کسی بھی ملک کی ترقی ،معاشرے کے افراد کی زندگی اور
صحت کا دارومدار پانی پر ہے ۔بارش ،چشموں، ندی نالوں، اور دریاؤں کے پانی
کو کام میں لا کر یعنی اس سے فصلیں اگا کریابجلی بنا کر ترقی کر سکتا ہے ۔ہر
ملک میں کئی محکمے اسی مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ بارش گلشیئرز، دریا ،
چشمے ، ندی نالے ، اور زیر زمین پانی،تقریبا ہر ملک کے پانی کے وسائل ہیں۔
لفظ پانی سنسکرت سے ماخوذہے، اسے انگریزی میں Water، آب (فارسی) یا ماء (عربی)
میں کہا جاتا ہے یہ ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مائع ہے ۔ پانی نے کرہ
ارض کے70.9 حصے کو گھیرا ہوا ہے ۔ اسی طرح جاندار اشیاء بشمول انسان تقریبا
70 فیصد حصہ پانی پر ہی مشتمل ہے ۔پانی کی ٹھوس شکل برف۔ مائع سادہ پانی۔
گیس کی شکل میں بخارات اور اس کے علاوہ شبنم ،اوس ،بھاپ ،بارش وغیرہ ہے ۔پانی
خدا تعالی کی وہ انمول نعمت ہے کہ جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے ۔
کرہ ارض پر مشرق و مغرب اور شمال سے جنوب تک رنگ بکھیرتی زندگی، زراعت،
صنعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ اسی ایندھن یعنی ’’پانی ‘‘کی
مرہون منت ہے، اسی کے دم سے زندگی رواں دواں ہے ۔پانی نہ صرف انسان بلکہ
جانور ، پودے ،پھل پھول، فصلیں، اور زمینوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔پانی
کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ہے ۔’’اﷲ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا
کیا ‘‘القرآن
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے93 ویں اجلاس منعقدہ 22 دسمبر 1992 ء کوایک
قرار داد پر فیصلہ کرتے ہوئے ، دنیا بھر میں 22 مارچ کو ورلڈ ڈے فار واٹر
کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے ماحولیات
و ترقی کی تصدیق و تائید کے بعد 1993ء میں پہلی بار 22 مارچ کو پانی کا
عالمی دن منایا گیا۔ہر سال اس دن کو کسی تھیم کے تحت منایا جاتا ہے۔
امسال یہ دن Water and Waste Water ) ( کے تحت منایا جارہا ہے۔اس وقت دنیا
بھر میں کم از کم 900 ملین سے زیادہ انسان ایسے ہیں، جنہیں پینے کے صاف
پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے ۔ایشیا اور افریقہ میں تو کئی علاقے ایسے بھی
ہیں، جہاں خواتین و حضرات کو کسی بھی معیار کا پینے کا پانی حاصل کرنے کے
لئے چھ سے آٹھ کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے ۔
پانی زندگی ہے، پینے کے پانی کی شہر میں لوگوں کو قدر نہیں حالانکہ وہاں
بھی آلودہ پانی ملتاہے ۔ جبکہ دور دراز دیہات کے لوگ بوند بوند پانی کے لئے
مارے مارے پھرتے ہیں، پاکستان زرعی، معدنی اور دیگر شاندار قدرتی خزانوں کی
ساتھ ساتھ بہترین آبی وسائل سے بھی مالا مال ہے ۔اگر انہیں بروئے کار لایا
جاتا تو پاکستان دنیا کا خوشحال ترین اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا تھا ۔مگر
افسوس کہ حکمران طبقے جن کو عوام ہی منتخب کرتی ہے کی خود غرضی کی وجہ سے
وطن عزیز آج مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والے
پاکستانی اپنی بقاء کے لیے مضر صحت پانی استعمال کرتے ہیں۔اسی وجہ سے ہرسال
ہزاروں افراد اسہال، ہیضہ، یرقان اور ان جیسی دیگر موذی بیماریوں کا شکار
ہو کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔پاکستان میں پانی کی صورت حال بڑی چونکا دینے
والی ہے ۔ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی جولائی2013 ء میں منظر عام پر آنیوالی
رپورٹ کیمطابق پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جو تیزی سے پانی کے بحران کی
طرف بڑھ رہا ہے ۔
ایک تنظیم جناح انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ 2014ء میں کہاگیا تھا کہ قیام پاکستان
