برصغیر کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں لوگوں کو ایک پر
امن زندگی دینے، ان کی فلاح و بہبود اور انسانی ترقی کے اعشاریے بہتر بنانے
کے بجائے ، ملکوں نے اپنے درمیان دشمنی پالنے کے کلچر کو زیادہ ترقی دی۔
ایک دوسرے کی ناک کو نیچا کرنا ہے چاہے اس کیلئے اپنی گردن ہی کیوں نہ کٹ
جائے۔ اِسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے علاقائی تنازعات بھی حل نہ ہوئے اور گزشتہ
ستّر سال سے پورے خطّے کی تعمیر و ترقی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ یہ نہ سوچا گیا
کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے کہ کوئی ملک اپنے پڑوسیوں سے کٹ کر جزیرہ کی
صورت میں سماجی اور معاشی ترقی کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ علاقائی تعاون کی
صورت میں ایک خطّے میں رہنے والے اپنے قدرتی اور قومی وسائل کو اس طرح یکجا
کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے ملک کیلئے اقتصادی ترقی کیلئے ممد و معاون ثابت
ہو تے ہیں۔ اس کی مثال یورپی ممالک کی یورپی یونین کی شکل میں ہمارے سامنے
ہے جو نہ صرف اقتصادی ترقی کیلئے ساری دنیا میں مثال بنی بلکہ وہ خطّہ جہاں
دوسرے جنگ عظیم میں لاکھوں انسان بارود اور آگ کی نذر ہوئے اور ایسا لگتا
تھا کہ یورپ کی سر زمین پر صرف موت ہی کاشت ہو گی اور موت کی فصلیں ہی اُگا
کریں گی، وہاں شعور نے جگہ لی اور آگ و خون کے کھیل کو امن ، انسانی آزادی
و ترقی میں اس طرح تبدیل کر دیا گیا کہ اس مثال کو اگر دیگر کسی خطّے کے
لوگ ماڈل کے طور پر اپنانا چاہیں تو دشمنی اور تباہی کے کھیل کو دوستی ،
امن اور خوشحالی میں نہ صرف تبدیل کیا جا سکتا ہے بلکہ انہی کے ذریعہ
علاقائی تنازعات بھی حل ہو سکتے ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری ایشیاء کے اس حصہ میں بھی انسانی سماج کے
اجتماعی شعور کے بالغ ہونے کی زندہ مثال ہے۔پاکستان کے ذمہ دار حلقوں کی
جانب سے بھارت کو بھی اس میں شامل ہونے کا عندیہ دیا جا چکا ہے لیکن بھارت
کی جانب سے علاقائی تعاون و ترقی کے اس سفر کو روکنے اور اس کے خلاف مختلف
سازشیں کرنے کی کوششیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ بھارتی قیادت ابھی تک سیاسی
بلوغت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ اور اس کی تازہ ترین مثال وہاں کی یہ خبر ہے کہ
بھارت اپنی پارلیمنٹ میں گلگت بلتستان کو نمائندگی دینے کی غرض سے ـ’خالی
سیٹیں‘ مختص کر رہا ہے اور اس کی فوری وجہ یہ ہے کہ پاکستان چین اقتصادی
راہداری کے تحت بننے والی کاشغر گوادر شاہراہ نے گلگت بلتستان سے گزرنا ہے
۔ بھارت افغانستان کی حکومت کو اپنے دامِ فریب میں لانے کے بعد ایسا ماحول
پیدا کرنا چاہتا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں کاشغر گوادر شاہراہ
اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں نہ صرف رکاوٹ پیدا ہو بلکہ علاقائی تعاون اور
اِس خطّے کے آپس میں زمینی راستوں کی منسلکی سے جو پورے خطّے میں سماجی اور
معاشی ترقی کا باعث بنیں گے وہ بھی متاثر ہوں۔ بھارت کی اِسی علاقائی بالا
دستی کی منفی سوچ نے گزشتہ 70سال سے برصغیر کو غربت و پسماندگی میں رکھا
ہوا ہے اور بھارت اِس خطّے کے مستقبل کو بھی اِسی طرح یرغمال بنا کر رکھنا
چاہتا ہے۔
بھارت کی چالوں کو سمجھنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اِس کے توڑ کیلئے بھی عقل و
خرِد سے کام لینا ہو گا۔ بھارت چاہے گا کہ علاقہ میں کشیدگی برقرار رکھنے
کیلئے جذبات بھڑکائے جائیں اور ہم اُس کے دامِ فریب میں یوں آئیں کہ جس طرح
کا ماحول وہ پیدا کرنا چاہتا ہے ہم اسی طرح کا ردّعمل ظاہر کرکے اُس کے کام
کو آسان بنائیں۔ بھارت کا گلگت و بلتستان کو اپنی پارلیمنٹ میں فرضی
