جمعرات کے روز پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہونے والی
دھینگا مشتی کے جو مطاہرے ہوئے، انہیں پاکستانی قوم کے ساتھ پوری دنیا کے
عوام و خواص نے دیکھا، اور انگشت بدندان رہ گئے،پوری مہذب دنیا میں پاکستان
کی جگ ہنسائی اور درگت بنائی گئی، زیادتی مراد سعید سے کی جانب سے کی گئی
یا جاوید لطیف نے اخلاقی اقدار کی مٹی پلید کی،دونوں اپنی غلطی کا اعتراف
کرکے پاکستان کے ماتھے پر ملی جانے والی ’’کالک‘‘ کو صاف نہیں کر سکتے،
مراد سعید تو ابھی گرم لہو کے زمرئے میں آتا ہے لیکن ’’شیخوپورہ کا جیدا
چھری‘‘ تو عمر کے اس حصے میں ہے جہاں لوگ اپنے اس عمر کے افراد کو بزرگی کا
درجہ دیتے ہیں اور ان سے راہنما حاصل کرتے ہیں لہذا جاوید لطیف المعروف
جیدا چھری کو مراد سعید کی زیادتی(اگر اس نے واقعی کی تھی) سے درگزر کرنا
چاہیے تھا، جاوید لطیف رکن اسمبلی ہیں اور اس اسمبلی کے رکن ہیں جس اسمبلی
کے ایوان کو مقدس قرار دیا جاتا ہے،، بڑے بزرگ کی حثیت سے ان پر زیادہ ذمہ
داریاں عائد ہوتی ہیں،جن کا انہیں احساس ہونا چاہیے۔
اس ناخوشگوار واقعہ پر اس سے بھی زیادہ ستم مقدس ایوان کے کسٹودین یعنی
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ڈھایا ہے، انہیں چاہیے تھا کہ فی
الفور دونوں ارکان اسمبلی کی رکنیت معطل کردیتے، اور ایک انکوائری کمیٹی
بناتے ( جو خیر سے انہوں نے بنا بھی دی ہے) اس میں ایسے معزز ارکان کو رکن
بنایا جاتا جن کی شہرت دیانت دار کی ہو جن کے ذمہ اس لرائی جھگڑے میں
زیادتی کے مرتکب کی نشاندہی کرنا ہوتی۔
اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی میں کئی نام تنقید کی زد میں
ہیں، سب ارکان اسمبلی مرادسعید اور جاوید لطیف کے تنازع کو غیر مہذب،غیر
شاہستہ، غیر اخلاقی اور حددود سے تجاوز قرار دے رہے ہیں، سب اس بات پر متفق
ہیں کہ اس وقعہ خصوصا جاوید لطیف کے طرز عمل نے پوری پاکستانی قوم کے سر
شرم سے جھکا دئیے ہیں،اس وقعہ کی جس قدر بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، کئی
ارکان کا کہنا ہے کہ معافی مانگنے یا معاف کردینے سے مقدس ایوان کا وقار
بحال نہیں ہو سکتا اور شرم سے جھکے سرکو اٹھانا اس وقت تک ممکن نہیں ،جب تک
واقعہ مین زیادتی کے مرتکن کو نشان عبرت نہ بنادیا جائے۔
جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ اپنے صدر کو کرپشن میں ملوث ہونے پر منصب صدارت سے
ہٹا سکتی ہے تو ہماری پارلیمنٹ غیر ذمہ دار ، غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے
والے ارکان کو ڈس مس نہیں کر سکتی؟اس حوالے سے دونوں ارکان کی جماعتی قیادت
کا بھی امتحان ہے، کیا وہ اس آزمائش کی گھڑی میں اپنا کردار ادا کرنے
کامیاب ہوتی ہے یا اخلاقیات کے مقابلے میں اپنے جماعتی اور خاندانی
وفاداروں کی پشت پر پوری قوت سے کھڑی ہونے کو قومی وقار پر ترجیح دیتی ہے۔
جاوید لطیف نے مراد سعید کی ماؤں بہنوں کے بارے میں جس زبان کا استعمال کیا
ہے اس کی کوئی بھی عزت دار اور صاحب کردار حمایت نہیں کرسکتا، اوریا مقبول
