وہ پتھرائی ہوئی بے جان نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا
فالج نے اُس کے جیتے جاگتے جسم کو بُری طرح جکڑرکھاتھا اُس کی رگوں میں
طاقت سے بھر پور جوان خون سرد ہو چکا تھا اُس کی رگوں نے خون کی روانی کو
قبول کر نے سے انکا ر کر دیا تھا اُس کی نظریں اورچہرہ تاثرات سے عاری ہو
چکا تھا اُس کے چہرے کے عضلات کی چستی پھستی ہنسی بے جا نی میں بدل چکی تھی
اُس کا سرخ و سفید چہرہ جو ہر وقت آتش فشاں کی طرح دہکتا رہتا تھا اُس کے
چہرے پر ہر وقت طا قت نشے سرور غرور کے چشمے ابلتے رہتے تھے اب اُس کے بے
جان بو ڑھے شل پتھر جیسے چہرے پر قبرستان جیسی خا مو شی کا راج تھا وہ جس
کو ہر وقت اپنی طا قت اختیار اقتدار اور اثر و رسوخ کا شدت سے احساس تھا آج
اپنے ہی جسم کی حرکت پر قادر نہیں تھا اُس کے منہ سے مسلسل رالیں بہہ رہی
تھیں لیکن وہ اپنے ہی جسم پر اتنا بھی اختیار نہیں رکھتا تھا کہ اپنے ہی
منہ کو صاف کر سکے وہ بے بسی ملتجی نگا ہوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا میرے
سامنے تقریبا پینسٹھ سالہ بوڑھا فالج زدہ شخص بیٹھا تھا جو اپنی جوانی میں
خود کو اِ س معاشرے اور ملک کا طاقت ور ترین انسان سمجھتا تھا جو ہر وقت
انسانوں کو کیڑے مکو ڑوں کی طرح مسل کر خو ش ہو تا تھا جس کو اپنی طا قت
اختیار اور اثر و رسوخ پر اتنا غرورتھا کہ وہ اپنے ذرائع کی وجہ سے کچھ بھی
کر سکتا ہے ‘الکا مان تھا کہ کو ئی ہے جو میرا مقا بلہ کر سکے جو میرا
راستہ روک سکے جس کو یہ غلط فہمی تھی کہ سینکڑوں لوگوں کے مقدر کا با دشاہ
میں ہی ہوں جو زندہ میری وجہ سے ہیں جن کے چولہے میری وجہ سے جلتے ہیں جن
کے گھروں میں زندگی میری وجہ سے ہے جن کا رازق مالک میں ہی ہوں جو یہ کہتا
ہو کہ میرے جیسا لبا س گھڑی اور جو تے کو ئی اور نہ پہنے ‘مجھے سب سے مختلف
نظر آنا چا ہیے میں ہی لوگوں کا داتا ہوں جو اپنی بے پنا ہ دولت اور اثر
رسوخ کو اپنی ذاتی قابلیت سمجھتا ہو جو اﷲ کی مہربا نیوں کو نہ مانتا ہو جو
اپنی خا میوں کو اپنی عقل کا سرچشمہ سمجھتا ہو اور جب گردش لیل و نہا ر نے
کروٹ لی جوانی کی جگہ بڑھا پے نے جسم پر قبضہ کر نا شرو ع کر دیا جسمانی
اعزاء کمزور ہو نا شروع ہوئے رگوں میں دوڑتا خون جمنا شروع ہوا اور پھر
فالج نے طاقت ور ترین جسم کو شل کر کے رکھ دیا جسم سنگی مجسمے کے روپ میں
ڈھل گیا جسم نے پہلی دفعہ شکست کھائی تھی جسم نے پہلی با ر حکم ماننے سے
انکار کر دیا تو دولت کے بل بو تے پر مہنگے سے مہنگے ہسپتا ل اور ڈاکٹروں
سے علا ج شروع کر ا یا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں علا ج کروایا کو ئی بھی
علا ج کا رگر نہ ہوا ڈاکٹروں سے حکیموں تک جب ہر جگہ سے ناکامی کا سا منا
