امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے واشنگٹن
پوسٹ میں شایع ہونے والے حالیہ کالم نے پاکستان کے سیاسی ماحول کو ایک بار
پھر گرما دیا اور سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی صفوں میں
کھلبلی مچادی ہے۔ حسین حقانی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونے
والے اپنے آرٹیکل میں اس دور کے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا
گیلانی پر الزامات لگائے ہیں۔ اپنے مضمون میں سابق سفیر حسین حقانی نے یہ
دعویٰ کیا کہ بطور سفیر تعیناتی کے دوران امریکی عہدیداروں نے ان سے
پاکستان میں انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے میں مدد مانگی تھی اور
انہوں نے جب اس درخواست سے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو آگاہ کیا تو یہ
درخواست منظور کر لی گئی۔ لہٰذا اس وقت کی حکومت کی جازت سے پاکستان میں سی
آئی اے اہلکاروں کے لیے ویزے دیے گئے، جبکہ اس دور کے صدر آصف زرداری اور
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی تھے۔ کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں ان
انکشافات نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو چراغ پا کر دیا ہے، جس کو یہ پہلے ہی
شک تھا کہ حسین حقانی ریاستی مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔ کچھ سیاسی
مبصرین کا خیال ہے کہ ان انکشافات سے پی پی پی کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں
گی، جبکہ حالات و واقعات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ پی پی پی کی
قیادت کافی حد تک پریشان دکھائی دے رہی ہے، لیکن پارٹی کے رہنما اس بات سے
انکار کر رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ان انکشافات سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں
پڑتا۔ پیپلز پارٹی نے ہی شمسی ایئر بیس خالی کرایا اور ایک فوجی چیک پوسٹ
پر حملے کے بعد نیٹو کی سپلائی بند کی۔پی پی پی کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے
کہ آصف زرداری نے امریکا کے دورے کے موقع پر حسین حقانی سے ملاقات نہیں کی،
جس کی وجہ سے وہ ناراض ہے اور کچھ عرصے سے سابق صدر اور پارٹی کے خلاف لکھ
رہا ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے متعدد رہنما حسین حقانی کے معاملے پر اپنے
خیالات کا اظہار کرچکے ہیں، لیکن حسین حقانی کے مضمون پر اب تک پیپلز پارٹی
کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کوئی
بیان سامنے نہیں آیا جو تشویش کی بات ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حسین حقانی کے معاملے نے پاکستان
پیپلزپارٹی کو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے انکشافات کے تناظر میں
حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک نئی ’’ جنگ‘‘ کا آغاز ہو گیا ہے۔ وفاقی
حکومت بھی حسین حقانی کی پیپلز پارٹی سے وابستگی کے حوالے سے آڑے ہاتھوں لے
رہی ہے۔ پیپلزپارٹی پچھلے کئی ماہ سے مسلم لیگ(ن) کو شدید تنقید کا نشانہ
بنا رہی تھی، لیکن پہلی بار مسلم لیگ(ن) کو پیپلزپارٹی کو رگیدنے کا موقع
مل گیا ہے اور یہ پہلا موقع ہے پیپلز پارٹی کھلم کھلا حسین حقانی کو’’ غدار
‘‘ قرار دے رہی ہے اور حسین حقانی سے لا تعلقی کا اظہار کر رہی ہے، جبکہ
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نہ صرف سابق سفیر کو
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے الگ کرنے کا اعلان کیا، بلکہ حسین حقانی
کے حالیہ مضمون کو بھی ’’غدارانہ فعل‘‘ بھی قرار دیا۔ خورشید شاہ کے مطابق
حسین حقانی کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب بین الاقوامی سطح
پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ
حسین حقانی نے یہ کالم نئی امریکی انتظامیہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لکھا
