پہاڑوں کو کاٹ کر راستے بنانا ،دریاؤں کو پاٹنا ،پتھریلی
اور سخت زمین پر نہر کھودنا،خاردار جھاڑیوں کے درمیان سے گزرنا، بنجر زمین
کو قدموں تلے روندنے کی جرأت کرنا ،دھوپ سے چمکتے صحراء پر پایاب ہوجانا ،برفیلی
چٹانوں کا جگر چیر کر منزل مقصود پالینا،گلوں کے حصول میں خاروں سے الجھنا
اور دامن تار تار کر لینا ،دریا کی تہوں میں اتر کر جان داؤ پر لگانا اور
گہر تلاش کرنا ،پہاڑوں کی چوٹیوں کو عبور کر لینا ،یہ تمام کارنامے مشکل تر
ہیں ،اس کے باوجود بلا تامل یہ بات کہی جاسکتی ہے ،پہاڑ ،دریا،صحرا ،خاردار
جھاڑیاں،برفیلی چٹانیں ،دھوپ سے چمکتی سنہری ریت، ریاکار نہیں ہیں ،عیار و
مکار نہیں ہیں ،چال باز اور دھوکہ باز نہیں ہیں ،جھوٹ ان کی گھٹی میں نہیں
پڑھا ہوا ہے ،وہ تو دو دو چار کی طرح واضح اور چودہویں کے چمکتے چاند کی
مانند روشن ہیں ،دور سے ہی دیکھنے والا احساس کر لیتا ہے ،ان کی سختی ان کی
شدت کس درجہ اور اس راہ سے گذرنے میں اس کو کیا کیا خطرات لاحق ہوں گے ،
کون سا طریقہ اور حکمت عملی ان سے نبرد آزما ہونے میں کارگر ثابت ہوگا ،مگر
پہاڑ کبھی پلٹ کر وار نہیں کرتا، دریا کبھی حکمت عملی تبدیل نہیں کرتا ،خار
کبھی گلوں کی شکل اختیار کر کے دھوکہ نہیں دیتے ،اس لئے مشکلات کے باوجود
ان تمام معرکوں کا سر کرنا یک گونہ آسان ہے اور جو کرنا ہے ،آپ ہی کو کرنا
ہے ،اپنے طرز اور اپنے انداز پر ،یقیناًہمت و حوصلہ ہی ان راہوں پر آپ کا
ہمراہ اور رفیق سفر ہو تو معرکہ سر کرنا مشکل نہیں رہ جاتا ،لیکن اگر
مقابلہ انسانوں سے ہے ،جو وحشت و دہشت کے پتلے ہیں ،عیاری و مکاری چال بازی
جن کی رگوں میں خون کی مانند دوڑ رہی ہے،خون ریزی ،سفاکی و بربریت میں
درندوں سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں ، اور چال بازی میں لومڑی کے بھی استاد
ہیں ،دنیا کی نظر میں وطن پرست ، اور وطن کی آبرو کے رکھوالے، اور حقائق آپ
کی نگاہوں میں کچھ اور ہی ہیں ،سچائی کچھ اور ہے ،جس کو آپ ثابت کرنا چاہتے
ہیں ،تو مقابلہ انتہائی مشکل، سخت ،جان لیوا اور ہراساں کرنے والا ہوتا ہے
،اور قارئین کے لئے دلچسپی اور عبرت کا سامان ہوتا ہے ،اس طرح کی سخت ترین
جنگ کی روداد کا نام ہے ،gujrat files:anatomy of a cover up, ہے جس کو
رعنا ایوب نے انتہائی محنت ، جفاکشی، حوصلہ مندی،جرأت اور ہوشیاری سے انجام
دیا ،کتاب کے مطالعہ سے آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں اور قلب مصنفہ کی داد دئے
بغیر نہیں رہ سکتا، ایسا محسوس ہوتا کہ ہم رعنا کے ساتھ اس مشن کا حصہ ہیں
اور ان خطرات و وساوس کا احساس کررہے ہیں اور اس صحافی کے کارناموں کا
مشاہدہ کررہے ہیں ،26 سال کی عمر میں جب انسان کے قلب پر عشق و محبت کے
حسیں جذبات جلوہ فگن ہوتے ہیں ،ہاتھوں میں اختر شیرانی کا کلام یا شیکسپیئر
کے افسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور جذبات و احساسات کے دریا میں تلاطم برپا
ہوتا ہے ،اور اس نوعیت کے خیالات اس دریا میں غرق ہو جاتے ہیں، ان سے پار
پانا ہی کسی جنگ سے کم نہیں ہوتا ،اس عمر میں رعنا ایوب نے وطن کی محبت ماں
کی شفقت سب کچھ قربان کردیا اور نکل پڑی ایسی راہ پر جس میں ہر قدم پر موت
ان کو خوش آمدید کہ رہی تھی ،دہشت کے سائے ساون کے گھنے سیاہ بادلوں سے بھی
زیادہ خوف زدہ کرنے والے تھے ،ہر پل بھول بھلیاں میں چلنے کے مثل تھا ،مگر
رعنا ایوب سفر کی ان مشکلات کو حوصلوں کے بل پر کچلتی ہوئی آگے بڑھتی رہیں
تھیں اور حقائق کی تلاش میں لمحہ بھر غفلت و کوتاہی کاشکار نہیں ہوئیں،ان
کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 8مہینہ اپنی والدہ سے گفتگو بھی
نہیں کی ای میل کے ذریعہ خیریت دریافت کرنے کا سلسلہ رہا ، جو ایک کم عمر
