صحافت جو تجارت بن گئ

آج صحافت کا عالم انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔قارئین کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لئے اوچھی حرکتیں کی جاتی ہیں ،غیرموزوں مواد شائع کیا جاتا ہے، حق و صداقت کا پرچم سرنگوں کردیا جاتا ہے ،اپنی منشاء کے مطابق خبروں کو ڈھال دیا جاتا ہے ،چند اخبارات نے اس رویہ کو اپنے لئے آب حیات سمجھ رکھا ہے ،وہ اس طریقہ کار کو کامیابی کی کلید اور طریقہ کا زینہ سمجھ رہے ہیں اور اس طرز و انداز ہی کو صحافت گردان رہے ہیں ،ان کے ذہن و خیال میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ اس دائرہ کو پھلانگ کر ترقی کا منھ نہیں دیکھا جا سکتا گوکہ یہ لکشمن ریکھا ہے جس کے باہر پاؤں پسارنا ہلاکت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے اور وہ اس مضبوط خول کو توڑ نہیں پاررہے ہیں ۔چنانچہ مخصوص ذہنیت کے ساتھ اسی روایت پر عمل پیرا ہیں ،جمہوریت کا خون بہے تو بہے ،لوگوں کے جذبات مجروح ہوں سو ہوں ،ماحول متاثر ہو تو ہو ،کسی کی دل آزاری ہو تو ہو ،انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،چونکہ ان کی نگاہ میں صحافت محض ایک تجارت ہے، جس میں قارئین کی کثرت ہی پر بنیادیں ٹکی ہوئی ہیں ،قارئین نہیں ہوںگے ٹی آر پی نہیں ہوگی تو مشکلات و مصائب کا سامنا ہوگا ،آرائش و آسائش میسر نہیں آئے گی ،عیش و عشرت کی زندگی دستاب نہیں ہوگی ،وہ کیوں حق و صداقت کی آواز بلند کریں ،وہ کیوں عدل و انصاف کی باتیں کریں ،کیوں حقائق سے لوگوں کے دلوں کو چھلنی کریں ،دنیا کا ہر تاجر اپنے گاہکوں کی منشاء ان کی آرزو کا خیال کرتا ہے ،ان کی خواہشات کی تکمیل کو باعث فخر سمجھتا ہے ،وہ اس فارمولے پر عمل پیرا کیوں نہ ہوں ؟ان خیالات نے اس جرم کی قباحت بھی ان کے ذہنوں سے نکال دی ،وہ بھول بیٹھے ہیں کہ صحافت تجارت نہیں ہے ،خدمت ہے ،اس میں خبروں کا بازار لگا کر عوام سے قیمت وصول نہیں کی جاتی ،جھوٹے اعداد و شمار پیش کرکے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جاتا ، مذہبی منافرت پھیلا کر حلقہ کو وسعت نہیں دی جاتی ،بلکہ سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا جاتا ہے ،ان کے حوصلوں کو مہمیز کیا جاتا ہے ،انہیں وقت کی نزاکت حالات کی ستم ظریفی سے واقف کرایا جاتا ہے، زمانہ کس محور پر گردش کررہا انہیں اس سے باخبر کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور جمہوریت کی خاطر ہر مشکل برداشت کر لی جاتی ہے ،ملک کی حفاظت میں ہر قیمت دیدی جاتی ،جان مال عزت و آبرو ہر شئے کو قربان کردیا جاتا ہے ،مگر اپنے ملک کا وقار داو پر لگانا ، اس کی عزت و ناموس سے کھلواڑ کرنا، یہ خیال بھی کسی صحافی کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا ،تاریخ ہمیں صحافت کا یہی روپ دکھاتی ہے ،ہم جب ماضی کے کوچوں میں قدم رکھتے ہیں ،تو احساس ہوتا ہے ،کہ صحافت شخصی نظام میں بھی آزاد تھی دور غلامی میں بھی اس نے اپنے پاوں میں بیڑی نہیں پہنی ،مصلحتیں ،حکمتیں ،خوف و ہراس کبھی اس پر غالب نہیں آیا،افسروں کے خلاف خبریں منظر عام پر لائی گئیں ،اگر یقین نہ آئے تو دہلی کے اردو اخبار کی تاریخ پڑھ لیجئے ،اس کی قدیم کاپیاں دیکھ لیجئے ،آپ کو صحافت کے معنی اور اس کا مفہوم سمجھ میں آجائے گا ،اس کا فرض منصبی سمجھ میں آجائے گا اس کی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے گا اور معلوم ہوگا کہ صحافی ایک سپاہی ہے ،جس کا قلم تلوار سے زیادہ تیز ہے ،جھوٹ، ظلم، برائی کی ایسے بیخ کنی کرتا ہے ،جیسے سپاہی میدان کارزار میں مدمقابل کی اور زیر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا ، جان دینا تو ارزاں سمجھتا ہے ،مگر اپنے مقصد و منصب اور اپنے فن سے دھوکہ بازی کو روا نہیں سمجھتا ۔