ایم پی ٹین کسی میوزک کمپنی یا ملٹری پولیس کا مخفف نہیں
بلکہ خطرناک جراثیم ہیں جو دنیا بھر میں فضائی و دیگر آلودگی سے پھیل چکے
ہیں اور اگر ان کو مزید پھیلنے سے نہ روکا گیا تو انسان کا سانس لینا دشوار
ہو جائے گا۔عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی حالیہ رپورٹ کے مطابق
ماحولیاتی آلودگی ،غلاظت سے دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کی اموات ہو رہی
ہیں،ماحولیاتی گندگی اور حفظان صحت کا مناسب انتظام نہ ہونے سے ہر سال پانچ
برس سے کم ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچوں کی اموات ہو رہی ہیں اور زیادہ تر اموات
کا شمار ترقی پذیر ممالک میں کیا گیا ہے۔جنیوا کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر
ممالک میں ہر چوتھا بچہ گندگی کے سبب موت کے منہ میں جا رہا ہے ۔موت کے
خطرات دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں لیکن بکثرت تمباکو نوشی ،فضائی آلودگی،
کوکنگ آئل کا دھواں ،گندا پانی اور خاص طور پر صاف بیت الخلاء نہ ہونے سے
جراثیم پھیل جانے کے سبب اموات میں اضافہ ہو رہا ہے بڑوں کے علاوہ بچے خاص
طور پر اس گندگی کا شکار ہوتے ہوئے ڈائریا،ملیریا اور نمونیا میں مبتلا ہو
کر جان گنوا رہے ہیں دیگر عوامل میں نا مناسب دوا علاج اور جعلی ادویہ کے
علاوہ جعلی معالج کا علاج بھی اموات کا حصہ ہیں کیونکہ معصوم بچوں کے نازک
اورگان اور مدافعتی نظام شدید متاثر ہوتے ہیں جس سے انہیں سانس لینے میں
دشواری ہوتی ہے ،آلودگی وہ کسی بھی شے کی ہو سب کو اپنی گرفت میں لیتی ہے
انفیکشن سے ابتداء ہوتی ہے اور موت اختتام۔ادارے کی جنرل ڈائریکٹر مارگریٹ
چن کا کہنا ہے اموات کی چند اہم وجوہات یہ ہیں کہ گندگی سے سانس کی نالیوں
میں انفیکشن ہو جاتی ہے،ڈائریا،مناسب علاج دوا نہ ہونے سے حاملہ خواتین کا
پہلے دو ماہ میں بچے کے اورگان میں پیچیدگیاں پیدا ہونا ،ملیریا،نظام زندگی
درست کا نہ ہونا جس میں ٹرانسپورٹ وغیرہ کی سیفٹی اور ایکسیڈنٹ ہونا،
زہریلے مواد کا استعمال ،ڈوب جانے یا کسی بھی قسم کے حادثات کی صورت میں
اموات ممکن ہوتی ہیں۔ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو
فوری طور پر صاف پانی ، کوکنگ اور حرارتی نظام ،تعلیمی اداروں میں صاف بیت
الخلاء اور بجلی کی اشد ضرورت ہے،شہروں میں زیادہ سے زیادہ سبزہ اور
ٹرانسپورٹ سسٹم کی درستگی اہم ترین ہے یعنی جس سے کم سے کم کاربن ڈائی
آکسائڈ کا اخراج ہو ،کیمیکلز انڈسٹریز کو زہریلے مواد سے پیدا ہونے والے
دھوئیں کے اخراج کا مکمل بندوبست کرنا لازمی ہے تاکہ کم سے کم دھواں
پھیلے۔ایم پی ٹین۔پارٹی کیولیٹ میٹر کے دو سائز ہیں ایم پی ٹو پوائنٹ فائیو
اور ایم پی ٹین، جن کا زیادہ سے زیادہ حجم ٹو پوائنٹ فائیواور ٹین مائکرو
میٹر ہوتا ہے علاوہ ازیں فائن ڈسٹ کا شمار بھی ترقی پذیر ممالک میں کیا گیا
ہے جو کہ خطرناک ہے ماہرین کا کہنا ہے ایم پی ٹین جتنا زیادہ مقدار میں
ہوگی اتنا زیادہ آلودگی کی سطح میں اضافہ ہو گا۔دنیا کے چند ممالک جہاں ایم
پی ٹین کا بوجھ زیادہ شمار کیا گیا ہے پہلے نمبر پر نائجیریا دوسرے نمبر پر
پاکستان اور ایران،سعودی عرب،افغانستان، چین، اور بھارت کا شہر گوالیار ہیں
ان شہروں میں پانچ سو چورانوے سے تین سو انتیس کیوبک میٹر کے حجم میں ایم
پی ٹین پھیلی ہوئی ہے جو جان لیوا ہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں کسی قسم کی
کنسٹرکشن سے پہلے مکمل پلاننگ کی جاتی اور حکومت سے اجازت نامہ لیا جاتا ہے
،پلاننگ میں سر فہرست اخراج کا سسٹم ہوتا ہے مثلاً فیکٹری کے دھوئیں کا
اخراج، مکان بنانے سے پہلے سیوریج سسٹم، ریستوراں کے لئے مناسب مقام اور
کوکنگ آئل کے اخراج کا طریقہ تاکہ لوگ دھوئیں سے متاثر نہ ہوں یا موٹر ویز
کی تعمیر کے لئے ٹرانسپورٹ منسٹری سے منظور شدہ پلاننگ وغیرہ پر عمل درامد
کیا جاتا ہے ،جب تک ترقی پذیر ممالک میں سیفٹی فرسٹ کا نظام قائم نہیں ہو
گا کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا ،کئی ممالک کے زوال کی مثالیں ہم سب کے
سامنے ہیں۔ |