ڈاکٹر عافیہ جیت گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حقوق انسانی کے علمبردار،آزاد عدلیہ کے دعویدار اور دنیا میں انصاف،امن اور
عافیت کا پرچم لہرانے والے امریکہ کا اصل چہرہ بالآخر سامنے آہی گیا اور
وہی ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی،امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو
مجرم قرار دے کر اُس پر لگائے گئے سارے الزامات ثابت کردیئے،اِس حقیقت سے
قطع نظر کہ رائفل پر اُس کی انگلیوں کے نشانات نہ تھے،نہ ہی رائفل سے کوئی
گولی چلی،نہ ہی اس کا خول برآمد ہوا،نہ کمرے کی کسی دیوار یا فرش پر کسی
فائر کا کوئی نشان ملا اور نہ ہی کسی امریکی فوجی کا جسم گولی سے زخمی
ہوا،اِس کے باوجود کہ استغاثہ کے گواہوں کے بیانات تضادات کا مجموعہ تھے
اور وکلاء صفائی نے استغاثہ کی ساری کہانی جھوٹ کا پلندہ اور ایک تراشیدہ
افسانہ ثابت کردی تھی، لیکن اِس سب کے باوجود تمام جرائم ثابت ہوگئے اور
ڈاکٹر عافیہ صدیقی استغاثہ کے پیش کردہ مقدمے کی ساتوں دفعات میں مجرم پائی
گئی، کیوں نہ پائی جاتی، بارہ ارکان پر مشتمل متعصب صہیونی جیوری کے نزدیک
اُس کے مجرم ہونے کیلئے یہی جرم کیا کم تھا کہ اس کانام عافیہ ہے، وہ
مسلمان ہے اور سب سے مستزاد یہ کہ وہ ایک پاکستانی ہے، یہ وہ”جرائم“ ہیں جس
کے سبب اسے کبھی بھی بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔
آفرین ہے ڈاکٹر عافیہ پر کہ مین ہٹن میں امریکی وفاقی عدالت کے جج رچرڈ
برمن سے 86 سال قید کی سزا سننے کے بعد بھی وہ انتہائی پرسکون اور مطمئن
تھی،اُس کے چہرے پر کوئی حزن و ملال نہیں تھا ،بلکہ سزا سننے کے بعد اُس کا
کہنا تھا کہ” سزا نے ثابت کردیا کہ امریکی عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا،یہ
فیصلہ امریکہ کے زوال کی نشانی بنے گا،میں نے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں
پیش کردیا ہے،دنیا بھر کے مسلمانوں کو صبروتحمل کی تلقین کرتے ہوئے ڈاکٹر
عافیہ کا کہنا تھا کہ اُن کی سزا کے خلاف کوئی خون خرابا نہ کیا جائے، خدا
نے انہیں کسی نیک مقصد کیلئے چنا ہے۔“ حقیقت یہ ہے کہ آج چھ برس تک امریکی
قید و بند اور مختلف جیلوں میں ظلم و تشدد برادشت کرنے اور ڈیڑھ برس تک
عدالتی کاروائی کا سامنا کرنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ثابت قدمی اور
استقامت کا مظاہرہ کر کے جیت گئی اور دنیا بھر میں امن،انصاف اور حقوق
انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والا امریکہ اور امریکی عدالت کا کفر ہار گیا، آج
جہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی مظلوم اور بہادر خاتون، پاکستانی قوم کے
گناہوں اور غفلتوں کا کفارہ بنی، وہاں اُس نے امریکہ اور امریکی تہذیب و
انصاف کا گھناؤنا چہرہ بھی بے نقاب کر دیا۔
ایک من گھڑت، بودے اور انتہائی کمزور کیس میں امریکی عدالت نے جس طرح ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کو 86 برس کی قید کی سزا سنائی اُس نے جہاں انسانی حقوق
بالخصوص خواتین کے حقوق کے چیمپئن ہونے کی امریکی دعویداری اور انسانی حقوق
کے تحفظ کے دعوﺅں کی قلعی کھول دی ہے اور دنیا کے سامنے امریکہ کے ”انصاف
پسند“ چہرے کو سامنے لاکر ہمارے حکمرانوں کی منافقانہ پالیسیوں کو بھی بے
نقاب کردیا ہے،حقیقت یہ ہے کہ جن مبینہ جرائم میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو موت
سے بھی زیادہ سخت سزا دی گئی ہے،اگر اُن جرائم کا سرزد ہونا ثابت بھی
ہوجائے تو بھی اِس جرم میں ملوث کسی مجرم کو ایسی سخت سزا نہیں دی
جاسکتی،جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں تو خود متعلقہ امریکی عدالت
دوران سماعت یہ ریمارکس دے چکی تھی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے جو جرم کیا وہ
کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا،مگر اِس اعتراف کے باوجود امریکی عدالت نے
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو86 برس کی سزائے قید دے کر جس سفاکیت اور بہیمیت کا
مظاہرہ کیاہے،وہ صاف عیاں ہے،اگر ڈاکٹر عافیہ کا جرم تسلیم کر بھی لیا جائے
