پاکستان میں ابیٹ آباد کے قریب ٹھنڈیانی کا علاقہ ہے جوکہ
بہت خوبصورت اور دلکش ہے اس علاقہ میں جرمنی کی ایک فلاحی تنظیم نے چھوٹا
سا ہسپتال بنایا تھا جس میں مقامی اور اردگرد کے علاقے کے لوگوں کو مفت
علاج اور ادویات دی جاتی تھی اس ہسپتال میں چند ایک پاکستانی بھی خدمات سر
انجام دے رہے تھے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ 9/11کا واقع ہو گیا امریکہ نے
افغانستان پر حملہ کر دیا یوں کافی تعداد میں طالبان پاکستان میں داخل
ہوگئے اس کے بعد جرمن تنظیم نے پاکستان سے واپسی کا فیصلہ کر لیا انہوں نے
واپسی سے قبل اپنے تمام عملے کی الوداعی دعوت کی اور سب کی خدمات کو
سراہا۔عملے میں ایک پاکستانی ملازم بوٹا بھی تھا۔ جرمن تنظیم کی اعلیٰ
قیادت نے فیصلہ کیا کہ بوٹے کیلئے کچھ کرنا چاہیے اس پر انہوں نے بوٹے کو
اپنے ساتھ جانے کی پیشکش کی مگر بوٹے نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور اک
التجاء کی وہ یہ کہ آپ میرے بیٹے کو اپنے ساتھ جرمنی لے جائیں اس پر جرمن
قیادت نے پوچھا کہ تمھارے بیٹے نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے بوٹے نے جواب دیا
کہ وہ ان پڑھ ہے تب جرمن قیادت نے پوچھا بوٹے تمھا رے بیٹے کو کوئی ہنر آتا
ہے اس نے جواب دیا کہ نہیں جرمن قیادت نے بوٹے سے پوچھا کہ پھر وہ کیا کرتا
ہے اس نے جواب دیا کہ میرا پچیس برس کا جوان بیٹا بھنیسوں کو چارہ ڈالتا ہے
انکی دیکھ بھا ل کرتا ہے انکا دودھ دھوتا ہے اور دودھ کو بیچتا ہے۔جرمن
قیادت نے بوٹے سے وعدہ کیا کہ وہ جلد اسکے بیٹے کے لیے کچھ انتظام کریں گے
تمام اعلیٰ قیادت نے بوٹے سے اس کے بیٹے کی دستاویزات یعنی قومی شناختی
کارڈ کی کاپی، پاسپورٹ کی کاپی لے لی کچھ عرصے کے بعد بوٹے کو جرمنی سے ایک
خط موصول ہواجس میں بوٹے کے بیٹے کو جرمنی آنے کی د عوت اور نوکری کی آفر
تھی۔بوٹا اور اس کے تمام گھر والے بہت خوش تھے بوٹے کے بیٹے نے جلدی جلدی
اپنی تمام تیار یاں مکمل کی اور آخر وہ وقت بھی آگیا جب بوٹے کا بیٹا جرمنی
پہنچ گیا۔وہ اپنے والد کے سابقہ اور اپنے موجودہ مالک کے پاس گیا اس کو
سلام کیا اور اپنے والد کا سلام دیا۔مالک اسکو بڑی گرم جوشی سے ملا اور
اپنے اک دوسرے ملازم سے کہا کہ اس کو پہلے دو دنوں میں جرمنی کی سیرکراوئیں
اور اس کے بعدجانوروں کے تبیلے میں لے جائیں اور اس کو تمام بھینسوں اور
گائیں کی خوراک کی مقدار ،انکے رہن سہن،انکی صفائی اور انکی مکمل دیکھ بھال
کی ٹرنینگ دیں۔کوئی دو ہفتے کی ٹرنینگ کے بعد بوٹے کے بیٹے نے تبیلے میں
باقاعدہ طور پر اپنی ڈیوٹی دینا شروع کر دی وہ بڑی لگن سے کام کرتا اور
مقررہ وقت پر، مقرر ہ پیمانہ کے مطابق جانوروں کو چارہ ڈالتا انکو پانی
دیتا اور وقت پر وہ دودھ دھوتا۔جرمن مالک اسکی کارگردی سے مطئمن ہوا۔تقریبا
ایک ماہ بعد بوٹے کے بیٹے اپنے مالک کے گھر پہلے سے زیادہ مقدار میں دودھ
کی سپلائی دینا شروع کردی اور جیسے ہی وہ دودھ گھر والوں نے استعمال کیا تو
مالک اور اسکے باقی خاندان والے بیمار ہونا شروع ہو گئے۔انہوں نے ڈاکٹر سے
معائنہ کروایا تو پتہ چلاکہ ان سبکو وائرل انفکشین ہو گئی ہے جس پر مالک نے
غور کیا کہ آخر یہ انفیکشن ہوئی کیسے تو پتہ چلا کہ گھر میں جو دودھ آ رہا
ہے وہ پہلے سے زیادہ مقدار میں ہے پر کوالٹی میں غیر معیاری ہے تب مالک نے
بوٹے کے بیٹے کو طلب کیا اور اس پوچھا کہ کیا تم نے جانوروں کے چارے کی
