوستانی سیاست میں ابن
الوقتی کے باعث لوگ بڑی آسانی سے اور بڑے ارمانوں سے پارٹی بدل لیتے ہیں ۔
کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ پہلے والے لوگوں کے ساتھ
نوواردوں کو خوش کرسکے اس لئے یہ آرزو مند لوگ بہت جلد غیر مطمئن ہوجاتے
ہیں ۔ امیت شاہ کی حکمت عملی یہی تھی کہ اس نے سماجوادی پارٹی اور بہوجن
سماج پارٹی کےناراض لوگوں کو برگشتہ کرکے اپنے ساتھ لینے میں کامیابی حاصل
کی لیکن بہت جلد ان میں سے بھی کئی لوگ پھر سےبے اطمینانی کا شکار ہوجائیں
گے۔ ایسے میں اکھلیش اورمایاوتی کیلئے موقع ہوگا کہ وہ انہیں اپنی جماعت
میں واپس لائیں ۔ دراصل امیت شاہ کے لوہے کو اسی کے لوہے سے کاٹا جاسکتا ہے۔
اکھلیش اور مایاوتی کو ناصر کاظمی کا یہ شعر یاد رکھنا چاہیے؎
کون ہے ، اُس کے ، وہاں ، ناز اُٹھانے والا
آ بھی سکتا ہے مجھے چھوڑ کے جانے والا
اکھلیش اور راہل نے انتخابی مہم کے دوران ثابت کردیا کہ وہ ہوشیار اور ذہین
سیاسی رہنما ہیں اور بی جے پی کے شو شوں کا جواب دے سکتے ہیں لیکن یہ کافی
نہیں ہے۔ پارٹی کی تنظیمی حالت کو اگر زمینی سطح پر نظر انداز کیا گیا تو
مودی کا توڑ تو ہوجائیگا لیکن امتہ شاہ کی چالاکی کا مقابلہ نہ ہوسکے گا ۔
ملائم سنگھ یادو ، کانشی رام اور کانگریس کے ابتدائی رہنماوں نے مختلف
طبقات کے رہنماوں کو جوڑ کر جس طرح پارٹی کے قدم جمائے تھے وہ سعی ناگزیر
ہے۔ انتخابی مہم میں روڈ شو اور تقاریر کے ساتھ ساتھ مختلف طبقات کےمقامی
رہنماوں کا ساتھ لازمی ہے۔ اس بار مایاوتی کا دلت بھی بڑی تعداد میں بی جے
پی کی جانب متوجہ ہوا ۔ ورنہ مسلمانوں کے ووٹ کے باوجود بی ایس پی کو صرف
۲۲ فیصد ووٹ نہیں ملتے جبکہ ۲۰۱۲ میں شکست کے باوجود ۲۶ فیصد ووٹ اس کے
پاس تھے اور ۸۰ سیٹیں تھیں ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ۲۰۱۴ کی بہ نسبت
اس کی حالت بہتر ہوئی ہے اور اس کو ۱۰ سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔ سماجوادی
پارٹی کے پاس بھی ۲۲ فیصد ووٹ ہنوز موجود ہے اس میں بی ایس پی کے ۲۲ اور
کانگریس کے ۶ فیصد ملادیئے جائیں تو یہ ۴۸ فیصدہوجاتا ہے یعنی فی الحال
بہار جیسا مہاگٹھ بندھن امیت شاہ کو بہار جیسی شکست سے دوچار کرنے کیلئے
ناگزیر اور کافی و شافی ہے۔
یہ بجا ہے آج اندھیرا ہے ذرا رت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ وبر
میڈیا کی طرح مسلمانوں کو بھی دیگر ریاستوں کےبجائے صرف اترپردیش میں
دلچسپی ہے اور انہیں اپنے ارکان کی تعداد کےنصف ہوجانے کا غم ستا رہا ہے۔
نفسیاتی اعتبار سے وہ درست بھی ہے لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اس دورِ پرفتن