محمد باقر علی نے اپنی جان دے دی تھی مگر صحافت کی آبرو پر حرف نہیں آنے دیا تھا ،ابوالکلام آزاد نے جیل کی صعوبت کو برداشت کر لیا تھا مگر تاریخ صحافت پر سیاہی کا نقطہ بھی گوارا نہیں کیا محمد علی جوہر نے سلاخوں کے پیچھے رہنا منظور کیا مگر صحافت کی آبرو نیلام نہیں ہونے دی ۔صحافت کی تاریخ دیکھیے چھاپہ خانہ ضبط کئے گئے ،قلم چھین لئے گئے پابندیاں عائد کردی گئیں ،سختیاں جھیلنا پڑیں ،گرفتاریاں ہوئیں ،مگر حق و صداقت کی آواز بلند کرنے میں ،قوم کے مقدر کا ستارہ روشن کرنے میں ہے ،حکومت کی جوتیاں چاٹنے میں نہیں ،چاپلوسی کے جرم میں نہیں ،کسی خاص سیاسی جماعت کی الفت میں نہیں ،یہ فرق ہے ،ابوالکلام آزاد اور شیکھر ترپاٹھی میں ،ایک جمہوریت کے قیام اور ملک کی آزادی کے لئے ہتھکڑی پہنتا ہے ،تو دوسرا جمہوریت پر شب خون مارنے کے جرم میں ہتھکڑی پہنتا ہے ،ایک کا مطمح نظر آزادی ہے ،تو دوسرے کا مقصد جماعت خاص کی غلامی ،قانون صحافی کل بھی توڑتے تھے ،بغاوتِ قلم کل بھی کرتے تھے مگر وہ ملک اور عوام کے ظلم و کرب کا نتیجہ تھا اور آج ہم سب نے دیکھا دینک جاگرن کے آن لائن ایڈیٹر نے صحافت کی روح کو زخمی کیا ،ایک خاص سیاسی جماعت کے حق میں ماحول بنانے کی کوشش کی اور پھر یہ خبریں بھی گردش کرتی نظرآئیں کہ یہ اشتہار تھا ،گویہ کہ یہ مذموم حرکت روپیوں کی طمع میں کی گئی تھی ،گردن شرم سے خم ہوجاتی ہے، وجود زمین میں گڑا ہوا محسوس ہوتا ہے، جب اس طرح کے واقعات منصہ شہود پر آتے ہیں اور آج یہ چلن عام ہوتا جارہا ہے ،ایک ٹی وی چینل نے جے این یو معاملہ میں کچھ اسی طرح کا کردار ادا کیا ،نوٹ بندی کے ابتدائی ایام میں یہی صورت حال نگاہوں کو خیرہ کرتی رہی ۔آج پھر صحافت ایک شخص کو سامنے رکھ کر اسی انداز کا کھیل کھیل رہی ہے ،مذہبی جذبات کا سہارا لے کر اپنے بزنس کو ترقی دینے کی کوشش کررہا ہے ،جے این یو میں ہوا نقصان اتنی جلد اس کے ذہن سے محو ہو گیا ،اس وقت صفائیاں دی جاتی تھی ،خود کو بے داغ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ،وہ یاد رکھیں ماضی میں ’’ہند درپن‘‘ نامی سماچار نے اس طرح کی اوچھی حرکت کی تھی اور ہندو مت کے رہنماوں پر طعن تشنیع کر کے اور پھبتیاں کس کر اپنی روٹی سیکنی چاہی تھی ،مگر چند دنوں بعد ہی اس کا سورج غروب ہوگیا، اس سے بھی صحافی اور ان سے متعلق دیگر ادارے سبق حاصل کریں ،تاریخ اپنے کو بارہا دوہراتی ہے ،جذبات سے کھیل کر مستقل کی کامیابی حاصل نہیں کی جاتی ،ریت کے محل دیر تک آندھیوں کی تاب نہیں لاتے ،کاغذ کی ناؤ پانی پر دیر تک نہیں تیرتی ،میمنے شیر کی کچھار میں دیر تک محفوظ نہیں رہتے ،جو ان حقائق کو نہیں سمجھتے نقصان اٹھاتے ہیں،ساتھ ہی اس موقع پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے ،اس فکر کو حیات نو بخشنے والے ہم لوگ ہیں ،ہم اس طرح کی تحریروں کو مزے لے لے کر پڑھتے اس کی طرف دوڑتے ہیں ،حقائق سے نظریں چراتے ہیں ،سچائی کو پڑھنے کی تاب نہیں لاپاتے اور خوش گپیوں کا مطالعہ ہی ہماری طبیعت کو فرحت بخشتا ہے ،یاد رکھئے اگر یہ رجحان بڑھا تو صحافت نہیں جمہوریت بھی متاثر ہوگی اور تکلیف دہ نتائج سامنے آئیں گے ،اس لئے عقل و ہوش سے کام لیجئے جذبات کی رو میں مت بہئیے ۔

Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 85028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.