لڑ نے وا لو ں میں صلح کرا نا ثواب کا کام ہے

 آج کل ذ رہ ذ رہ سی بات پر لڑا ئی جھگڑا عا م ہو گیا ہے ،نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اب تو حال یہا ں تک پہنچ گیاہے کہ معمو لی معمولی سی بات پر قتل کر دینا عام ہو گیا ہے۔ چھو ٹی سی بات پر باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو، بھائی بھائی کو اور بھا ئی بہن کو، شو ہر بیوی کو اور قریبی رشتے دارو دوست کو مار ڈ النے کو تیار ہو جا تا ہے انسان کی جان مچھر اور مکھی سے بھی کمتر ہوگئی ہے۔ آئے دن قتل کے وا قعات بڑھ ر ہے ہیں۔ بو ریوں اور سوٹ کیسوں میں بھر ی لاشیں مل رہی ہیں روزانہ درجنو ں جھگڑ ے اور قتل کے واقعا ت معمول کی بات ہو گئی ہیں۔ کسی کو احساس زیاں (نقصان، خسا رہ ) T DETRIMENتک نہیں ہو رہا ہے ،قاتل ناحق کے دل میں انسا نیت کے درد کی رمق تک باقی نہیں رہی ہے۔ اس کا دل محبت،ہم در دی، انکسا ر ی اور انسان دوستی سے خا لی ہو چکا ہے حتیٰ کہ انسان انسان کے خون کا پیا سا بن چکا ہے آ ج کا انسان شاید اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے وہ احکا مات نہیں پڑ ھا ہے۔ جوبے و جہ لڑائی جھگڑا ورقتل نا حق کی وعید میں نازل ہوئے ہیں اﷲ رب العز ت نے قتل نا حق کی مذ مت کر تے ہوئے قرآن مجیدمیں سخت وعید نازل فر مائی ہے۔ ( القر آن، سو رہ نساء ۴،آیت ۹۳)تر جمہ : اور جو سخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ے تو اس کی سز ا دو ز خ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اﷲ کا غضب ہو گا اور اﷲ اس پر لعنت کرے گا اور اسنے اس کے لیے زبر دست عذا ب تیا ر کر رکھا ہے۔ (کنزالایمان)

تشدد کا بڑ ھتارجحا ن صلح سے دوری لمحہ فکر یہ !:ہما رے معا شرے میں ہی کیا پورے ملک، پوری دنیا میں تشدد کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویش کا باعث ہے۔اﷲ ربا لعز ت نے اپنے بندوں کو صلح کر انے کا حکم دیا اور صلح کرنے کرا نے والوں کو پسند فر ما نے کی خوش خبری بھی سنائی (القر آ ن، سور ہ الحجرات۴۹،آ یت ۹) تر جمہ: اگر مسلما نوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو ان کے در میا ن صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک ( گرو ہ)دوسرے پر زیادتی اور سر کشی کرے تو اس(گروہ) سے لڑو جو زیا دتی کا مر تکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ کے حکم کی طرف لوٹ آئے،پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دو نو ں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بے شک اﷲ انصا ف کر نے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ( کنز ا لا یما ن)صلح کرا نا اﷲ کو پسندہے حد یثوں میں بھی اس کی فضیلت آئی ہے مذکورہ آیت کا شا ن نرول حدیث پاک میں اس طرح سے ہے حضرت انس رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ‘ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا ، اگر آپ ابن ابیٔ(منا فق)کے یہاں چلتے تو بہتر تھا۔آپ ﷺ اسکے یہاں ایک گدھے پر سوار ہوکر تشر یف لے گئے۔صحابہ رضوا ن ا ﷲ علیہم اجمعین پیدل آپ کے ہمراہ تھے۔جدھر سے آپ ﷺ گزر رہے تھے وہ شو ر (ریگستا ن) ز مین تھی ۔جب نبی کریم ﷺ اسکے یہاں پہہنچے تو وہ کہنے لگا ذرہ آپ دور ہی رہیئے آپمکے گدھے کی بونے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے اس پر ایک صحا بی بولے کہ اﷲ کی قسم ! رسول اﷲ ﷺ کا گدھا تجھ سے زیا دہ خوشبو دار ہے۔عبداﷲ(منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص اس صحا بی کی اس بات پر غصہ ہو گیا اور دو نو ں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا پھر دو نوں کے حما یتی مشتعل ہو گئے اور ہاتھا پائی ،چھڑی اور جوتے تک نوبت پہہنچ گئی۔ ہمیں معلو م ہوا ہے کہ یہ آیت وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَ صْلِحُوْا بَیْنَھُمَافَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاھُمَا․․․․․․․الخ(القرآن سورہ الحجرات ۴۹، آیت نمبر۹)’’اگر مسلما نوں کے دو گروہ آپس میں لڑ یں تو اِن میں صلح کرا دو‘‘ (بخا ری ، باب لوگوں میں صلح کرا نے کا ثواب ، حدیث ۲۶۹۱)۔