نمائندگی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گلگت و بلتستان کو جہاں سے یہ شاہراہ
گزرے گی اُسے اپنا آئینی حِصّہ قرار دے اور دنیا کو بتائے کہ پاکستان نے نہ
صرف اس علاقہ پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ چین کے تعاون سے پاکستان جو
شاہراہ تعمیر کر رہا ہے وہ بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت کی علاقائی
حدود کی خلاف ورزی ہے۔ ایسی صورت حال میں معاملہ صرف کاشغر گوادر شاہراہ کا
ہی نہیں رہے گا بھارت کشمیر کے اصل مسئلہ کو بھی مسخ کرے گا اور ان منفی
ہتھکنڈوں کے ذریعہ بین الاقوامی برادری کو بھی گمراہ کرنے کیلئے نئے سفارتی
ہتھیار استعمال کر ے گا۔ جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ کشمیر کے بھارت کے
ساتھ نام نہاد عارضی الحاق کی دستاویز کی اُسی وقت کوئی قانونی حیثیت باقی
نہیں رہی تھی جب اس دستاویز کے بعد اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعہ
کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے کشمیری عوام کو یہ حق دیا گیا کہ وہ
آزادانہ رائے شماری کے ذریعہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ معاہدہ کراچی،
آزادکشمیر کے عبوری آئین اور بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی جموں وکشمیر
میں رائے شماری تک ، حکومتِ پاکستان کی گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے دفاع،
کرنسی، امور خارجہ، مواصلات اور اس علاقہ کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری بنتی
ہے اور یہ علاقہ پاکستان کے(Defacto territory)کے طور پر پاکستان کے
علاقائی اختیار اعلیٰ کی حدود میں شامل ہے لیکن پاکستان کے آئین میں درج نہ
ہے۔ کاشغر گوادر شاہراہ اگر چہ چین کے تعاون یا قرضہ سے تعمیر ہو رہی ہے
لیکن اس پر علاقائی اقتدار اعلیٰ چین کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہی ر ہے گا
اور اِس علاقہ کی تعمیر و ترقی کرنے سے حکومت پاکستان، اصل میں بین
الاقوامی قوانین کے تحت ہی اپنے فرائض پوری کر رہی ہو گی۔
حکومت پاکستان کی جانب سے بھی ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت پاکستان بھی
گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کیلئے غور کر رہی ہے۔ یہ وہ دامِ فریب جس
میں بھارت ہمیں لانا چاہتا ہے اور ایسی غلطی کرانا چاہتا ہے جس سے کشمیریوں
اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں جنم لیں گیں اور ایسے اقدامات سے پاکستان
کم اور بھارت زیادہ فائدہ اٹھائے گا اور معاشی راہداری کو متنازعہ بنانے کا
اس کا اصل مقصد پورا ہو گا۔ لیکن میرے خیال میں اس وقت پاکستان اور
آزادکشمیر و گلگت بلتستان کے مابین جو آئینی اور انتظامی معاملات ہیں ان کو
حل کرنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ان علاقوں کے لوگوں میں یہ احساس
محرومی موجود ہے کہ انہیں برابر کا شہری تصور نہیں کیا جا رہا اور اُنہیں
وہ اقتصادی اور سیاسی حقوق حاصل نہیں ہیں جو کسی بھی خطے کے لوگوں کو بطور
آزاد شہری حاصل ہوتے ہیں ۔ علاقہ متنازعہ سہی لیکن انہیں ان سیاسی و معاشی
حقوق سے تو محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ انہیں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ
مسئلہ کشمیر کے حل تک تمہیں اپنے وسائل پرمکمل اختیارات نہیں دئیے جا سکتے۔
اس کیلئے میری تجویزہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دئیے بغیر بھی
اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بین الاقوامی قوانین کے تحت ایسے
آئینی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں جن سے بین الاقوامی طور پر بھی پاکستان
کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اس کے علاقے کے لوگوں کا بھی
احساس محرومی ختم اور سی پیک کے منصوبے بھی پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں۔
اگر حکومت پاکستان کیلئے یہ مجبوری ہے کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری
کے تحفظ کیلئے کوئی آئینی اقدامات کو ناگزیر سمجھے تو گلگت بلتستان کو صوبہ
قرار دینے کے بجائے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر میں رائے
شماری کے انعقاد تک اِس علاقہ کو بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان اپنی
حضانتی ریاست(Protectorate State)قرار دے سکتا ہے اور آئین پاکستان میں اِس
حد تک ترمیم کی جا سکتی ہے ، جس سے یہ علاقے اپنی موجودہ نیم خود مختار
حیثیت بھی برقرار رکھیں گے اور حکومت پاکستان کے ان علاقوں پر اقتدار ِ
اعلیٰ کو بھی چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اِس کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ
حکومت پاکستا ن اِ ن علاقوں کو تعمیر و ترقی کیلئے بھی پاکستان کے باقی
صوبوں کے برابر کا حصہ دار تسلیم کرنے کی پابند ہو گی۔ این ایف سی ایوارڈ
اور نیٹ ہائیڈرل پرافٹ وغیرہ کے معاملات میں پاکستان کے دیگر صوبوں کے ساتھ
جو اِس وقت پیرٹی کا اصول تسلیم نہیں کیا جاتا اور جواز دیا جاتا ہے کہ یہ
علاقے آئین پاکستان میں درج نہیں ہیں لہٰذا یہ برابر کے حقوق نہیں مانگ
سکتے ، اس کا بھی حل ہو جائے گا ۔ حکومت پاکستان کے انتظامی احکامات
جو1970ء اور1996ء میں جاری ہوئے آزاد کشمیر کو مالی وسائل اور تعمیر و ترقی
میں باقی صوبوں کے برابر حصہ دار بنائے جانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور ان
انتظامی احکامات کے تحت اسے عملی طور پر صوبہ(Defacto Province) قرار دیا
گیا ہے ۔ لیکن ان احکامات پر کلّی طور پر عملدرآمد نہ ہو سکا کہ آزاد کشمیر
آئین پاکستان میں آئینی حصہ نہیں ہے۔ اگر اِن علاقوں پر حکومت پاکستان کی
عملداری ہے تو آئین پاکستان میں نہ صرف اِس کا ذکر ہونا چاہیے بلکہ حکومتِ
پاکستان اور ان علاقوں کے درمیان جو حقوق و فرائض ہوں وہ بھی آئین میں درج
ہونے چاہیں۔
موجودہ ابہام کی صورت حال بھی ان علاقوں کی پسماندگی کی بڑی وجہ ہے۔ ان
علاقوں کی حضانتی ریاستیں قرار دیتے ہوئے باقی صوبوں کی طرح اِن علاقوں کے
قدرتی وسائل پانی اور معدنیات وغیرہ پر اِن ریاستی حکومتوں کے حقِ ملکیت کی
بھی آئینی گارنٹی ہونی چاہیے۔ نیٹ ہائیڈل پرافٹ کا تعین آئین پاکستان کی
حقیقی روح کے مطابق کیا جائے جس میں آبی ذخیرہ پر آنے والی لاگت اور جاریہ
اخراجات منہا کر کے بقیہ ساری آمدنی متعلقہ صوبے یا ریاست کا حق بنتی ہے ۔
اِسی طرح ریاستوں کا اِن علاقوں سے نکلنے والی معدنیات وغیرہ کو ملٹی نیشنل
کمپنیوں کی لوٹ مار سے بچانے کیلئے اور ان قدرتی وسائل کی حقیقی آمدنی سے
وہاں کے لوگوں کو استفادہ کرنے کا حق آئین کی اِن خصوصی شقوں میں شامل کیا
جا سکتا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے اِن خصوصی علاقوں کے معاشی اور سیاسی حقوق کی
ضمانت ، ریاست پاکستان کے مالی وسائل سے ان کو منصفانہ حِصّے کی ادائیگی کو
اگر یقینی بنا دیا جائے تو مسئلہ کشمیر اور ان علاقوں سے متعلق دنیا میں
پاکستان کو اپنا موقف بیان کرنے میں ایک بڑی آسانی اور طاقت حاصل ہو جائے
گی ۔ حکومت پاکستان پر ان علاقوں کے لوگوں کا اِعتماد بحال ہو گا۔ لہٰذا
بہتر ہے کہ گلگت و بلتستان کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے عوامی
سطح پر مشاورت کے علاوہ کشمیری قیادت بشمول گلگت بلتستان کے لوگوں کے جذبات
کا ادراک کیا جائے تاکہ وسیع تر قومی مفادات کا تحفظ ہو سکے جو اس خطّہ میں
امن و خوشحالی کی نوید ہو نہ کہ لوگوں کو مزید تقسیم کا باعث بنے۔ |