میں حسین حقانی کو قصور وار نہیں مانتا

مان لیتے ہیں کہ حسین حقانی نے بغیر سیکیورٹی کلیرنس امریکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کیئے لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ یہ سب کچھ کر رہا تھا تو ہمارے سیکیورٹی ادارے خاموش کیوں تھے؟ مان لیتے ہیں کہ سی آئی اے نے پاکستان میں ایک parallel spy network کھڑاکیالیکن سوال یہ ہے کہ جب ایسا ہو رہا تھا تو پاکستانی spy agenciesکہاں تھیں؟مان لیتے ہیں کہ امریکہ نے ہمارے سیکیورٹی اداروں کے علم میں لائے بغیر ایبٹ آباد آپریشن کیا لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے امریکی منصوبوں سے لاعلم کیوں رہے ؟مان لیتے ہیں کہ حسین حقانی نے پاکستانی مفادات کو زک پہنچائی لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی کیوں بنے رہے ؟

قطع نظر اس بات کے کہ حسین حقانی کو زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی آشیر باد حاصل تھی یہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ بیرونی ایجنٹو ں کا راستہ روکتے کیونکہ ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری سیکیورٹی اداروں پر ہوتی ہے اور ایسا کرنے کیلئے انہیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہونی چاہیے ۔ لیکن اس سارے قصہ میں ہوا یہ کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے یہ فرض کر کے بیٹھ گئے کہ انکے ہاتھ میں کچھ نہیں ۔انہوں نے اپنے فرائض انجام نہیں دیئے اور کوئی ایکشن نہ لیا ۔ قانون کی نظر میں وہ بھی اتنے ہی قصور وار ہیں جتنا کہ حسین حقانی کیونکہ قانون یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی فعل آپ کے فرائض منصبی میں آتا ہے اورآپ وہ فعل انجام نہیں دیتے تو آپ کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے یعنی inaction is also actionable۔ مجرم کو پکڑنا پولیس والوں کا فرض ہے اگر وہ مجرموں کونہیں پکڑتے یا جرم ہوتا دیکھ کر کوئی کاروائی نہیں کرتے تو وہ فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور انکے خلاف کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے ۔ ہمارے سیکیورٹی اداروں نے کوئی ایکشن نہ لیا کسی غیر ملکی ایجنٹ کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوئی یہاں تک کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہاکرواکر ملک سے باہر بھجوا دیا گیا ۔حسین حقانی نے تو جو کیا سو کیا ، سوال یہ ہے کہ ہم نے اسکے جواب میں کیا کیا، اسے باحفاظت ملک سے جانے دیا؟

پاکستان میں 33کے قریب خفیہ ادارے کام کرتے ہیں جن پر سالانہ 150ارب روپیہ خرچ ہوتا ہے جن کے ملازمین کی تعداد پاکستان کی ایکٹو ڈیوٹی فوج (ایکٹو ڈیوٹی فوج کی تعداد سوا چھ لاکھ کے قریب ہے ) کے برابر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اتنے سارے خفیہ اداروں کی ناک کے نیچے سی آئی اے اور بلیک واٹر اپنا کھیل کھیلتی رہی اور یہ ادارے بے خبر رہے ؟کیااس سے ان اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا نہیں ہوتا ؟ کیا خفیہ ادارے امریکہ اور سی آئی اے کو بیوفائی کا الزام دیکر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں ؟دہائی یہ دیتے ہیں کہ سی آئی اے نے ہمیں ایبٹ آباد آپریشن سے لاعلم رکھا ۔کیسی بچوں جیسی بات کرتے ہیں ۔ ایک طرف یہ اس حقیقت کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سی آئی اے پاکستان کی سیکیورٹی استٹبلشمنٹ پر بھروسہ نہیں کرتی تو پھر وہ اپنے منصوبوں کے بارے میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو اعتماد میں کیوں لے گی ؟ یہ سی آئی اے کا کام نہ تھا نہ ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی کاروائیوں بارے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کوباخبر رکھے بلکہ یہ پاکستان کے سیکیورٹی اور خفیہ داروں کا فرض اولین ہے کہ وہ ہمہ وقت پاکستان میں موجود بیرونی ایجنٹو ں پر نظر رکھیں اور انکے منصوبوں سے با خبر رہیں خواہ یہ دوست ممالک کے ایجنٹس ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں دوست ممالک کے مفادات ایک ہوں ۔ جہاں پاکستان کے دوست ممالک کے مفادات پاکستان کے مفادات سے ٹکرائیں گے وہاں وہ ممالک پاکستان کو اپنے منصوبوں سے دور رکھیں گے یا رکھنے کی کوشش کریں گے ایسے میں پاکستان کے ریاستی اداروں کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کیلئے خود کو باخبر رکھنے کی تدبیر کریں ۔ لیکن ہمارے سیکیورٹی ادارے اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ ہم تو دہشتگردی کی جنگ میں امریکہ کے فرنٹ لائین اتحادی ہیں اور سی آئی اے والے تو ہمارے یار ہیں لیکن ہم بھول گئے کہ سی آئی اے امریکہ کی خفیہ ایجنسی ہے اسکا کام امریکی مفادات کا تحفظ ہے جنکے آگے پاکستان کے مفادات ، عزت ، دوستی کوئی معانی نہیں رکھتی ۔ ہم نے دہشتگردی کی اس جنگ میں امریکہ اور سی آئی اے پر اندھا اعتماد کیا ۔ساٹھ ستر ہزار بیگناہ پاکستانی مارے گئے ، ملک کی معیشت تباہ ہوگئی اور جس کا صلہ پاکستان کو دہشتگرد ریاست قرار دیئے جانے کا بل پیش کرکے دیا جا رہا ہے ۔ کیا ہماری عقل ہمارا ساتھ چھوڑ چکی ہے کہ ہم ابھی تک امریکہ سے خیر کی توقع رکھتے ہیں؟

بلا شبہ ایک طرف یہ بات درست ہے کہ حسین حقانی نے پاکستان کے خلاف امریکہ کی مدد کرکے پاکستان کے مفادات پر کاری ضرب لگائی لیکن دوسری جانب یہ بات بھی غلط نہیں کہ ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے ۔ اگرحسین حقانی امریکہ کی مدد کرنے کا قصور وار ہے تو ہم اپنا بچاؤ نہ کرنے کے مجرم ہیں۔ یہ مفادات کی جنگ ہے جس میں ہر کوئی اپنے مفادات کے تحفظ کا خود ذمہ دار ہے ۔ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے اسکے مفادات کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں ۔ حسین حقانی کے خلاف کاروائی کے ساتھ ساتھ ہمارے ریاستی اداروں کو خود احتسابی کا عمل بھی شروع کرنا چاہیے ۔ ہم کیوں یہ نہ سمجھ سکے کہ ہمارے ساتھ ایک کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ ایک طرف امریکی سویلین قیادت ہمارے سویلین حکمرانوں کو جمہوریت کی مضبوطی میں مدد کی لوری سناتی رہی اور دوسری طرف سی آئی اے ہماری عسکری قیادت کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون پر شاباشی دیتی رہی جبکہ اندر خانے وہ اپنے خفیہ ایجنڈے پر کام کرتے رہے ۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ امریکہ نے ہمیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا ، بیوقوف بنایااور ہم بیوقوف بنتے چلے گئے اور بنتے چلے جا رہے ہیں ۔ لیکن کب تک ؟

Zahid Abbasi
About the Author: Zahid Abbasi Read More Articles by Zahid Abbasi: 24 Articles with 22442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.