سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کروانے کا اعلان کیا ہوا ہر
طرف آگ لگ گئی کے پی کے دھماکہ پشاور دھماکہ مال روڈ دھماکہ ڈی ایچ اے
دھماکہ (یا سلنڈر پھٹا) لال شہباز قلندر دھماکہ گویا ہر پاکستانی اچانک امڈ
آنیوالی اس دہشتگردی کی لہر پر حیران و افسردہ تھا ۔ زخیر دل ہے کہ مسکرانے
کے بہانے ڈھونڈے کئی گھروں کے چراغ گل ہوجانے کے بعد بھی ہماری قوم کی
ترجیح پی ایس ایل فائنل کا لاہور میں انعقاد تھا ۔ وزیراعظم میاں نواز شریف
چیئرمین پی ایس ایل نجم سیٹھی کی کامیابی سے یہ مرحلہ بھی عبور ہوا انتہائی
سخت سیکورٹی میں لاہور فائنل کا وعدہ پورا کردکھایا قذافی سٹیڈیم میں
رونقیں روشنیوں کا سماں اور تماشائیوں کے چہروں پہ خوشی قہقہے ہلڑ بازی خیر
ایک بھرپور تفریح کا منظر نامہ تھا خوشی اس بات کی کہ غربت مہنگائی
بیروزگاری دہشتگردی سمیت بیسیوں مسائل سے الجھی قوم کو اگرچہ چند گھنٹے
کیلئے ہی سہی اپنے غم پس پشت ڈال کر چہروں پہ رونقیں امڈ آئیں ۔ اسی اثنا
میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان جن کا پہلے تو موقف تھا کہ فائنل سمیت
تمام میچز لاہور میں ہونے چاہئیں پھر اچانک یوٹرن لیا اورلاہور میں فائنل
کا انعقاد پاگل پن قرار دیدیا پھر ایک سیاسی بحث پوائنٹ سکورنگ کا عمل شروع
ہوا خدا خدا کرکے فائنل پرامن گزرا تو کپتان نے غیرملکی کھلاڑیوں کو
ریلوکٹے اور پھٹیچر کہہ دیا یہ گفتگو آف دی ریکارڈ اور نجی محفل میں کی تھی
جسے ایک خاتون صحافی نے اپنے موبائل میں خفیہ ریکارڈنگ کرکے آن ایئر کردیا
بس پھر کیا تھا حزب اقتدار کی توپوں کا رخ تحریک انصاف کی طرف ہوگیا
الزامات کی بوچھاڑ تنقید کے نشتر سب چلتا رہا اب کہانی شروع ہوتی ہے سینئر
پارلیمنٹیرین شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے میاں جاوید لطیف اور تحریک انصاف
کے ممبر قومی اسمبلی نوشہرہ سے مراد سعید کے درمیان لفظی حملوں کے بعد
ہاتھا پائی قصور کس کا تھا کس نے کیا کہا اس پہ بہت بحث ہوچکی بہت لکھا
جاچکا یقیننا مراد سعید کا مکا غلط تھا اور میاں جاوید لطیف کے الزامات بھی
انتہائی غیر شائستہ غیر مہذب تھے خیر میں ذرا پس منظر میں جانا چاہتا ہوں
126 دن اسلام آباد دھرنے میں شلواریں گیلی کرنے سے لیکر رشتہ لینے آنیوالی
غیر مہذب غیر شائستہ تقاریر بازاری زبان اوئے نواز شریف اوئے ڈیزل فلاں
فلاں یہ بدتمیزی اور تشدد کا کلچر کس نے متعارف کروایا چینلز کے دفاتر پر
حملے بے گناہ صحافیوں کو پھینٹی کس نے لگائی خان صاحب یہ ایک تسلسل ہے جسکا
آغاز آپ نے کیا آپکی پارٹی نے کیا دل خون کے آنسو روتا ہے وہ اعلی ظرف لوگ
بھی ہماری سیاسی جمہوری تاریخ کا حصہ تھے جو سیاست کو ذاتیات تک لیکے جانا
کبیرہ گناہ سمجھتے تھے خانہ کعبہ مسجدالحرام حرم کعبہ میں وزیراعظم میاں
نواز شریف کی موجودگی میں گو نواز گو کے نعرے لگانے والے کون ہیں اس گھر
میں جاکے انا کے بت پاش پاش ہوجاتے سر تسلیم خم ہوجاتے ہیں جبین نیاز
سربسجود ہوتی ہے اشکوں کا سیل رواں ہوتا ہے ممتازمفتی کہتے ہیں وہاں ہوش ہی
کسے رہتا ہے کعبتہ اللہ کی ہیت و جلال سب بھلا دیتا ہے وہاں بھی ہمارے محب
وطن پاکستانی گو نواز گو کے نعرے لگا کر وسیع تر قومی مفاد میں جذبہ حب
الوطنی کا مظاہرہ کرتے رہے غیر ملکی اسٹیڈیمز کرکٹ فٹ بال میچز کے دوران
وزیراعظم پاکستان کیخلاف نعرے لگا کر ہم نے عالمی دنیا کے سامنے پاکستان کا
تمسخر اڑایا خدا کیلئے اپنی سوچ اور نظریں جاوید لطیف اور مراد سعید تک ہی
مرکوز کرنے کی بجائے ذرا ماضی قریب کا جائزہ بھی لیں سوشل میڈیا پہ کیا کیا
بیہودگی نہیں ہوئی فیاض چوہان کے ٹویٹس سے لیکر پھٹیچر تک ایک لمبی داستان
ہے جناب عمران خان یہ آپ ہی کا لگایا ہوا شجر تھا آپکے بیانات نے جس کی
آبیاری کی اب وہ تناور درخت بننے کے قریب تر ہے اگر اب بھی آپ نے اپنے
ورکروں ہمدردوں کو تحمل برداشت رواداری کا درس نہ دیا بیچ بازار گندے کپڑے
دھونے بند نہ کئے تو اسکے ثمرات آپکے مخالفین ہی نہیں آپ بھی بھگتیں گے اگر
آپ گلیاں سنجیاں کرکے حقیقت کو الزامات کے پیچھے چھپا کر سمجھتے ہیں کہ
حصول اقتدار ممکن ہے تو یہ ایک بڑی خام خیالی ہے احتساب کے نام پر کردارکشی
کی بجائے اگر آپ چار سالوں میں پختونخواہ کی عوام کی خدمت کرتے کوئی مثالی
اقدامات کرتے عام آدمی کی فلاح کی بات کرتے تو شاید آپکو روایتی الزام
تراشی کی سیاست کا سہارا نہ لینا پڑتا مشرقی اقدار واخلاقی اقدار کا گلا مت
گھونٹیئے اسے سانس لینے دیجئیے مہزبانہ روایات کوکو جینے دیجیئے مجھے امید
ہے یہ آپکے اقتدار کے راستے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنیگی وسیع النظری بالغ
النظری کی طرف آئیے۔ سیاسی مخالف کو سیاسی مخالف ہی رہنے دیجئے اگر آپ کسی
کو سر بازارننگا کرینگے تو یاد رکھئے اس سیاسی حمام میں سب ہی ننگے ہیں
ہر ایک سے کہتے ہو کہ تو کیا ہے
ذرا تمھی بتاو یہ انداز گفتگو کیا ہے |