اور اسی لیے ایسے شخص کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں واشنگٹن میں اسلام آباد
کے سابق سفیر حسین حقانی کے اْس دعوے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن
بنانے کا مطالبہ کیا ہے کہ ان کے امریکی انتظامیہ کے ساتھ قریبی روابط کے
سبب امریکا انتہائی مطلوب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن دلان کو نشانہ بنانے
میں کامیاب ہوا۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عارف علوی اور متحدہ
قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے شیخ صلاح الدین نے حسین حقانی کے حالیہ بیان
پر گہری تشویش کا اظہار کیا،ساتھ ہی ایم کیو ایم رکن اسمبلی نے یہ مطالبہ
بھی کیا کہ ایبٹ آباد انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو منظرعام پر لایا جائے،
تاکہ قوم حقائق جان سکے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی
کے رہنما خورشید شاہ نے بھی خواجہ آصف کے مطالبے کی تائید کی ہے، لیکن
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ جوں جوں
زور پکڑتا جارہا ہے، پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی تشویش میں اضافہ ہورہا
ہے اورپی پی پی کی قیادت نہیں چاہتی کہ اس معاملے کی تحقیقات ہوں، کیونکہ
پی پی قیادت کو خدشہ ہے کہ اگر تحقیقاتی کمیشن کا معاملہ حقیقت کا روپ دھار
گیا تو پھر سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کے لیے سیاسی مشکلات
بڑھ سکتی ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک انہیں ملک
چھوڑنے کی اجازت نہ دی جائے، کیونکہمسلم لیگ ن کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے
سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے جس میں موقف اختیار کیا ہے کہ حسین حقانی نے
اپنے بیان میں ایبٹ آباد آپریشن کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا
اعتراف کیا ہے، اس عمل میں آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی بھی شامل
تھے۔ تینوں پر کورٹ مارشل کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور سپریم کورٹ حسین
حقانی کو بیرون ملک سے لانے کا حکم دے اور آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی
اور حسین حقانی کے نام ای سی ایل میں شامل کیے جائیں،جبکہ حقانی لیکس کے
ایک کردار پیپلزپارٹی کے رہنما سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے
کہ اس سارے معاملے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سابق وزیر داخلہ رحمن
ملک نے بھی حسین حقانی کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس
معاملے کو جان بوجھ کر اٹھایا جار ہا ہے، اس سوال کا جواب حکومت ہی بہتر
انداز میں دے سکتی ہے کہ آخر انہوں نے اس معاملے کو کیوں اٹھایا اور اگر اس
کو اٹھا ہی لیا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔
بعض حلقے سابق وزیر داخلہ کے بیان کی تائید کر رہے ہیں کہ اس معاملے کو
پاناما لیکس کے معاملے کو دبانے کے لیے اٹھایا جارہا ہے۔
بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ میمو گیٹ اسکینڈل سے سب واقف ہیں، جس
میں پاک فوج کے حوالے سے حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے
پراسرار میمو بھیجا تھا۔ اسی سکینڈل کی وجہ سے انہیں سفارتکاری سے چھٹی
کرادی گئی تھی۔ ان انکشافات کے بعد فوج کے ان دعووں کو مزید تقویت ملی ہے،
جس میں کہا گیا تھا کہ حسین حقانی ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہا ہے۔ یہاں
یہ سوال اْٹھتا ہے کہ اگر پاکستان کا سفیر امریکا میں یہ گل کھلاتا رہا ہے
تو اْس کے نیچے کا عملہ کیا کرتا رہا ہوگا؟ اگر اعلیٰ ترین عہدے پر فائز
شخص غدار ہے تو وہاں موجود دیگر عملے کی صورتحال کیا ہے؟ کیا اب یہ ضرورت