تو بھی سزا جرم سے زیادہ ہولناک ہے،امریکی عدالت کے اِس فیصلے کا مقصد اِس
کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں خوف و دہشت پیدا کی جائے اور عافیہ کی
سزا کو دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے وارننگ بنا دیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں کی جمہوریت، امریکیوں کی قانون پسندی، امریکیوں کے
بنیادی حقوق، امریکیوں کا عدل وانصاف، امریکیوں کی انسان دوستی، سب کچھ
امریکیوں کے لئے ہے،مسلمانوں کیلئے اُن کے اصول و قاعدے، ضابطے اور جانچنے
کے پیمانے مختلف ہیں،اسلام کا نام لینے والوں اور محمد عربی صلی اللہ علیہ
وسلم کا کلمہ پڑھنے والے کے لئے ان کا قانون جدا ہے، پاکستان اور
پاکستانیوں کیلئے ان کے ضابطہ قانون و انصاف الگ ہیں،اُن کے اپنے پالتو
کتوں اور بلیوں کو کانٹا بھی چبھ جائے تو قانون بے قرار ہوجاتا ہے،انصاف
انگڑائیاں لینے لگتا ہے اور انسانوں سے زیادہ جانوروں کے تحفظ کے رکھوالے
جاگ اٹھتے ہیں،لیکن مسلم ممالک کے باسیوں کو یہ لوگ اپنے پالتو کتے اور
بلیوں سے بھی حقیر سمجھتے ہیں،اسی وجہ سے یہ صیہونی درندے عراق اور
افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا لہو پی کر بھی اسلیئے پیاسے ہیں کہ امریکی
قانون و انصاف کی منڈی میں اُن کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں۔
یہ سب ہماری اجتماعی بے حسی اور حکمرانوں کی کاسہ لیسی کا نتیجہ ہے ،اِس
جرم بے حسی میں ہم سب برابر کے شریک ہیں،جہاں اِس شرمناک مجرمانہ بے حسی کی
فرد جرم قوم پر عائد ہوتی ہے، وہیں وہ حکمران بھی اس فرد جرم سے بری الذمہ
نہیں ،جنھوں نے قوم کی بیٹوں اور بیٹیوں کو ڈالروں کے عیوض بیچا اور غیروں
کے حوالے کیا، جنہوں نے امریکی غلامی اور چاکری کا تاج اپنے سر پر برقرار
رکھنے کیلئے اِن بے گناہوں کا دفاع نہیں ،جان بوجھ کر چشم پوشی کی،ہم یہ
بات کسی طور بھی ماننے کیلئے تیار نہیں کہ حکومت پاکستان پورے خلوص،
سنجیدگی، عزم اور استقامت سے عافیہ کی واپسی کو ایک اہم ایشو کے طور پر
لیتی اور امریکہ کو باور کراتی کہ نام نہاد جنگ دہشت گردی میں تعاون، ڈاکٹر
عافیہ کے اِیشو سے جڑا ہے تو یہ کبھی نہ ہوتا،امریکی عدالت کبھی بھی ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کو اتنی سنگین سزا نہیں سنا سکتی تھی،اگر اُسے ذرا سا بھی یقین
ہوتا کہ پاکستانی قوم کی ایک بیٹی کو سزا دینے سے پاکستان اور پاکستانی قوم
آسمان سر پر اٹھا لے گی یا پاکستان کے حکمران دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ
پر لعنت بھیج کر اس سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کر دیں گے، امریکی عدالت اور
حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ڈالروں کے عیوض بکے ہوئے حکمرانوں کی بیرونی
ٹکڑوں پر پلنے والی قوم دوچار دن نعرے لگائے گی، امریکہ کو گالیاں دے کر دل
کی بھڑاس نکالے گی اور پھر سب بھول جائے گی، امریکیوں نے ہماری اجتماعی
نفسیات کو سمجھ لیا ہے، وہ ہمارے حکمرانوں کے کردار،چال چلن اور دام سے بھی
واقف ہیں،وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو قوم لال مسجد اور جامعہ حفضہ کی
مظلوم بچیوں کو تحفظ نہ کرسکی اور انہیں یاد نہ رکھ سکی،وہ ڈاکٹر عافیہ کو
بھلا کتنے دن یاد رکھ سکے گی۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی سزا کے حوالے سے ہمارے ارباب اقتدار نے
جس بے اعتنائی ، لاپروائی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ناقابل معافی
جرم ہے،ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کے بقول جہاں ہمارے حکمرانوں نے اپنی عاقبت
خراب کی ہے، وہاں امریکی معاشرے نے ڈاکٹر عافیہ کو یہ سزا دیکر اپنا مستقبل
بھی برباد کرلیا ہے،فرد جرم عائد ہوچکی ہے،اپنے بہن بھائیوں کو فروخت کرنے
کی،ظلم پر خاموشی کی،غفلت و لاپروائی کی اور بے حسی کی،قضا و قدر کے پہرے
داروں نے ہمارے نامہ اعمال میں اِس جرم کی ایف،آئی،آر درج کرلی ہے،عنقریب
مقدمہ اُس عدالت پیش ہونے والا ہے،جس کا دستور نرالا ہے،قاعدے قانون جدا
ہیں،جہاں مظلوم و بے گناہ کو کسی جیوری،کسی استغاثہ اورکسی وکیل صفائی کی
ضرورت نہیں ہوتی۔ |