میںبلا تفریق مذہب و ملت ارکان اسمبلی عوامی فلاح و بہبود کیلئے نہیں بلکہ
جو دولت انتخاب لڑنے میں لگائی گئی ہے اس کو کئی گنا بڑھا کر وصول کرنے
کیلئے انتخابی دنگل میں اترتے ہیں اور اسی میں لگے رہتے ہیں الاّ ماشاء
اللہ۔ حدیث میں جھاگ کی مثال ان پر پوری طرح صادق آتی ہے ۔ جھاگ نظر تو
خوب آتا ہے لیکن بے وزن ہوتا ہے۔ موجوں کے ساتھ اِدھر اُدھر ہوتا رہتا
ہے۔( مختار انصاری شیولال کے کہنے پر سماجوادی میں آجاتے ہیں اور اکھلیش
کے نکالنے پر مایاوتی کے ساتھ چلے جاتے ہیں)۔ حدیث میں اس کی وجہ دنیا کی
محبت اور موت کا خوف بتا یا گیا ۔ اس برائی میں عوام بھی ملوث ہوگئے ہیں
اور اس کا نتیجہ ہے کہ دیگر اقوام ہم پردسترخوان کی مانند ٹوٹے پڑ ے ہیں ۔
ان دو خرابیوں سے نجات کے بغیر ارکان اسمبلی کی تعداد کا بڑھنا اور گھٹنا
ہماری حالت نہیں بدل سکےگا۔انتخابی ریاضی کے اس کھیل میں ہماری حالت ایسی
ہوگئی ہے کہ ؎
نفی ہم ہو نہیں سکتے جمع سے ہم کو نفرت ہے
ہیںخ تقسیم کرتے ہیں تو کچھ حاصل نہیں ہوتا
اتر پردیش کا بغل بچہ اتراکھنڈ میں بھی بی جے پی نے زبردست کامیابی درج
کرائی ۔ اس ریاست میں عوام کے اندر کانگریسی حکومت کے خلاف جو غم و غصہ تھا
اس کا اظہار انتخابی نتائج میں ظاہر ہوا ۔ کاش کہ امیت شاہ ایک سال صبر
کرتے توپچھلے سال کی سپریم کورٹ میں ہونے والی ذلت ورسوائی سے بچ جاتے لیکن
اقتدار کی حرص و ہوس انسان کو جلدباز اور بے غیرت بنا دیتی ہے۔ اتراکھنڈ
میں ۲۰۱۲ کے مقابلے بی جے پی نوست ں میں ۳۱ کا غیر معمولی اضافہ ہوا ہے
لیکن ۲۰۱۴ کی بہ نسبت اس کی ۶ نشستیں کم اور کانگریس کی ۴ بڑھی ہیں یعنی
اگر یہ انتخاب ڈھائی سال پہلے ہوتے تواسے ۱۱ کے بجائے صرف ۷ نشستیں ملتیں ۔
کانگریس کو یہ اطمینان ہے کہ کم ازکم وہ حزب اختلاف ہے۔ یعنی اس کی حالت
پنجاب کی بی جے پی سے بہتر ہے جو پچھلی مرتبہ کے مقابلے ۱۲ سے گھٹ کر ۳ پر
پہنچ گئی اور اس کی ساتھی اکالی دل ۵۶ سے ۱۵ پر ۔ پنجاب میں بی جے پی
چوتھے، اکالی دل تیسرے اور عام آدمی پارٹی دوسرے مقام پر آئی ہے۔ کانگریس
کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ۔
منی پور میں بی جے پی کو ۲۱ نشستوں پر کامیابی ملی جبکہ کانگریس نے ۲۸
سیٹوں پر قبضہ کرلیا ۔ وہاں پر ترنمل کو ایک سیٹ ملی ہے اور اس کیلئے بی جے
پی کے ساتھ جانا مشکل ہے۔ اس کے باوجود اروناچل کی طرح ان چھوٹی ریاستوں کے
سیاستدانوں کو جنہوں نے بڑا پیسہ نہیں دیکھا ہے چھوٹی قیمتوں پر خریدا
جاسکتا ہے۔ گواملک کے وزیردفاع کاصوبہ ہے ۔ وہاں پر بی جے پی کی نشستیں گھٹ
کر ۲۳ سے ۱۴ پر پہنچ گئی ہیں ۔ اگر ۲۰۱۴ کے انتخابات سے موازنہ کیا جائے
تو اسے ۱۹ مقامات پر پیچھے ہٹنا پڑا ہےجبکہ کانگریس ۹ سے بڑھ کر ۱۸ پر پہنچ
