تبصر ہ نگار:ڈاکٹر غلام شبیررانا
بر صغیر میں نو آبادیاتی دور میں عالمی سامراج کے خلاف رائے عامہ ہموار
کرنے میں جن ممتاز علمی و ادبی مجلات نے گراں قدر خدمات انجام دیں ،ان میں
ادبی مجلہ ’’نیرنگِ خیال ‘‘بھی شامل ہے ۔اس رجحان ساز ادبی مجلے نے
سال۱۹۲۴میں لاہور سے علم کی روشنی پھیلانے کے سفر کا آغاز کیا۔پس نو
آبادیاتی دور میں بھی’’ نیرنگ خیال‘‘ کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ان دنوں
ماہ نامہ’’ نیرنگ خیال‘‘ نامور ادیب سلطان رشک کی ادارت میں راول پنڈی سے
شائع ہو رہا ہے ۔اس ادبی مجلے نے ہر دور میں حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے
اور قارئین کو ہوائے جو رو ستم کے مسموم ماحول میں بھی حریت ِ ضمیر سے جینے
کی راہ دکھائی ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں سامراجی طاقتوں کے جو رو ستم کے
بارے میں حقیقی شعور و آ گہی پروان چڑھانے میں اس مجلے نے تاریخی کردار ادا
کیا ۔آزادی کے بعد اس مجلے نے پس نو آبادیاتی فکر ،مشرقی تہذیب و ثقافت،
آزادیٔ اظہار اور سلطانی ٔ جمہور کے لیے مقدور بھر جد وجہد کی ۔ نیرنگ خیال
کے قارئین اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ بادی النظر میں تو نو آبادیاتی دور
اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے مگر یورپ کی استعماری طاقتوں نے اپنی سابقہ نو
آبادیات میں سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے اور اس خطے کے عوام کی زندگی کی
تما م رُتیں بے ثمر کر دی گئی ہیں۔اس مجلے کے مشمولات بدلتے ہوئے حالات کے
تناظر میں فکر و خیال کے متعدد نئے دریچے وا کرتے ہیں۔ ان دنوں حکیم محمد
یوسف حسن کی یاد میں شائع ہونے والے اس تاریخی ادبی مجلے کے سر پرست حسین
طارق ہیں۔افکارِ تازہ کی مشعل تھامے سفاک ظلمتوں کو کافور کرتے ہوئے جہانِ
تازہ کی جانب سرگرمِ سفر رہنے والے اس مجلے نے گزشتہ ترانوے برس (۹۳)میں
قارئین میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے کی جو مساعی کی ہیں وہ تاریخ کے
اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔حال ہی میں ’’نیرنگ ِ خیال ‘‘کا
شمارہ ۲،جلد ۹۳ بابت ماہ فروری ۲۰۱۷شائع ہوا ہے ۔اس شمارے کے مشمولات بھی
حسب معمول مجلس ادارت کے ذوق سلیم اور حسن انتخاب کی عمدہ مثال ہیں ۔چونسٹھ
صفحات پر مشتل اس مجلے میں سات مضامین،تین افسانے،آٹھ شعرا کا کلام
اورقارئین کے مکاتیب شامل ہیں۔مضمون نگاروں میں جیلانی کامران (۱۹۲۶۔۲۰۰۳)،ڈاکٹر
غلام شبیررانا ،خورشید بیگ میلسوی،عرفان جاوید ،فاروق بلوچ،عماد قاصراور
ڈاکٹر سکندر حیات میکن شامل ہیں ۔تما م مضمون نگاروں نے اپنے اپنے موضوعات
پر خوب دادِ تحقیق دی ہے ۔نثری نظم کی تکنیک کے حوالے سے پروفیسر جیلانی
کامران کا مضمون چشم کشا حقائق کا امین ہے ۔فکشن کے حصے میں نجیب عمر ،غلام
ابن سلطان( ڈاکٹر غلام شبیررانا کا قلمی نام) اور منیزہ شمیم کی تحریروں کا
کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔شاعری کے حصے میں سید ضمیر جعفری ،جان
کاشمیری،غالب عرفان،عشرت رومانی ،مرزا عاصی اختر ،انجم جاوید ،جاوید صدیق
بھٹی اور سلطان رشک کا کلام شامل ہے ۔آخر میں گزشتہ شمارے میں شامل تحریروں
کے بارے میں آصف ثاقب (ایبٹ آباد )اور غالب عرفان کے مکاتیب بہت اہم ہیں ۔
مجموعی اعتبار سے ’’نیرنگ ِ خیال ‘‘ کا یہ شمارہ قابل مطالعہ مواد سے لبریز
ہے ۔مجلس ِ ادارت کی محنت ،لگن ،فرض شناسی اور مستعدی لائق صد رشک و تحسین
ہے ۔اسی جذبے نے اس مجلے کو ایک مستحکم روایت کی صور ت عطا کی ہے ۔مجھے
یقین ہے علم و ادب کا یہ زمزم سد ارواں دواں رہے گااور اس کی جو لانیوں سے
کِشتِ جاں سیراب ہوتی رہے گی۔ |