صلح کرا نے کے لیے جھو ٹ بو لنا گنا ہ نہیں:صلح کرانے میں جھو ٹ بھی بو ل سکتے ہیں ام کلثو م بنت عقبہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ کو یہ فر ما تے سنا تھا کہ جھو ٹا وہ نہیں ہے جو لو گو ں میں باہم صلح کرا نے کی کو شش کرے اور اس کے لیے کسی اچھیبات کی چغلی کھا ئے یااسی سلسلے کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے(بخا ری، حدیث ۲۶۹۲) سہل بنی اسعدرضی اﷲ عنہ‘ نے بیان کیا کہ:قبا کے لوگوں نے آپس میں جھگڑا کیا اور نو بت یہا ں تک پہنچی کہ ایک دوسرے پر پتھر پھینکے ،آپ ﷺ کو جب اسکی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ نے فر مایا’’چلو ہم ان میں صلح کرائیں گے ‘‘(بخا ری،باب حا کم لو گوں سے کہے ہم کو لے چلو ہم صلح کرا دیں حدیث ۲۶)۔

صلح حدیبیہ جس کو قر آن نے فتح مبین فر مایا:ماہ ذیقعدہ ۶؍ ھجری میں حضور ﷺ عمرہ ادا کر نے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ تشریف لے جا نے کے لئے سفر میں نکلے مشرکین مکہ نے مسجد الحرام کی زیا رت سے روک دیا آپ ﷺنے مشر کین مکہ اور قریش سے حدیبیہ کے مقا م پر صلح فر ما یا۔اس کی دستا ویزAGREEMENT حضر ت علی رضی اﷲ عنہ نے لکھی تھی لکھتے وقت آپ نے ’’بسم ا ﷲ الرحمن ا لر حیم‘‘لکھا مشرکین مکہ و قریش کے نما ئند ہ نے اسے قبول نہیں کیااور کہا کہ ز مانہ جا ہلیت کے طریقہ پر ’’با سمک اللھم ‘‘ لکھنا پڑ ے گا ، آپ ﷺ نے اسے قبو ل کر لیا ۔ آپ کا اسم گرا می ’’محمد ا لر سو ل اﷲ ‘‘لکھا گیا مشرکین مکہ نے ا س پر اعترا ض کیا کہ لفظ محمد کے سا تھ رسول اﷲ نہ لکھو ،کیو ں کہ آپ رسو ل ہو تے تو ہم آ پ سے لڑ تے ہی کیو ں؟ قریش ضدپراڑ گئے آپ ﷺ ایک طرفہ صلح کر نے کے لیے اس پر بھی راضی ہو گئے آ پ ﷺ نے حضر ت علی رضی اﷲ عنہ سے فر مایا رسو ل اﷲ کا لفظ مٹا دو ، حضر ت علی نے کہا میں تو ا سے نہیں مٹا سکتا ، تو آپ ﷺ نے خود اپنے ہا تھ سے مٹا دیا اور مشر کین کے ساتھ اس شر ط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحا ب کے ساتھ ( آ ئندہ سا ل) تین دن کے لئے مکہ آ ئیں اور ہتھیا ر میا ن میں رکھ کر دا خل ہو ں گے۔حضر ت عمر رضی اﷲ عنہ سے بر دا شت نہ ہو سکا اور انھو ں نے جو ش جذ بات میں کچھ ایسے الفا ظ فر مائے کہ ہمیشہ(اس پر) شر مندہ رہتے تمام صحا بہ انتہا ئی جذبات میں احرام کھول کر ایک دوسر ے کے سر مونڈ ھنے لگے اور ایسا کر رہے تھے کہ جیسے ایک دوسرے کی گردن کا ٹ دیں گے ۔لیکن اﷲ رب العز ت نے اس صلح کو جو بظا ہر ذلت آمیز تھی ’’فتح مبین ‘‘ قرار دیا اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحْاًمُّبِیْناً ․․․․․․ الخ تر جمہ:بے شک( اے نبی )ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح دی ۔ (بخا ری و مسلم حد یث ۲۶۹۸،۲۶۹۹،۲۷۰۰، ۲۷۰۱،۲۶۹۳ راوی محمد بن بشار ، شعبد، ابو اسحا ق، برا بن عاذب رضو ان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین وغیرہ وغیرہ اور بھی احا دیث مو جود ہیں مطا لعہ فر مائیں۔ حضرت بر اء رضی اﷲ عنہ فرما تے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شما ر کرتے ہو اور ہم بیت ا لر ضو ان کے واقعہ کو فتح مانتے ہیں ہم چو دہ ۱۴۰۰ سوآدمی رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ اس مو قع پر تھے صلح حدیبیہ کے مو قعہ پر ایک درخت کے نیچے صحابہ کرام نے آ قا ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اسی مقا م پر صلح حدیبیہ ہوئی (بخا ری) حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے مر وی ہے کہ صلح حدیبیہ کے وا پسی سفر میں آپ ﷺ نے فرما یا گذ شتہ شب میں مجھ پر ایک سو رت اتری جو مجھے دنیا اور دنیاکی تمام چیز وں سے زیادہ محبو ب ہے پھر آپ نے( اِنّا فَتَحْنَا) کی تلا وت کی ‘‘(بخا ری، تر مذ ی، نسائی، مسنداحمد) صلح حدیبیہ سے بہت بر کت حا صل ہوئی،لو گوں میں امن و اما ن قا ئم ہوا، مسلما ن کا فروں میں بول چا ل شرو ع ہو گئی ۔علم وایمان کی روشنی تیز ی سے پھیلنی شرو ع ہو گئی ، آپ ﷺ فرماتے ہیں در گذر کرنے سے عز ت بڑ ھتی ہے اور عا جزی و انکسا ری کر نے سے بلند ی اور عالی رتبہ حا صل ہو تا ہے۔ (حد یث )