جان ، رؤف کلاسر اور دیگر اینکرز سمیت پر صاحب رائے کی جانب سے جاوید لطیف
کی مراد سعید اکی خاندان کی خواتین کے بارے میں گندی اور بیہودہ زبان
استعمال کرنے پر ان جرآت و بے باکی مذمت کی جا رہی ہے، اور اسے پانامہ کیس
اور ڈان لیکس پر اندرون خانہ ہونے والی سرگرمیاں پر بوکھلاہٹ کا نتیجہ قرار
دیا جاریا ہے۔تحریک انساف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ شریف خاندان
کی سیاست مخالفین کی خواتین پر رکیک حملے کرنے سے شروع ہوتی ہے اور وہیں
ختم ہوتی ہے ،شریف خاندان پہلے ذولفقار علی بھٹو پھر نصرت بھٹو اور بے نظیر
بھٹو شہید کی عزتوں پر غلیظ اور گندے حملے کرواچکے ہیں۔
اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ کمیٹی
کی تحقیقاتی رپورٹ عوام سے شیئر کریں گے اور کمیٹی کی سفارشات پر من و عن
عمل کرکے ایوان کے تقدس اور ارکان اسمبلی کی توقیر کی مکمل حفاظت کا بندو
بست کریں گے۔اور مستقبل مین ایسے واقعات کی روک تھام کے حوالے اہم اقدامات
بھی اٹھائیں گے، کیونکہ پارلمنٹ کے ارکان اور ایوان کی عزت و ناموس کی
حفاظت اسپیکر کے فرائض میں شامل ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت اور مسلم لیگ کے سربراہ بھی اپنے اپنے ارکان اسمبلی
کو شائستگی اور اخلاق کا دامن نہ چھوڑنے کی ہدایات دیں گے، کیونکہ غیر
شائستگی اور اخلاقیات کا جنازہ نکالنے سے ارکان کو روکنا ان کی اولین ذمہ
داری ہے، اب تک کی اسمبلی کی کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخالفین کی
خواتین کا مذاق اڑانے مٰیں مسلم لیگ سب سے آگے ہے۔ شریں مزاری کو ٹریکٹر
ٹرالی کہنا، اور اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔
خواتین کی عزت و ناموس کی حفاظت کے حوالے سے پیپلا پارٹی کا ریارڈ شاندار
ہے، سابق صدر آصف علی زرداری نے سابق صدر غلام اسحاق خان کے دماد عرفان اﷲ
مروت کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے فیصلے کے ااگے ان کی اپنی صاحبزادیاں
سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہو گئیں اور عرفان اﷲ مروت کی پیپلز
پارٹی میں شمولیت کی ڈٹ کر مخالفت کی حتی کہ ’’مرد حر ‘‘ کو اپنی بیٹیوں کے
ٓاگے سرندر کرنا پرا، یعنی گھٹنے ٹیکنے پڑے لیکن سوشل میڈیا اور عوامی سطح
پر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کی صاحبزادی کی
جانب سے اس حوالے سے خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ عوام اور سوشل میڈیا پر اس
توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کی دختر محترمہ مریم صفدر آگے
بڑھ کر اپنی جماعت کے ارکان اور وزرا کو لگام دیں گی لیکن ان کی طرف سے اس
معاملے پر مکمل’’چپ‘‘ نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے، ایک خاتون ہونے کے
ناطے انہین چپ کا روزہ توڑن کر آگے بڑھنا چاہیے اور معاملے کو سلجھانے مین
اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ مسلم لیگی وزرا اور ارکان اسمبلی ان کی
بات سمجھتے ہیں اور سمجھیں گے اس وجہ یہ ہے کہ اگلے الیکشن مین انہین ٓاپ
کی خوشنودی درکار ہوگی۔ |