بادشاہ لوگ برے نہیں ہوتے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے شاید
ہی کوئی بادشاہ برا رہا ہوگا۔ چمچے‘ کڑچھے‘ گماشتے‘ خوشامدی وغیرہ تو الگ
رہے‘ مورکھ بھی ان کے گن گاتا چلا آ رہا ہے۔ وہ وہ کارنامے ان کے نام کر
دیے گئے ہیں‘ جو ان کے فرشتوں تک کو علم نہیں رہا ہو گا۔ ان کی دیا و کرپا
ایک طرف‘ زنجیر عدل کے ڈھنڈورے پیٹنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
حالاں کہ عدل و انصاف کا ان سے کبھی کوئی تعلق اور واسطہ ہی نہیں رہا تھا۔
چوری خور مورکھ کے لفظوں نے آتے وقت کے لوگوں کو گم راہ کیا ہے۔ ان کی
کرتوتوں سے نفرت کی بجائے‘ آتی نسل کی جذباتی وابستگی محبت اور عقیدتوں کو
چھوتی نظر آتی ہے۔
ان کے تعمیر کیے گیے محلوں‘ عشرت کدوں اور ایسی بہت سی لغویات کو تحسین کی
نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ کبھی کسی نے ان پر انگلی نہیں رکھی کہ یہ سب کن کی
کمائی سے بنایا گیا۔ انگلی رکھنے والے کی جذبات میں آ کر انگلی کاٹی جاتی
رہی ہے‘ جیسے کسی نبی یا بزرگ کی شان میں گستاخی کر دی گئی ہو۔
کیا شاہ نے گلیوں میں گول گپے بیچ کر سب بنایا تھا یا وہ کسی سیٹھ کے ہاں
مزدوری کرتا رہا تھا۔ عوام کی مشقت کی کمائی جو ان کی بہبود کے نام پر حاصل
کی گئی‘ اپنی عیش کوشی پر صرف کی۔ ان پہلوؤں پر کبھی کسی نے سوچنے کی زحمت
ہی گوارہ نہیں کی۔
اس روز بوبا اور اس کی بیوی اچھے اور رومانی موڈ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی
بیوی نے بڑے نخرے اور لاڈ میں آ کر کہا: شاہ جہاں نے اپنی بیوی کے لیے تاج
محل بنایا تھا اور آج وہ دنیا جہاں کے لیے محبت کی خوب صورت نشانی ہے۔ دور
دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ کیا تم بھی میرے مرنے کے بعد میرے لیے تاج
محل بناؤ گے۔
بوبے نے یہ کہنے کی بجائے کہ وہ بادشاہ نہیں ایک مزدور ہے۔ دوسرا اس کی
کمائی لوٹ کی نہیں۔ یہ بھی کہ تم ملکہ نہیں ہو جو ملکہ ماں کا نام دے کر
لوگوں سے چندہ اکٹھا کر لے گا۔
بوبے نے بھی پررومان انداز میں کہا: میں نے پلاٹ خرید لیا ہے بس اب دیر
تمہاری طرف سے ہے۔
اس کی کہنی اندر کی نہ تھی۔ اس نے ڈیڑھ مرلے کا پلاٹ نیچے دکان اور اوپر
اپنی محبوبہ چھما کے ساتھ رہائش کے لیے خرید کیا تھا۔
ضروری نہیں کہنی اندر کی پر استوار ہو۔ بیوی بھی خوش اور اندر کی کا اظہار
بھی ہو گیا۔
ہونی کا اندر کی پر استوار ہونا ضروری نہیں۔ ہونی اپنی مرضی کی مالک ہوتی
ہے۔ بوبا بازار سے آ رہا تھا کہ کھتوتی ریڑھی سے ٹکرا کر سر کے بل گرا اور
گرتے ہی تھاں پر ٹکی ہو گیا۔ اس کی موت پر شنو نے رونے دھونے کا خوب ڈراما
رچایا کہ زمانہ اس کی محبت پرعش عش کر اٹھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ادھر عدت
پوری ہوئی ادھر اس نے اپنے بچپن کے سنگی سے نکاح کر لیا۔
ان دنوں اس ڈیڑھ مرلہ پر بوبے کے سالے کا دھکے شاہی قبضہ ہے۔ شنو کا سنگی
ہاتھ ملتا پھرتا ہے کہ جس زمین کے لیے اس نے شنو فٹ فٹی سے شادی کی تھی وہ
ہاتھ نہ آئی اور پلے میں یہ سیکنڈ ہینڈ شنو فٹ فٹی ہی رہ گئی ہے۔ |