پاکستان نے ایک دفعہ پھر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کھول دی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس حوالے
سے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ سرحدوں کا زیادہ دیر تک بند رہنا عوامی
او ر معاشی مفاد کے لئے نقصان دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جذبہ خیر سگالی کے
تحت یہ فیصلہ کیا گیا تاہم امید ہے کہ جن وجوہات کی بناء پر سرحد بند کی
گئی تھی افغان احکام ان کا فی الفور تدارک کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ
پاکستان میں امن و سلامتی کے لئے افغانستان میں دیر پا امن نا گزیر ہے اور
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان سے تعاون جاری رکھا جائے گا۔
پاکستان نے ایک ماہ قبل طورخم اور چمن سرحد کواس وقت بند کردیا تھا جب
افغانستان میں موجود دہشت گردوں نے لاہور اور سیہون شریف میں ہونے والے
خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پاکستان نے یہ فیصلہ عجلت میں نہیں
اٹھایا تھا بلکہ اس سے قبل افغان حکام کو متعدد بار متنبہ کیا گیا تھا کہ
افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے وہ پورے
اطمینان سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور سماج دشمن
سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت بھی پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے
لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے۔ تاہم مقام افسوس ہے کہ افغان
حکومت نے اسلام آباد کے ان تمام تحفظات کو پس پشت ڈال دیا اور ان عناصر کے
خلاف کسی قسم کی کارروائی کی بجائے الٹا پاکستان کو مورود ِ الزام ٹھہرانا
شروع کردیا۔ظاہر ہے اس غیرذمہ دارانہ رویے کا براہ راست اثر دہشت گردی کے
خلاف کوششوں کو پہنچا جس کی قیمت دونوں ممالک کے عوام کو جان و مال کی صورت
میں چکانا پڑرہی ہے۔ چند روز قبل بھی خیبرایجنسی میں پاک افغان سرحد پر
افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں نے ایف سی پر دو حملے کیے۔ تاہم ایف سی کے
اہلکاروں کی مستعدی اور جرات و بہادری کی وجہ سے کوئی بڑا جانی و مالی
نقصان نہ ہوا۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی ہے۔یہ
وہی تنظیم ہے جس نے گزشتہ ماہ لاہور میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری
قبول کی تھی جو پاک افغان سرحدکی بندش کا موجب بنی۔ پاکستان کی جانب سے
افغانستان کو دہشت گردوں کے بارے معلومات اور ثبوت فراہم کئے گئے تاہم کابل
نے اس سلسلے میں انتہائی سردمہری کا ثبوت دیا۔ افغان فوج کی نااہلی اس
سلسلے میں ان کے راستے کا پتھر بنی یا بھارتی اشارے کام کرگئے،وجہ جو بھی
تھی اس نے افغان حکومت کے اختیار اورنیت کا پردہ چاق کردیا۔ پاکستان، کابل
کی اس بے اختیاری کا خمیازہ کیوں بھگتے․․․لہٰذا اس کی جانب سے افغانستان کے
اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو خود تباہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔چیف
آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردوں کو دونوں ممالک کا مشترکہ
دشمن قراردیتے ہوئے مل کر شکست دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاہم کابل کی
جانب سے مثبت ردعمل کی بجائے سفارتی جنگ کا آغازکردیاگیا۔ اشرف غنی نریندر
مودی کی زبان بولنے لگے۔ وہ بھارتی لابی کے زیر اثر پاکستان پر الزامات کے
گولے برساتے رہے ۔ وہ واحد سربراہ مملکت تھے جو اسلام آباد میں ہونے والی
اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک نہ ہوئے حالانکہ اس کا سارا زور ہی
’’علاقائی خوشحالی کے رابطے‘‘ پر تھا۔ افغانستان کی اقتصادی ترقی کے لیے یہ
ایک اہم پلیٹ فارم ثابت ہوسکتا تھا۔ اسی طرح افغانستان کی مختلف شخصیات جن
میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار شامل ہیں، محض بھار ت کی آشیر باد سے پاکستان
مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ سابق افغان انٹیلی جنس چیف امراﷲ صالح
کے نائب جنرل ریٹائرڈ عیسیٰ نے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے
پاکستان مخالف نعرے لگائے۔اسی طرح بہت سی قوتوں نے پاک افغان سرحد پر بلا
روک ٹوک پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔اس سلسلے میں کابل کی بے بسی نے بہت
سے سوال پیدا کئے اور دونوں ممالک کے اعتماد کو نقصان پہنچا۔ کابل کے اس
رویے کی بدولت بھارت اور دیگر دہشت گرد قوتوں کو پاکستان مخالف سرگرمیاں
جاری رکھنے کی شہ ملی۔
افغانستان کی بے رخی کے برعکس پاکستان برملا اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ
پرامن افغانستان صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ناگزیر
ہے۔ اشرف غنی اس سچ کو کیوں جھٹلاتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام
ایک ہیں۔ دونوں اسلام، زبان اور ثقافت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ پاکستان
گزشتہ کئی دہائیوں سے لاکھوں افغانوں کی میزبانی کرتاچلا آرہا ہے بلکہ ان
کی کئی نسلوں کی پرورش پاکستان میں ہوئی۔ وہ کیسے ایک دوسرے سے جدا ہوسکتے
ہیں؟ بھارت، امریکہ یا کوئی اور ملک ان کے اس رشتے کو اپنے مفادات کی بھینٹ
کیسے چڑھا سکتا ہے۔ وہ اپنے عوام کی آنکھوں میں کیوں نہیں جھانکتے جو دہشت
گردی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی بجائے امید کے چراغوں سے روشناس ہونا چاہتے
ہیں۔ وہ کسی کے ہاتھ کٹھ پتلی بننے کی بجائے اب اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے
ہیں۔اشرف غنی بھارتی گود میں بیٹھ کر اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلا سکتے کہ
دنیا تبدیلی کے ایک نئے دور سے گزر رہی ہے ۔نئے عالمی بلاک وجود میں آرہے
ہیں۔ طاقت کے مرکز تبدیل ہورہے ہیں، ٹرمپ امریکہ کے سر سے عالمی چودھراہٹ
کی پگ اتارنے کا آغاز کرچکے ہیں۔ جیسے ہی امریکی طاقت کا جن بوتل میں بند
ہوگا، دہشت گردی کا طلسم خودبخود زمین بوس ہوجائے گا ۔ کابل اس بات پر بھی
غور کرے کہ مودی کی دھمکیاں پاکستان کا کچھ بگاڑ سکیں نہ اسے تنہاکر سکیں۔
گزشتہ صرف دو ماہ میں بیس سے زائد سربراہان مملکت پاکستان کا دورہ کرچکے
ہیں۔ روس، چین، برطانیہ اور امریکہ سمیت 36ممالک کی افواج پاکستان کے شانہ
بشانہ مشقوں میں حصہ لے چکی ہیں۔ اشرف غنی اس حقیقت سے بھی کب تک نظریں
چرائیں گے کہ ترقی کا اگلا مرکزجنوبی ایشیاء اور سی پیک اس کی کنجی
ہوگی۔دنیا کے باون ممالک روشن راستے پر پاکستان کے ہم سفر بننے کے متمنی
ہیں۔اب تو اقوام متحدہ بھی ون بیلٹ ون روڈکے تصور پراپنی مہر ثبت کرچکی ہے۔
یہ صورتحال افغان قیادت کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر پیغام دے رہی ہے کہ وہ اپنی
معاندانہ پالیسیوں کو ترک کرکے ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائے۔ پاکستان نے
تو سرحد کھول کر افغان عوام سے اپنے اخلاص کااظہار کر دیا ہے،توقع ہے کہ
افغان قیادت بھی اپنا دل کھلا رکھتے ہوئے اس عمل کا مثبت جواب دے گی۔ |