ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے تشدد
کے ذمہ دار پاکستانی حکمران ہیں جنہوں نے نیٹو کی سپلائی لائن کھول رکھی ہے
نہ جانے وہ کونسا کنٹینر ہوگا جو پاکستانی راستوں سے ہوتا ہوا افغانستان
پہنچا ہوگا جس میں وہ آلات ہونگے جس سے ڈاکٹر عافیہ پر پانچ سال تک تشدد
ہوتا رہا۔ نہ جانے وہ ٹرک کس پاکستانی نے ڈرائیو کیا ہوگا کس مزدور نے اپنے
ہاتھوں سے وہ سامان لوڈ کرایا ہوگا؟
میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں کے مصداق میں سوچتا ہوں کہ وہ ہاتھ
اب تک کاٹ کیوں نہیں دیئے گئے جن ہاتھوں نے میری بہن کی عزت دری کی وہ پاؤں
توڑ کیوں نہیں دئیے گئے جو ڈاکٹر عافیہ کی طرف بڑھے۔ وہ زبان کاٹ کیوں نہیں
دی گئی جس نے ڈاکٹر عافیہ کو گالیاں دیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران اب بھی زبانی جمع خرچ سے کام لے رہے
ہیں سینیٹر طلحہ محمود نے کہا ہے کہ پاکستان صرف نیٹو کی سپلائی لائن بند
کر دے تو ڈاکٹر عافیہ تین دنوں کے اندر اندر پاکستان واپس آ سکتی ہیں اور
میں اس بات سے متفق ہوں۔
وہاں ہمارے دیگر سیاست دانوں کا بھی یہی حال ہے کہ اس مسئلہ پر صرف زبانی
جمع خرچ سے کام چلایا ہے یہ لوگ بھی امریکی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے
صرف چند جماعتوں نے کل اپنے غم اور غصہ کا اظہار کیا ہے ان میں جماعت
اسلامی اور تحریک انصاف پیش پیش ہیں یہ دونوں بھی اس چڑیا کا سا کام کر رہی
ہیں جس نے نمرود کی آگ سے حضرت ابراہیم کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ خیر انگلش
کا ایک معروف جملہ ہے کہ سم تھنگ از بیٹر دین نتھنگ۔
لیکن اب سم تھنگ سے کام چلنے والا نہیں ہے یا تو ہم سب کو ایک زبان ہو کر
ایک ملت بن کر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی پڑے گی یا پھر
اجتماعی خود کشی کی تیاری کرنی پڑے گی۔ |