کر نا پڑا تو پھر دربا روں با بوں روحانی معالجوں کے دروازوں پر ٹھو کریں
کھا نی شروع کیں اس بھا گ دوڑ میں آج اپنے وقت کا طاقت ور ترین آدمی میرے
پاس آیا ہوا تھا آج اِس کی بے بسی لا چارگی کمزوری دیکھ کر مجھے بالکل بھی
یقین نہیں آرہا تھا یہ وہی فرعون صفت انسان ہے جو دولت کے بل بو تے پر
معاشرے کا فرعون بنا ہوا تھا کسی کی جرات نہیں تھی اِس کی نظر سے نظر ملا
سکے اِس کو انکار کر سکے اِس کے مزاج کے خلا ف کو ئی با ت کر سکے اِس سے
اختلاف کی جسا رت کر سکے یہ اپنے منہ سے نکلے ہو ئے الفاظ کو تقدیر اور قا
نون کا رتبہ دیتا تھا کہ میں نے جو کہہ دیا یہ حرف آخر پہ اور اگر کو ئی
اِس کی با ت نہ مانتا یا اختلا ف کی جرات کر تا تو یہ اُس کو نشان عبرت بنا
دیتا اِس کو اپنی طا قت کا اتنا زیا دہ گھمنڈ تھا کہ خو د کو خدا سمجھ
بیٹھا تھا یہ اُس وقت یہ بھو ل گیا تھا کہ اِس سے پہلے بھی کئی فرعون چنگیز
ہٹلر اِس کر ہ ارض پر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں لیکن یہ بد قسمت نہ
سمجھا اور پھر وقت نے اِس سے سب کچھ چھین لیا مجھے آج بھی اِس کا وہ چہرہ
اور غرور یا د تھا جب کئی سال پہلے میں اِس سے ملا تھا میں اِس ظالم شخص کو
نہیں جا نتا تھا اور نہ کبھی خو اہش رہی ایسے درندوں سے ملنے کی اِس کے
بچوں کو جو قاری صاحب پڑھا تے تھے وہ کبھی کبھا ر میرے پاس بھی آجا تے تھے
ایک دن وہ قاری صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ میں ایک دولت مند شخص کے گھر
بچوں کو پڑھا نے جاتا ہوں اُ نکے گھر میں چوری ہو گئی ہے اُس شخص نے اپنی
طاقت اختیار اثر رسوخ کے بل بو تے پر اپنے خانسامے کو پو لیس تھا نے میں
بند کروا دیا ہے اِس نے بہت ہا ئی لیول پر سفارش کرا کر اُس کو مار مار کر
نیم پاگل کرا دیا قاری صاحب کے بقول وہ شخص چوری کا اقرار کرتا ہے لیکن پھر
مُکر جاتا ہے آپ میرے ساتھ چل کر اُس نو کر سے مل لیں اور بتائیں کہ وہ چور
ہے کہ نہیں میں نے جا نے سے بہت انکار کیا لیکن جب قاری صاحب نے بہت مجبور
کیا تو میں پو لیس تھا نے اُس نوکر سے ملنے چلا گیا میں جب تھا نے پہنچا تو
تفشیشی آفیسر مجھے ملا اور ایک طرف لے گیا اور جا تے ہی کہا جناب میں نے
اچھی طرح تفتیش کر لی ہے میں اپنے تجربے کی بنا پر گا رنٹی سے کہتا ہوں کہ
یہ بیچا رہ ملز م نہیں ہے اِس نے بلکل بھی چوری نہیں کی کہ اگر سو سال میں
بھی چوری اِس سے برآمد ہو جا ئے تو جو چور کی سزا وہ میری سز ا ‘میں نے
تفشیشی آفیسر کی با ت سن کر کہا تو تم بتا کیوں نہیں دیتے کہ یہ چور نہیں
ہے تو وہ بولا جنا ب میں نے دبے لفظو ں میں کئی بار کہا ہے لیکن اِس کا
