بسم اﷲ الرحمن الرحیم
برصغیر کی تاریخ میں حضرت مجدد الف ثانی کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے
۔مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے دور میں فتنہ الحاد کے خلاف کام کیا
جس کی بنیاد مغل حکمران اکبر نے رکھی تھی۔بادشاہ اکبر کے دربار میں موجود
ہندو رتنوں کا اثر تھا کہ بادشاہ اکبر نے جذبہ رواداری کے تحت ہندو مذہب
اور اسلام کو ملا کر ایک نیا دین ایجاد کرنے کی کوشش کی جسے دین الٰہی کا
نام دیا گیا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے ایک ہندو خاتون جودھا بھائی
سے شادی کی جس نے آخری وقت تک اسلام قبول نہیں کیا ۔ اکبر نے دیگر مذاہب
بالخصوص ہندو ؤں کو ماننے والوں کو خوش کرنے کے لیے ایک مخلوط قسم کا دین
بنایا جس میں افراط وتفریط دونوں پہلو موجود تھے ۔اس نئے دین کے تحت ایک
ایسا عبادت خانہ تعمیر کیا گیا جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ
عبادت کر سکتے تھے ۔ اسی طرح گائے کا گوشت حرام اور ذبیحہ گاؤ سختی سے
ممنوع قرار دیا گیا۔اس کے بر عکس سور کا گوشت حلال کیا گیا۔شراب حلال طیب
ہو گئی غیر مسلموں کا ٹیکس (جزیہ ) موقوف کر دیا گیا۔نماز ،روزہ اور حج کی
اجتماعی شان ختم کر دی گئی۔اسلامی ہجری کیلنڈر کی بجائے نیا سن الہٰی رائج
کیا گیا۔ دیوان حکومت میں نماز با جماعت ختم کر دی گئی۔حیات اخروی اور تصور
آخرت کی جگہ عقیدہ تناسخ نے لے لی تھی۔خاصان بارگاہ اکبری تو کلمہ میں محمد
رسول اﷲ کے بجائے لا الہ الااﷲ اکبر خلیفۃ اﷲ پڑھنے لگے تھے۔کئی جگہ سے
مسجدیں ختم کر کے ان کی جگہ ہندوؤں نے مندر تعمیر کر لئے تھے ۔ہندو مسلم
بھائی بھائی کا نعرہ لگا۔اس نام نہاد دین الٰہی کے خلاف متحدہ ہندوستان میں
سب سے موثر آواز مجدد الف ثانی نے بلند کی جن کا نام شیخ احمد سرہندی تھا۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ 14شوال 971ھ کو سر ہند (بھارت)
میں پیدا ہوئے۔ان کے والد شیخ عبد الاحد اپنے دور کے جید عالم دین اور
سلسلہ چشتیہ کے صاحب نسبت روحانی بزرگ تھے۔سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق اعظم
رضی اﷲ عنہ سے اٹھائیسویں پشت میں مل جاتا ہے۔آپ کا خاندان مدینہ منور سے
منتقل ہو کر کابل (افغانستان )منتقل ہوا تھا اس کے بعد وہ مستقلاً سر ہند
میں مقیم ہو گئے۔کہا جا تا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے آپ کے والد شیخ عبد
الاحد رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک عجیب خواب دیکھا ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی
ہے۔جنگل کے درندے بندر ،سور اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں کہ یکا یک
میرے سینے سے ایک روشنی پھوٹی جس میں ایک با عظمت شخص نمودار ہوا جو ایک
تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا تھا۔ اب اس کے سامنے ان تمام درندوں کو بھیڑ بکری
کی طرح ذبح کیا جانے لگا اور کوئی شخص آواز سے یہ آیت تلاوت کر رہا تھا۔
ترجمہ۔’’ حق آگیا اور باطل جانے لگا ،بے شک باطل کو آخر کار جانا ہی پڑتا
ہے۔‘‘انہوں نے اس وقت کے معروف بزرگ سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو
انہوں نے فرمایا :’’تمہارے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو الحادو بدعت کے
تاریک فتنوں کو نیست و نابود کریگا۔
اس وقت کے علماء سو ،دنیا کے کمانے کے لئے ملحد حکومتی کارکنان کی ہاں میں
ہاں ملاتے اور اپنا علم ان کی خدمت کے لئے حاضر کر دیتے۔گمراہ اور منحرف
نام نہاد دین داروں نے شریعت کی پابندی کو ظاہر پرستی کا کھیل قرار دیا اور
یوں وہ اکبر کے دربار میں بیش قیمت انعامات سے نوازے جاتے۔اس الحاد کے فتنہ
کے خلاف مجدد الف ثانی نے کھڑے ہوگئے ۔ آپ نے اس کے خلاف مکتوب نگاری شروع
کر دی اور قلم کی قوت سے ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ کوئی دوسرا یہ کارنامہ
سرانجام نہ دے سکا ۔ اگر یہ انقلاب پیدا نہ ہوتا تو شاید دوقومی نظریے کا
وجود بھی نہ ہوتا اوسر پاکستا ن بھی دنیا کے نقشے میں ظاہر نہ ہوتا ۔ یہی
جدوجہد اور فکر دوقومی نظریے کی بنیاد ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے حقیقی
نظریے اور تعلیمات کے ساتھ جب بھی چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی گئی تو کوئی نہ