مقدار کو بڑھایا ہے اس نے جواب دیا نہیں تب مالک نے حیرانگی سے پوچھا تو
پھر دودھ کی مقدار کیسے بڑھ گئی اس نے جواب دیا کہ دودھ خالص ہوتا ہے تو
میں نے سوچا کہ دودھ میں تھوڑا پانی ڈالنے سے مقدار بھی زیادہ ہو جائے گی
اور آپ بھی میری کارگردگی سے اور زیادہ خوش ہو جائیں گے کیونکہ پاکستان میں
تو میں ایسا ہی کرتا تھا۔ جرمن مالک انتہائی غصے میں آگیا اور اسکو فوراٰٰ
ملازمت سے فارغ کر دیا۔ اور جرمنی کی اعلیٰ ملکی قیادت سے کہہ کرجرمنی میں
تا حیات داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ اس واقعہ کومدنظر رکھتے ہوئے بات کریں گے
پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی جوکہ جولائی 1956کراچی میں پیداہوا اور
پھر اپنے امریکی تعلقات کی بنا پر 2008میں پاکستان کی طرف سے امریکی سفیر
بن گیا تنخواہ اور سہولیات پاکستان کی انجوائے کرتا رہا مگر وفاداریاں
امریکہ سے نبھاتا رہا پاکستان میں جاسوسوں کو ویزے اور خفیہ راز بھی
دیتارہا ۔اور پاکستان کے خلاف میمو سکینڈل بھی لکھا یہ تمام تر واقعات
تقریباََ پاکستان میں دفن ہوگئے تھے کہ حال ہی میں امریکہ میں سابق سفیر
حسین حقانی نے امریکہ میں اک مضمون تحریر کیا جس میں بیان کیاکہ سفیر اکثر
سربراہ مملکت کی ٹیم سے ملاقاتیں کرتے ہیںیہ بات اس نے روسی سفیر کی ٹرمپ
کی ٹیم سے ملاقات کی مناسبت سے کی اس مضمون میں اپنا حوالہ دیتے ہو ئے
انکشاف کیا کہ میں نے سابقہ امریکی صدر اوبامہ کے الیکشن کے دوران ایسے
لوگوں سے تعلقات استوار کئے جو کہ بعد میں اوبامہ کی نیشنل سکیورٹی کا حصہ
بنے مزید یہ کہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے آپریشن میں جو معلومات تھی سی
آئی اے کو پاکستان کی سو یلین قیادت کی اجازت سے فراہم کی تھی اور یہی وجہ
تھی کہ 2مئی 2011کو امریکہ نے آپریشن کرکے باآسانی اپنے حدف کو حاصل کیا
اور واپس چلے گئے ۔ حسین حقانی کے خلاف پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ہی
عدالتی کمیشن بنا اور اس کمیشن کی رپورٹ جون 2012 میں پیش کی گئی اس رپورٹ
کے مطابق حسین حقانی نے پاکستان کی تمام خفیہ رپورٹس امریکہ کو فراہم کی
،پاکستان کی حدود میں غیر ملکی فوجی آپریشن کے متعلق ملکی فوجی اور سیاسی
قیادت کو اطلاع نہیں کی لہٰذا حسین حقانی کو پاکستان کے ساتھ غداری کے
مقدمے آرٹیکل چھ کے تحت سزا ملنی چاہیے تھی مگر امریکی پشت پناہی اور
پاکستان کی چند اہم شخصیات کی بناء پر ،ای سی ایل میں نام ہونے کے باوجود
حسین حقانی پاکستان سے فرار ہو گیا ۔ایک جرمن ہے جہاں صرف ایک ہی خاندان
میں معمولی سی وائرل انفکیشن پر ایک شخص پر تا حیات داخلے پر پابندی عائدہو
جاتی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں چند ایک ناسور ہیں جو غداروں کی پشت
پناہی کرکے انکے حوصلے بڑھاتے ہیں اور ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے
ہیں ۔میری اس تحریر کی وساطت سے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے التماس
ہے کہ میمو گیٹ کیس کو ری اوپن کریں کیونکہ یہ پاکستان کے وقار کا سوال ہے
اور حسین حقانی کو انڑپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان میں سزا دی جائے
اور ساتھ میں ان غداروں کو بھی سزا دیں جنہوں نے اسکو فرار کروایاکیونکہ یہ
غدار کھاتے تواس ملک کا ہے مگر وفاداریاں غیروں سے نبھاتے ہیں اس لئے
پاکستان میں ایسے غداروں کی کوئی گجائش نہیں ہے۔ |