گئی ہے ۔اس کو اکثریت کیلئے صرف ۲ کی حمایت درکار ہے۔ گوا میں نہ صرف بی جے
پی وزیراعلیٰ انتخاب ہار چکا ہے بلکہ اس کے ۸ میں سے ۶ وزراء کو عوام نے
دھول چٹا دی اس کے باوجود بی جے پی نے جمہوریت کی آبروریزی کرکے حکومت بنا
نے کا دعویٰ پیش کردیا ہے ۔
گوا جیسی چھوٹی ریاست جہاں سے صرف دو ارکان پارلیمان منتخب ہوتے ہیں جوڑ
توڑ کرکے اپنا ناجائز اقتدار قائم کرنے کیلئے قومی وزیردفاع کو معزول کرکے
بھیج دیا بی جے پی کی جعلی دیش بھکتی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ بی جے پی نےاگر
منوہر پریکر کو گوا سےایک اہم ذمہ داری کیلئے مرکز بلایا تھا تو قومی مفاد
کو بھینٹ چڑھا کر انہیں گوا نہیں بھیجنا چاہیے۔ منوہر پریکر کی حالت زار پر
کے جی کے بچوں کو پڑھائی جانے والی انگریزی کی نظم ’’ہمپٹی ڈمپٹی سیٹ آن
دا وال، ہمپٹی ڈمپٹی ہیڈ آ گریٹ فال‘‘ (Humpty Dumpty sat on the wall,
Humpty had a great fall) یاد آتی ہے ۔اس منطق سے تو گجرات میں بھی
انتخابات کے بعد گوا جیسی صورتحال پیدا ہوجائے تو وزیراعظم کو استعفیٰ دے
گجرات کا وزیراعلیٰ بن جانا چاہیے اور اگر ڈمپٹی کا دیوار سے گرنا مناسب
نہیں ہے توہمپٹی کا کیسے ہوگیا؟
ہندوستان کے سارے لوگ بشمول مسلمان اور سنگھ پریوار ایک جہاز میں سوار ہیں
۔ اس جہاز کی حالت یہ ہے اروم شرمیلا جیسی سماجی کارکن جس نے ۱۷ سال ستیہ
گرہ کی اس کو ۹۰ ووٹ ملتے ہیں ۔ انتخاب کے دن ۱۲ جوانوں کی نکسلوادیوں کے
ذریعہ ہلاکت کی خبر میڈیا میں انتخابی شور غل کے تلے دب جاتی ہے ۔ عدلیہ
اسیمانند کو رہا کرکے سائی بابا کو عمر قید کی سزا دیتا ہے اور انتظامیہ
سیف اللہ کو ہلاک کرکے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے مولاناعامررشادی
کے خلاف مقدمہ دائر کردیتا ہے۔ یہ اس جہاز کے بڑے بڑے سوراخ ہیں جن سے پانی
اندر آرہا ہے ۔ اگر یہ جہاز ڈوبے گاتو اس میں سوار سارے لوگ ڈوبیں گے لیکن
اقتدار کے نشے میں مدہوش سیاستداں نہیں جانتے کہ وہ کیا کررہے ہیں؟ ایسے
میں ہوشمندوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اول تو وہ سوراخ کرنے والوں کو حتی
الامکان باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ پانی کو جہاز کے اندرآنے سے روکنے کی
تدابیر کریں ۔خود تیرنا سیکھیں اور جو نہیں تیر سکتے ان کیلئے لائف بوٹ
وغیرہ کا بندوبست کریں یعنی صرف اپنی نہیں بلکہ پورے جہاز کو ڈوبنے سے
بچانے کی فکر کریں ورنہ دوسروں کے ساتھ وہ خود بھی غرقاب ہوجائیں گے ۔ بقول
اقبال ؎
وطن کی فکر کر ناداں مصيبت آنے والی ہے
تری برباديوں کے مشورے ہيں آسمانوں ميں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں ميں
|