سیاست کے بار ے میں ہمارا شعور دنیا کی ہر قوم سے مختلف
ہے۔ یہی حال مذہبی مسالک سے وابستگی کا ہے ۔ ایک بار میں ایک لوکل ٹی وی کا
ایک پروگرام دیکھ رہا تھا ۔ ٹی اینکر پبلک سے رائے عامہ سے متعلق سوال کر
رہا تھا ۔
اینکر نے ایک دکاندار سے سوال کیا ۔اس وقت کرپٹ ترین آدمی کون ہے ؟ اس نے
اس وقت کے حکمران کا نام لیا ۔ اینکر نے پھر سوال کیا ۔ آئندہ الیکشن میں
کس کو ووٹ دو گے ۔ دکاندار نے اسی کرپٹ حاکم کا نام ہی لیا ۔ تو دکاندار کا
جواب سن کر اینکر بھی حیران ہوگیا ۔پھر سوال کیا آپ نے کہا وہ کرپٹ ہے ۔
دکاندار بولا جی میرا لیڈر تو وہی ہے ۔ جہاں سیاسی شعور کا یہ حال ہو اس
ملک کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے ۔کہ ہم سگریٹ کی ڈبی خریدتے
ہیں ۔ اس پر لکھی وارننگ کوبھی پڑھتے ہیں ۔سگریٹ نوشی مضرِصحت ہے یہ کینسر
کا موجب ہوسکتی ہے ۔ مگر پھر بھی ہم سگریٹ نوشی کرتےہیں ۔ یعنی پیسے خرچ
کرکے موت خریدتے ہیں ۔ عین اسی طرح مسالک کو لے لیں ۔ ایک پڑھا لکھا شخص
اپنے مسلک کی کتابیں پڑھ کر خود کو راست پہ سمجھتا ہے ۔ خود تحقیق کر
کےاپنا قبلہ درست کرنے کی سوچ نہیں رکھتا ۔ بس مدرسہ کے مولوی نے جو کہا
وہی سچ ہے ۔ مولوی بیچارہ واجبی تعلیم کے ساتھ جو کچھ اس کو مدرسہ نے
سیکھایا ۔ وہ آگےبیان کر دیتا ہے ۔اس مولوی کا بیان سننے والے بھی صم بکم
بے سوچےسمجھے اندھی تقلید کرتے ہیں ۔ جبکہ جاننا چاہیے ۔ ہر داڑھی والا
مولوی نہیں ہوتا ۔ ہر مولوی عالم نہیں ہوتا ۔ ہر عالم متقی نہیں ہوتا ۔مولوی
صاحب نے مدرسہ میں سیکھا ہاتھ ناف سے اوپر باندھیں ۔ اب مولوی صاحب کی نظر
میں ہاتھ سینے پر باندھنے والےکافر ہیں ۔خودمولوی صاحب کو نہیں معلوم کافر
کیا ہوتا ہے ۔ کافر جو اللہ کو نہ مانیں۔ کلمہ سے انکاری ہو ۔ جبکہ کوئی
بھی مسلک ان سے انکاری نہیں ۔تو وہ کافر کیسے ہوگئے ۔فروہی مسائل ہیں ۔ جن
پہ اختلاف ہے ۔ اس کی بھی ایک وجہ ہے ۔ ہمارے ہاں آئمہ اربعہ ہیں ۔کوئی
حنفی ہے ۔ کوئی شافی ہے ۔ کوئی مالکی ہے ۔ کوئی حنبلی ہے ۔ سب نے نبیﷺ کی
سنتیں بیان کیں ہیں ۔ بحر حال بحث طوالت کا شکار نہ ہو ، قصہ مختصر ہم میں
سوچنے سمجھنے کی کمی ہے ۔ برداشت کی کمی ہے ۔ مساجد مسلکوں میں بٹ گئیں ۔اور
ہم تفرقوں کا شکار ہوگئے ۔ پھر موضوع کی طرف آتا ہوں ۔ دراصل ہم شتر بے
مہار 68 سال سے سیاست کی چراگاہوں میں پھر رہے ہیں ۔ نہ سیاست اچھی ۔ نہ
سیاست دان اچھے ۔ نہ عوام میں شعورہے ۔ جودوچار کتابیں پڑھ گئے ۔ وہ بھی
فکری غلام ہیں ۔ پشت در پشت ۔ وڈیروں کے۔چند خاندانوں کے ۔ ہم شیر ہیں مگر
سرکس کےجس کو ایک پتلی سےچابک سے جو کہا جائے وہی کرتا ہے ۔ اب وہ جنگل کا
بادشاہ نہیں رہا ۔ جس کی دھاڑ سے جنگل لرز جاتا تھا ۔ پرندے سہم جاتے تھے ۔
افسوس تو یہ ہے ۔ وہ چند بڑے خاندان بھی آزاد نہیں ۔وہ بھی کسی کے غلام ہیں
۔اگر غلام نہ ہوتے تو ریمنڈیوس ۔ایمل کانسی ۔ ڈاکٹر عافیہ کو تھالی میں سجا
کے نہ دیا جاتا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو جیل کی سلاخیں نہ دیکھنا پڑتی ۔ جس
نے ملک کو جوہری ہتھیار بنانے میں مدد کی ۔ ملک کوجوہری لیبارٹری دی ۔
غلامنہ ہوتے تو ملک پرآزادانہ ڈراؤن حملے نہ ہوتے ۔ کسی میں جرات ہی نہیں ۔
کوئی آزاد ہی نہیں ۔ درحقیقت ہم نے آزادی دیکھی ہی نہیں ۔ سنا ضرور ہے کسی
شئے کا نام ہے ۔جب دیکھی ہی نہیں ۔ اس کی اہمیت کو کیا جانیں ۔ چند خاندان
لٹیروں کی طرح آتے ہیں ۔رہتے بھی باہر کاروبار بھی باہر ۔ کبڈی کے کھلاڑی
کی طرح ہاتھ لگا کر دوسرے کو بار ی دے جاتے ہیں ۔ یہ ہے سیاست ہماری اس کے
سوا کچھ نہیں ۔
ہم سب غلام ہیں ۔ ہاں ہاں غلام ہیں جو بچے ابھی اس دنیا میں بھی نہیں آئے
وہ بھی غلام ہیں ۔ ورلڈ بنک کے مقروض ۔ ہم کیا سر اٹھائیں گے ۔ مقروض قومیں
غلام ہوتی ہیں ۔ ہم وہی کرنے پر مجبور ہیں جو ہمارے آقاؤں کی رضا ہوگی |