ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ
تعلقات میں گزشتہ دور جیسی گرمجوشی نہیں رہی ہے۔ ٹرمپ کے خیال میں امریکہ
ایک سپر پاور ہے اور اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ پاکستان جیسے اس کی نظر
میں چھوٹے ملک کے بارے میں کوئی تخصیص کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرے
یا اس پر کوئی بیان دے۔وہ بڑے عالمی معاملات میں چھوٹے ملکوں کو خاطر میں
لانے کے خلاف ہے۔مگر عالمی سیاست کے اپنے داؤ پیچ ہوتے ہیں یہاں چھوٹا بڑا
اور طاقتور اور کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ علاقائی یا جغرافیائی حیثیت کو بھی
مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔
ٹرمپ نے صدر بننے کے فوری بعد سے اپنی تمام تر توجہ ملک کے اندرونی معاملات
پر مرکوز رکھی ہے ۔بیرونی اور عالمی معاملات پر امریکی صدر نے ٹھوس اور
واضح حکمتِ عملی دنیا پر آشکار نہیں کی۔امریکی صدر کا خیال تھا کہ وہ اپنی
سوچ اور نظریے کے مطابق امریکہ کی خارجہ پالیسی کو ڈھال لیں گے مگر پینٹا
گون اور سی آئی اے نے ایسا ہونے نہیں دیا۔امریکی صدر اور امریکی مقتدرہ کے
درمیان سوچ اور تعلقات میں تناؤ بھی پایا جاتا ہے۔اسی تناؤ نے دیگر عالمی
رہنماؤ ں کو امریکہ سے دور کر دیا ہے۔ اب تک کسی قابلِ ذکر عالمی رہنماء نے
امریکہ کا دورہ نہیں کیا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلامیرکل دو بار اپنا طے شدہ
امریکی دورہ منسوخ کر چکی ہیں۔دیگر رہنما ء بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات
استوار کرنے پر اب کافی احتیاط برت رہے ہیں۔چین کے صدر شی جنگ پنگ ا پریل
میں امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں اس دورے کو یقینی اور کامیاب بنانے کے لیے
امریکہ کو کافی محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ اٹھارہ مارچ کو امریکی وزیر خا رجہ
ریکس ٹلرسن بیجنگ پہنچے ہیں۔ انہوں نے چینی صدر سے ملاقات بھی کی ہے۔اس
ملاقات میں ہونے والی باتوں سے چین اور امریکہ کے درمیان پائے جانے والے
تناؤ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ چین نے
شمالی کو ریا کو نئے میزائل تجربات سے روکنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال
نہیں کیا ہے۔امریکی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ جنوبی کوریا کے دورے کے موقع
پریہ واضح کیا تھا کہ شمالی کو ریا کے خلاف عسکری کاروائی کو امکان موجود
ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ شمالی کو ریا کو کنٹرول کرنے کے
لیے چینی کوششیں ناکافی ہیں۔امریکہ چین کو شمالی کو ریا کا مضبوط ترین
اتحادی اور حلیف تصور کرتا ہے۔دوسری طرف چین کو بھی امریکہ سے اس امر کی
شکایت ہے کہ اس نے جنوبی کو ریا میں جدید تھاڈ (THAD)میزائل کی تنصیب کا
فیصلہ کیا ہے۔اس کورین معاملے پر چین اور امریکہ میں تناؤ ایشیا میں امن کے
لیے مزید خطرات پیدا کر سکتا ہے۔اگرچہ کہ چینی صدر نے تمام معاملات مذاکرات
کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے اور اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان کے
دورہِ امریکہ کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی لیکن اگر
ٹرمپ نے اپنے مزاج کے مطابق کوئی تیزی دیکھانے کی کوشش کی تو یہ دورہ دونوں
ملکوں کے درمیان مزید دوریاں بھی پیدا کر سکتا ہے جس سے اس خطے میں پاکستان
کی اہمیت ایک بار پھر بڑھ جائے گی۔تنازعات میں جیت اسی کی ہو گی جس کے ساتھ
پاکستان کھڑا ہو گا۔ٹرمپ حکومت جو پاکستان کو نظر انداز کیے ہوئے تھی اس کے
لیے اب پاکستان سے نگائیں چُرانا ممکن نہیں ہے۔افغانستان میں اس وقت دس
ہزار امریکی فوجی ہیں۔ امریکی وزارتِ دفاع کا خیال ہے کہ امریکہ کو ابھی
مزید کئی سال نہ صرف یہ فوجی افغانستان میں رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کی
تعداد میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہے۔امریکہ کا افغانستان میں پاکستان کے
تعاون کے بغیر رہنا ممکن نہیں ہے۔ان دنوں جب پاکستان نے افغان باڈر بند کیا
تو امریکی فوج کو جانے والی تمام کمک بند ہوگئی۔امریکہ نے فوری طور پر
پاکستان کا معطل شدہ کولیشن فنڈ بحال کر دیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی
دو دن کے لیے یہ سرحد کھول دی۔دوسری طرف چین بھی پاکستان کو اپنا بنانے کے
کے لیے دل کھول کر اس پر سرمایہ خرچ کر رہا ہے۔وہ پاکستان میں سی پیک سمیت
کئی منصوبے جلد ازجلد مکمل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ یہاں امریکی اثر کو کم سے
کم کر سکے۔
پاکستانیوں کو اس منظر نامے سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ماضی میں بھی اس
نے ایسی صورتِ حال سے فائدہ کم اٹھایا ہے اور اپنے لیے دشمن زیادہ پیدا کیے
ہیں۔ روس کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا ساتھ دے چکا ہے مگر ملک کے
اندر داخل ہونے والی دہشت گردی سے اب تک لڑ رہا ہے۔ پاکستان کو عسکری
تنازعات میں ملنے والی امداد عسکری شعبے میں ہی خرچ ہو جاتی ہے جبکہ
پاکستان کے دو بڑے دشمن غربت اور جہالت ہیں اسے ان کے خلاف لڑنا ہو
گا۔پاکستان جب تک ان دو دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کرتا وہ کبھی بھی اپنی
آزاد خارجہ پالیسی ترتیب نہیں دے سکتا ۔دیگر ملک اسے چند پیسوں کے عوض اپنے
مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے گے۔پاکستانی سر زمین دوسری قوموں کا میدانِ
جنگ بنتی رہے گی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو یہ تجربہ پھر سے نہیں دھرانا
چاہیے اور خود کو امریکہ چین تنازعے سے الگ رکھ کر اپنے مفادات کے تحت
خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے بصورتِ دیگر پاکستانی قوم برسوں اس کی قیمت
ادا کرتی رہے گی۔ |