مالک کسی بھی صورت یہ با ت ماننے کو تیار نہیں ہے اب جنا ب آپ آئے ہیں تو
برائے مہر بانی اِس کے مالک کو سمجھا ئیں کہ یہ چور نہیں ہے چور کو ئی اور
ہے اِسی دوران مالک بھی آگیا وہ شاندار لبا س پہنے مہنگی گا ڑی میں بڑے ہی
مغرور انداز میں آیا اور بو لا جنا ب آپ نے چیک کیا کہ چور یہی ہے نا تو
میں نے بتایا کہ ابھی میری ملا قات ہی نہیں ہو ئی پھر وہ مجھے لے کر اُس نو
کر کے پاس گیا نو کر ہمیں دیکھتے ہی اُٹھا اور مالک کے قدموں سے لپٹ گیا ما
لک نے ٹھو کر مار کر نو کرکو دور کیا اور کہا بتاؤ تم چور ہو کہ نہیں تو نو
کر خو ف سے لرزتا ہوا بو لا جی میں نے چوری کی ہے یہ بات مجھے ASIبتا چکا
تھا کہ جب بھی ہم بیچارے کو ما رتے ہیں تو یہ مان جا تا ہے ہم اِس کو لے کر
کئی جگہوں پر جا چکے ہیں لیکن نہ وہا ں کو ئی بند ہ ملتا ہے اور نہ ہی چوری
کا سامان ہم مختلف جگہوں پر جا جا کر تھک چکے ہیں اِسی دوران مالک ایک با ر
پھر جلال میں آگیا اور نو کر کی طرف انگلی کر کے بولا تم نے میری طاقت نہیں
دیکھی میں جو چاہوں کر سکتا ہوں تم مجھے نہیں جانتے میں تمہا رے اندر سے
سامان نکا لوں گا غصے سے مالک کے منہ سے آگ نکل رہی تھی وہ با ر بار ایک ہی
فقرہ بو ل رہا تھا کہ تم میری طا قت سے واقف نہیں ہو تم مجھے نہیں جانتے
میں تمہا ری زندگی جہنم بنا دوں گا مالک ضد میں تھا کہ میرے منہ سے یہ نکل
چکا ہے کہ یہ چور ہے تو اب میں یہ ثابت کر کے رہوں گا پھر مالک نے نوکر کو
ٹھوکروں سے مارنا شروع کر دیا مار کھا کھا کر نو کر نیم پاگل ہو چکا تھا
مالک اچھی طرح مار کر تھک کر جب بیٹھ گیا تو میں نے مالک کی آنکھوں میں غور
سے دیکھا اور کہا جنا ب یہ چور نہیں ہے اگر یہ چور ثابت ہو جا ئے تو میں ہر
سزا سہنے کو تیار ہوں میری یہ گستاخی مالک کو نا گوار گزری وہ غصے سے بو لا
ٹھیک ہے ایک دن میں ثا بت کروں گا کہ چور ہے مجھے اِس شخص سے وحشت اور نفرت
محسوس ہو رہی تھی میں اِس کو چھوڑ کر واپس آگیا آج کئی سالوں بعد یہ میرے
سامنے بیماری کے عالم میں بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا اب جب یہ بیمار
ہوا تو جن کے ساتھ ظلم کئے تھے ان سے معافیاں مانگتا پھر رہا تھا قاری صاحب
آج اِس کو مریض کے طو رپر میرے پاس لا ئے تھے اِس کی بے بسی دیکھ کر مجھے
اِس کا غرور اور نو کر پر ظلم یا د آگیا آج اِس کے چہرے پر سرخی کی جگہ
زردی اور جسم میں طا قت کی جگہ کمزوری تھی انسان کتنا پا گل بے عقل سے
جوانی اورطا قت میں یہ بھو ل جا تا ہے کہ یہ طا قت اورجوانی عارضی ہے ایک
دن دونوں نے چلے جانا ہے خدا ایسے لوگوں کی رسی دراز کر دیتا ہے اور پھر جب
ان کی سزا کا عمل شروع ہو تا ہے تو یہ زمین پر کیڑے مکو ڑوں کی طرح رینگتے
نظر آتے ہیں ۔ |