دوشیزہ کے لئے انتہائی مشکل مرحلہ ہے اور رعنا ایوب تاریخ صحافت میں مثال
بن گئیں ۔
کتاب کو پڑھ کر ان کی صلاحیت اور حوصلہ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ،جس
طرح انہوں نے افسران سے ملاقات کی تدابیر کیں ،ان کے بھروسہ پر فتح حاصل کی
،اپنے جذبات پر قابو رکھا ،مایا کوڈنانی، گریش سنگھل ،جیسے لوگوں سے ان کی
ملاقات کا مطالعہ ، اس دعویٰ کی دلیل فراہم کردے گا، زندگی کے نیرنگ پردہ
پر انہوں نے متھیلی تیاگی کا کردار نبھانا شروع کیا اور امریکہ کی ایک فلم
ساز کا کردار انہوں نے بخوبی نبھایا اور بڑے بڑوں کو بھونچکا کردیا ،جو
نگاہیں ملک کی نگرانی میں بال کی کھال تک دیکھ لیتی ہیں ،وہ بھی انہیں
پہچان نہیں پائیں اور یہ رعنا ایوب کی فنی مہارت اور ان کے جذبہ صادق کو
عیاں کرنے کے لئے کافی ہے ۔اس کردار میں انہوں نے گجرات اور اے ٹی ایس کے
سرکردہ افسران اور بی جے پی کی عظیم رہبران سے گفتگو کی جس کا مطالعہ قلب
پر یہ احساس ثبت کرتا ہے کہ خدا نے انہیں کس درجہ حوصلہ ہمت جرأت اور ذہانت
عطا کی ہے ،اس محنت جد و جہد سے انہوں نے وہ حقائق عالم آشکارہ کئے جن پر
تاریخی بنیادیں رکھی جاسکتی ہے ،اور جسٹس بی ایل کرشنا نے کہا :’’یہی مناسب
وقت ہے کہ ریاستی مشینری اور آئینی عہدے دار اس قسم کہ فسادات کی وجوہات کی
تحقیقات کی گہری سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور مناسب اقدامات کئے جائیں تاکہ
دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ ‘‘بی این کرشنا کا یہ قول سارے منظر نامہ
کو عیاں کرتا ہے ،اور ان کے قلب پر یہ تاثر پیدا ہونا رعنا ایوب کی کامیابی
کی دلیل ہے اور ان کی محنتوں کا ثمرہ ہے ،جسٹس نے ان کے حوصلہ اور ہمت کی
بھی داد دی ،جس سے اس کتاب کو مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص خود کو روک
نہیں سکتا ہے، یقیناًوہ ان کی شخصیت اور حوصلہ کا قائل ہوجائے گا ،جس محنت
اور خوبی سے رعنا ایوب نے انڈر کور ہو کر ان تحقیقات کو جمع کیا اسی خوبی و
خوبصورتی سے ان کو صفحہ قرطاس کردیا اوران کا طرز بیاں اور مکالمہ نگاری
نہایت شاندار ہے ،کہیں کہیں تو افسانہ کا گماں ہونے لگتا ہے ،اور اس کی
چاشنی اور موضوع کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ جب قاری اس کی ابتدا کرتا ہے
،تو بے چین ہو اٹھتا ہے ،اور مکمل کئے بغیر اس کو قرار میسر نہیں آتا ،جو
رعنا ایوب کی کامیابی کی دلیل اور گجرات فساد میں مرنے والے کو سچا خراج
عقیدت ہے ۔خدا کرے ان مظلومین کو انصاف میسر آئے اور یہ تحقیقات اس میں
معاون ثابت ہوں اور مصنفہ آگے اسی طرح سماج میں چھپے انسانی لباس میں ملبوس
بھیڑیوں کی نشان دہی کرتی رہیں اور سماج کے رِستے زخموں پر مرہم رکھتی رہیں
۔اللہ تعالی اس کتاب کو ترقیات سے سرفراز فرمائے ،اور جو اس کا مقام ہے ،وہ
اس کو نصیب ہو ،اور تعصب کا عینک ٹوٹ جائے، تمام افراد اس کی طرف راغب ہوں
ان ہی آرزوؤں اور تمناؤں کے ساتھ ،ہم ڈاکٹر ضیاء اللہ ندوی کے بھی شکر گذار
ہیں ،جنہوں نے اس کتاب کو اردو کا لباس پہنایا اور اتنا خوبرو کردیا کہ
زبان اور قلب داد و تحسین دیتے نہیں تھکتے ۔مضامین ڈاٹ کام کی پوری ٹیم اور
خالد سیف اللہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں ۔ انہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں جو
بھی قربانیاں دیں ،اللہ تعالیٰ اس کا اجر عطا فرمائے۔ رعنا ایوب نے آنے
والی نسلوں کے لئے نقش پا چھوڑے ہیں ،جن پر چل کر وہ اس فن کی بلندیاں طے
کرسکتے ہیں اور جمہوریت کے محافظ و پاسبان ثابت ہوسکتے ہیں اور رعنا ایوب
گویہ کہ ظالم کو بزبان حال کہ رہی ہیں
اسے ہے سطوت شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
|