نہیں کہ بیوروکریسی پر شکنجہ کسا جائے جو کہ تمام ہی مسائل کی جڑ معلوم
ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حسین حقانی نے جو بھی کیا
ہے، اْس نے یہ کام اکیلے نہیں کیا، بلکہ امریکا میں رہتے ہوئے بھی پاکستان
میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے اْس نے یہ تمام کام کیے ہیں۔ان حالات میں
پاکستان کے ساتھ غداری کے مرتکب افراد کے خلاف آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے۔حسین
حقانی کے آرٹیکل سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ایبٹ آباد سانحے کی تحقیقات کے
نام پر قوم کو ابہام اور شک میں رکھا گیا ہے اور اس معاملے کے ذمہ دار اس
وقت کی حکومت کی مرکزی شخصیات تھیں، جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ معاملہ
کسی المیے سے کم نہیں، کیونکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی
ہوئی اور یہ منفی تاثر قائم ہوا کہ پاکستان اپنی سالمیت، خودمختاری اور عزت
و وقار کے تحفظ میں ناکام ہوچکا ہے اور جب کوئی چاہے پاکستان میں گھس کر
اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
عوامی حلقے بھی اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے، جو ذمہ داروں کی سزا کا
مطالبہ کر رہے ہیں۔ عوامی حلقوں کی رائے میں حسین حقانی کے انکشافات ملکی
مفاد اور قومی سالمیت کے خلاف ہیں۔ وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان کے
بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکا کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ حسین حقانی نئی امریکی انتظامیہ کی توجہ حاصل
کرنے کے لیے پاکستان پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ حسین حقانی دنیا میں پاکستان
کو تنہا کرنے کے ایجنڈے کو فیڈ کر رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان کے
خلاف فوری ایکشن لیتے ہوئے آزاد خود مختار کمیشن تشکیل دے کر انکروائری
کرائے۔پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے بھی اس معاملے کی تحقیقات
کے لیے کمیشن کی حمایت کی ہے، لیکن ایک بات مدنظر رہنی چاہیے کہ اس کمیشن
کا حال بھی ماضی میں بننے والے کمیشوں کی طرح نہ ہو، کیونکہ ماضی میں بنائے
گئے مختلف کمیشنوں کی رپورٹس آج تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ قومی سلامتی سے
متعلقہ انتہائی حساس اہمیت کے حامل معاملات پر بالعموم کمیشنوں کی تشکیل
دفع وقتی کے لیے کی جاتی ہے، لیکن وقت گزر جائے تو اسے سردخانے میں ڈال دیا
جاتا ہے۔ جسٹس حمودالرحمٰن کمیشن، ایبٹ آباد کمیشن، ماڈل ٹاؤن کمیشن اور نہ
جانے اور کون کون سے کمیشن قائم کیے گئے، مگر ان کی رپورٹیں آج تک عوام کے
سامنے نہیں آسکیں۔ دنیا بھر میں یہ روایت ہے کہ جب کسی قومی معاملے پر
کمیشن کا قیام عمل میں آتا ہے تو اس کی تحقیقات سے عوام کو آگاہ کیا جاتا
ہے، لیکن ہمارے ہاں معاملہ برعکس ہے۔ نتیجتا یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ مقتدر
طبقات اور سیاسی حکمرانوں کا جب کوئی مفاد ہوتو کسی ایک معاملے پر کمیشن
بنانے کا مطالبہ داغ دیا جاتا ہے۔ جب کسی اہم معاملے پر کمیشن بنادیا جائے
تو مقتد طبقات اور سیاسی حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کی
تحقیقات سے عوام کو آگاہ کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکیوں کے لیے
ویزوں کے اجراء کے بارے میں حسین حقانی کے انکشافات کی انہیں پاکستان طلب
کرکے نہ صرف تحقیقات کی جائیں، بلکہ کمیشن کی سفارشات کے مطابق انہیں اور
دوسرے ذمہ داران کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر حسین حقانی کے بیان کی
تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے تو اس کی رپورٹ جلد از
جلد منظرعام پر آنی چاہیے، کیونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، جسے نظر
انداز نہیں کرنا چاہیے۔ |