کے وقت ہر ایک پاکستانی کے لیے پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا، جو
گزرتے وقت کے ساتھ کم ہو کر سنہ 2011ء تک ایک ہزار تین سو چورانوے مکعب
میٹر فی کس رہ گیا اور 2014ء اور اس کے بعد بعض ماہرین اس خدشہ کا اظہار کر
رہے ہیں کہ ملک میں فی کس پانی کی دستیابی کم ہوتے ہوتے ایک ہزار مکعب میٹر
رہ گئی ہے ۔
اس بات کو سن کر تو آپ چونک جائیں گے کہ ہمارے ملک میں پا نی ذخیرہ کرنے کی
گنجائش30 روز تک محدود ہو کررہ گئی ہے۔جوکہ ایمرجنسی کی صورت میں پانی کی
ضروریات پوری کرنے کیلئے ایک ہزار دنوں تک ہونی چاہیے تھی ۔یہ بحران کسی
بہت بڑے المیے کا سبب بن سکتا ہے ۔ہمارے حکمران تو اپنے اپنے ملک (بیرون
ملک) چلے جائیں گے یہاں تو ہم عوام کو رہنا ہے، اس لیے اس بحران سے نپٹنے
کے لیے ہم کو ہی آواز اٹھانی ہو گی ۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025 ء تک
ملک پانی کی شدید قلت سے دوچار ہو سکتا ہے۔اس کی وجہ آبادی میں تیزی سے
اضافہ اور ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے۔تاہم پاکستان
محکمہ موسمیات کے مطا بق موسمیاتی تبدیلی کے منظر نامے بتا رہے ہیں کہ اگلے
30 سالوں میں درجہ حرارت بڑھیں گے اور مون سون میں اضافہ ہو گا۔ سردیوں میں
برفباری کی نسبت، بارش کی مقدار زیادہ ہونے امکان زیادہ ہے۔پاکستان کے
موسمیاتی نظاموں سے منسلک کُل آبی وسائل کم نہیں ہوں، وہ بڑھیں گے ،تاہم
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت کم
ہے ،ملک کے دو بڑے ڈیم صرف ایک ماہ تک کے لیے پانی ذخیرہ کر سکتے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی معیشت کا دارومدار زرعی شعبے پر
ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے اور یہ
شعبہ ملک کی مجموعی لیبر فورس کے 46 فیصد حصے کو روزگار مہیا کرتا ہے۔ اگر
مستقبل میں ملک کو اسی طرح پانی کی قلت کا سامنا رہا تو اس کے منفی اثرات
کئی شعبوں پر مرتب ہونگے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کی قلت پر قابو
پانے،پانی کے ضیاع کو روکنے اور پانی کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لئے فوری
اقدامات کئے جائیں۔
اس وقت ملک کی آبادی لگ بھگ بیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور حال یہ ہے کہ کثیر
آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت اور
آلودہ پانی نے عوام میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔پاکستان کونسل آف
ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آرڈبلیو) کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد شہری
آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ دیہاتوں میں بسنے والے 82 فیصد
لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔
پاکستان کو آج کل پانی کی قلت کے جس بحران کا سامنا ہے، اس کی دو وجوہات
ہیں، ایک تو بھارت کی پاکستان دشمنی ہے ۔ دشمن سے تو کسی خیر کی توقع بے
وقوفی ہوتی ہے، اصل وجہ پاکستان کے حکمران ہیں۔جو اس حوالے سے مسلسل غفلت
کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ مجھے آخر میں یہ ہی کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے آبی
وسائل کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی اور بڑے ڈیم تعمیر نہ کئے تو ملک میں
پانی کی قلت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ آبپاشی تو درکنار پینے کے لیے بھی
پانی وافر مقدار میں دستیاب نہ ہو گا۔اور جیسا کہ عالمی آبی ماہرین کا کہنا
ہے کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی کے مسئلہ پر ہوں گی یہ بات سچ ثابت ہو
جائے گی۔ |