صلح کی اہمیت وفوائد:خانگی زند گی ہو یا معا شرتی کبھی ایسے حا لا ت آ جا تے ہیں کہ لو گوں میں جھگڑ ے کی نو بت آجا تی ہے خد نخوا ستہ گھر یلو زند گی میں اگر ایسی نو بت آجا ئے تو اﷲ رب العز ت فرما رہا ہے ثا لثی مقر ر کر کے صلح کرلو قر آن مجید میں ہے ۔ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَماً مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَماً مِّنْ اَھْلِھَا․․․․․․․الخ ( القر آن سو رہ نسا ء ۴، آیت ۳۵ ) تر جمہ :اگر تمھیں میا ں بیوی کے در میان مخا لفت( ان بن) کا اندیشہ ہو تو تم ایک منصف مرد کے خا ندان سے اور ایک منصف عورت کے خا ندان سے مقر ر کر لو ، اگر وہ دو نوں (منصف) صلح کرا نے کا ارا دہ رکھیں تو اﷲ ان دو نو ں کے در میا ن موا فقت پیدا فر ما دے گا، بیشک اﷲ خوب جا ننے والا اور خبر دار ہے ،(کنزالایمان) میا ں بیوی کے درمیان اگر رنجش،بگا ڑ ہو تو علمائے کرام فرماتے ہیں اور شارع علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایمان دار اور سمجھ دار شخص کو مقر ر کرے جو یہ دیکھے ظلم و زیا دتی کس طرف سے ہے پس ظا لم کو ظلم سے روکے ،سمجھائے اس سے بات نہ بنے تو مرد والوں و عورت والوں کی طرف سے ایک بہتر دین دار شخص کو منصف مقر ر کر دیں(شا رع علیہ ا لسلا م) نے اس بات کی طرف شو ق دلایا ہے کہ جہا ں تک ہو سکے کو شش کریں کہ کوئی شکل نبھاہ کی نکل آئے اگر شو ہر کی غلطی ہے تو عو رت کو اس سے روک لے اور اس کا خرچ دلائے ا ور سمجھائے اور اگر عورت کی طرف سے زیا دتی ہو تو عورت کو الگ کریں( مرد اس کا خرچ بند کردے) لوگ اسکو سمجھائیں اسکو مجبور کریں کہ اپنی عادت ٹھیک کر ے اور شوہر کو بھی سمجھا ئیں کہ ہنسی خوشی رہے۔صلح کرنے کرا نے کی فضیلت قرآن پاک میں متعد دجگہ آئی ہے رسول پاک ﷺ کی سنت بھی ہے خود آپ ﷺ کی زند گی میں ایک بارحضر ت عا ئشہ صد یقہ رضی اﷲ تعا لیٰ عنھا کے درمیا ن کو ئی بات ہو گئی تو آپ نے پو چھا: کیاتم عمر کو حَکَم بنا ؤ گی ؟ حضر ت عائشہ رضی اﷲ عنھا نے عر ض کیا: نہیں، کیوں کہ وہ سخت مزا ج ہیں ، پھر آپ ﷺ نے پو چھا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمھا رے والد میر ے اور تمھا رے بیچ فیصلہ کریں ؟ حضر ت عائشہ نے کہا : ہاں۔ آ پ ﷺ نے ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو بلا بھیجا ۔ جب حضر ت ابو بکررضی اﷲ عنہ تشریف لے آ ئے تو آپ ﷺ نے در یا فت فر مایا کہ تم بات کرو گی یا میں بات کروں؟اُم المو منین نے عرض کیا:آپ ہی با ت کریں لیکن صحیح صحیح بولیں حضر ت ابو بکر صد یق رضٰی اﷲ عنہ یہ سن کرسخت غصہ ہو گئے،اور حضر ت عائشہ رضٰی اﷲ عنھا کو ایک طما نچہ مار دیا، حضر ت عائشہ بھاگیں اور آپ ﷺکی پیٹھ کے پیچھے چھپنے لگیں،حضور ﷺ نے حضر ت ابو بکر رضی اﷲ عنہ سے فرما یا: میں نے آپ کو اس لئے نہیں بلا یا تھا۔ پھر جب حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ تشریف لے گئے تو آپ نے حضرت عائشہ کو قریب بلا یا ، مگر انھو ں نے آ نے سے انکا ر کر دیا ،آپ مسکرائے اور فر مایا:ابھی کچھ دیر پہلے تو تم میری پیٹھ سے چمٹے جا رہی تھیں، پھر جب حضر ت ابو بکر رضی اﷲ عنہ تشر یف لائے اور دو نوں کو ہنستے ہو ئے دیکھا ، تو فر ما یا : آپ دونو ں نے اپنے اختلا ف میں ہمیں شریک کیا تھا ، تو اپنی صلح میں بھی ہمیں شریک کر لیں (ابو دا ؤد: حد یث ۴۹۹۹)

مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں:اﷲ رب العزت ارشاد فر ما رہا ہے ( القرآن،سورہ الحجرا ت ۴۹، آیت ۱۰) ترجمہ: (یاد رکھو)سب اہل ایما ن(آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دونوں بھائیو ں میں صلح کرا دیا کرو، اور اﷲ سے ڈر تے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جا ئے ۔ آج احکا م اِلٰہی کی پا بندی سے دوری ہی ہماری لڑائی اور جھگڑے کی وجہ ہے اور ہما رے اندر بر داشت کی قوت ختم ہو تے جا رہی ہے جسکی وجہ سے بے چینی ، بدا منی ،تشد د، ذ رہ سی با ت پر قتل تک کر بیٹھتے ہیں اوپوری زند گی بر باد کر لیتے ہیں نہ خو د چین سے رہتے ہیں۔ نہ دوسر ے کو چین سے رہنے دیتے ہیں قتل نا حق کے بارے میں قر آ ن مجید میں بہت سی وعید یں آئی ہیں۔ اِرشا د باری تعالیٰ ہے وَلَا تَقْتُلُوْا نَّفْسَالَّتِیْ․․․․․․․․الخ (القر آن سورہ بنی اسر آ ئیل ۱۷ ،آیت ۳۳) ترجمہ:قاتل کے دل میں انسا نیت کا درد ختم ہو جا تا ہے اس کا دل محبت، ہم در دی،انکساری اور انسان دوستی سے خا لی ہو جا تاہے، سماج کے ذ مے دار لو گو ں کو حالات پر غو ر کرنے کی ضرو رت ہے اور جو بن پڑے اپنی طا قت بھر کو شش کر نا چا ہئے۔ جہاں لڑائی جھگڑا نظر آئے وہاں میل ملا پ صلح کرا ئیں اور اﷲ کی بار گاہ میں پسند یدہ بندہ ہو نے کا شرف حا صل کریں اﷲ سے دعا ہے کہ ہم سب کو صلح کرنے کر انے کی تو فیق عطا فر ما ئے آ مین ثم آمین۔

Mohammad Hashim Quadri Misbahi
About the Author: Mohammad Hashim Quadri Misbahi Read More Articles by Mohammad Hashim Quadri Misbahi: 167 Articles with 195806 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.