کوئی تحریک ، شخصیت اس باطل افکار کی سرکوبی کے لیے کھڑی ہو جاتی ۔ قیام
پاکستان سے قبل بھی تحریک پاکستان کے مدمقابل ایک دینی فکر بھی موجود تھی
جس نے کانگریس کو فائدہ پنچا کر قیام پاکستان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی
کیں تاہم ایک ایسی شخصیت مدمقابل آ کھڑی ہوئی جو بظاہر سوٹ بوٹ میں ملبوس
تھی لیکن دوقومی نظریے کی بنیاد کو لے انہوں نے ایک ایسی تحرک پبا کی کہ
دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا اور متحدہ ہندوستان کی بجائے دنیا کے نقشے پر ایک
اسلامی ریاست پاکستان معرض وجود میں آگئی ۔
بدقسمتی سے گزشتہ کچھ دنوں سے اسی مملکت خداد اد پاکستان کے وزیر اعظم کے
دو مختلف تقریبات میں دیے گئے بیانات کو لے کر یہ بحث چل نکلی ہے کہ
کیااسلام کے متبادل بھی کوئی بیانیہ موجود ہے یا پھر ذہنی غلامی کے کیچڑ
میں میں لتھڑے ہوئے مسلمانوں کے لیے اسلا م کا اصل بیانیہ بھی دنیا کی
رنگینیوں میں کھو چکا ہے ۔ گمان قوی ہے کہ وزیر اعظم نے متبادل کی بجائے
اصل بیانیہ کی بات کی ہے اور اس کو غلط انداز میں کچھ لوگوں نے رپورٹ کیا
ہے ۔ دوسری اہم تقریر گزشتہ روز کی ہے جس میں ہندو مذہب کے تہوار ہولی کے
موقع پر کی گئی ہے ۔ اس میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جو لوگ مذہب کی بنیاد
پر شہریوں کے حقوق میں فرق کرتے ہیں وہ آئین کی پاسداری نہیں کرتے۔ ان کا
کہنا تھا کہ اسلام سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور تمام انسانوں کے جانوں
ومال کو یکساں اہمیت دیتا ہے،اسلام طاقت سے مذہب تبدیل کرانے کو جرم قرار
دیتا ہے ۔ وزیر اعظم کے اس بیان سے قطعاً کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا کہ
طاقت سے مذہب تبدیل کروانا جرم ہے لیکن طاقت کے زور پر کسی کو اسلام قبول
کرنے سے روکنا بھی جرم ہے۔ اسلام میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو حق حاصل
ہے کہ وہ جس طرح چاہتے ہیں عبادت کریں ان کو اپنے مذاہب پر عمل کرنے میں
مکمل آزادی حاصل ہے تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسلام کی روح کو ہی
تبدیل کیا جائے ۔ اسلام میں یہ گنجائش قطعاً موجود نہیں ہے کہ آپ دیگر
مذاہب کی عبادات کو ملک میں عام کریں ۔ جہاں تک بیانیہ کا تعلق ہے تو یاد
رکھیے جس جگہ کھڑے ہو کر آپ نے دہشت گردی کے رد میں بات کی ہے وہاں تو
2008میں ہی اس کا رد کیا جا چکا ہے جب تمام مکاتب فکر ڈاکٹر سرفراز نعیمی
کے قیادت میں یہ فتوٰی جاری کیا تھا کہ خود کش حملے حرام ہیں اور مجھے یاد
ہے کہ اس طرح کی مجلس کا مشورہ انہیں حافظ سعید نے دیا تھا جو اس سے قبل یہ
فتوٰ ی جاری کر چکے تھے۔ تاہم ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو اس پاداش میں شہید کر
دیا گیا اور ریاست ان کا تحفظ نہ کر سکی ۔ محترم وزیر اعظم ! ڈاکٹر سرفراز
نعیمی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اب بھی یہی بات ہے کہ اصل بیانیہ ریاست
کی ذمہ داری ہے ۔ریاست تمام مکاتب فکر کو اکٹھا کرنے کا کام احسن انداز سے
کر سکتی ہے ۔ فرقہ واریت ، صوبائیت اور لسانیت کی بنیاد پر قتل و غارت کے
ذمہ دار جہاں کچھ مذہبی عناصر ہیں وہاں بہت سارے سیاسی عناصر بھی موجود ہیں
جو آپ کی پارٹی میں بھی موجود ہیں ۔ اگر آپ اصل بیانیے کے لیے مخلص ہیں تو
اس کا آغاز وزیر اعظم ہاؤس سے کیجیے ۔ ملی یکجہتی کونسل نے جو ضابطہ اخلاق
بنایا ہے اس کا مطالعہ کیجیے ۔علماء سے تجاویز طلب کیجیے ۔یقینا اصل بیانیہ
موجود ہے جس میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی حفاظت
بھی ریاست کے ذمہ ہے اور یقینا علماء کرام بھی اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی
حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ محض بیانات نہیں بلکہ عمل کیجیے اوروزیر اعظم
ہاؤس میں اسلامی مملکت کے سربراہ کی حیثیت سے نما ز کی امامت کیجیے ۔نفرت ،
انتہا پسندی ، فرقہ واریت سب کچھ ختم ہو سکتا ہے ۔لیکن دوسری طرف اگر آپ
اسلام کے کسی متبادل بیانیے کی بات کریں گے تو یقینا پھر معاشرے میں مزاحمت
بھی ہو گی اور پھر کوئی مجددالف ثانی کا پیروکار نئے دین کی بیخ کنی کے لیے
کھڑا ہو جائے گا ۔ |