ذات کا خول

اہل فقر کا عصری شاہ یا اس کے چمچوں کڑچوں سے کبھی کوئی ذاتی مسئلہ نہیں رہا۔ سقراط‘ پادری ویلنٹائن‘ حسین ع‘ منصور ہوں کہ سرمد‘ نے کسی ذاتی مسئلہ کی وجہ سے طاقت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور ناہی کسی حصولی کی پاداش میں موت کو گلے لگایا۔ حصولی کے گاہک موت کے خریددار نہیں ہوتے۔ وہ لوگوں کے ساتھ ہونے والے ان جسٹ کے خلاف میدان میں اترتے آئے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ موت کے منہ میں لوگوں کی خاطر گیے۔ لوگ:
مرے تھے جن کی خاطر وہ رہے وضو کرتے

ایک ہی چیز کا ایک ہی فروخت کنندہ لوگوں سے الگ الگ بھاؤ کرتا ہے۔ حالاں کہ اصولا ایک ہی بھاؤ ہونا چاہیے۔ کئی طرح کے بھاؤ معاشی ناہمواری کا سبب بنتے ہیں۔

اس روز مجھ میں بھی فقیری نے سر اٹھایا اور میں نے سوچا کہ یہ کئی بھاؤ کا رواج ختم ہونا چاہیے۔ میں نے ایک دوکان دار سے اس طرح سے آخری بھاؤ کے لیے اچھی خاصی بحث کی جیسے میں پرچون کا نہیں‘ تھوک کا گاہک ہوں۔ میں نے اسے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ وہ بھاؤ بتاؤ جو لینا ہے۔ اس نے آخری بھاؤ بتا دیا جو اس کے منہ سے نکلنے والے بھاؤ سے کہیں کم تھا۔ مجھے بڑا برا لگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ اتنا منافع کماتے ہیں۔

میں نے اسے اس طرح سے آرڈر جاری کیا‘ جیسے میں مارکیٹ کا بڑا منشی ہوں حالاں کہ بڑے منشی کو کم یا زیادہ بھاؤ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو معاملے کو اپنی حصولی تک محدود رکھتا ہے۔

دوکان دار کو جب معلوم ہوا کہ میں نے کچھ لینا دینا نہیں بل کہ ایک ریٹ مقرر کرنے کے لیے بحث کر رہا ہوں‘ پہلے تو اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا‘ پھر پان سات نہایت آلودہ گالیاں نکالیں۔ وہ اسی پر ہی نہ رہا بل کہ پھرتی سے اٹھا اور میرے بوتھے پر کرارے کرارے کئی تھپڑ بھی جڑ دیے۔ میں اس ناگہانی حملے کی توقع نہ کرتا تھا لہذا اللہ کی زمین پر آ رہا۔

اچھے خاصے لوگ جمع ہو گئے۔ میں نے تو لوگوں کی بھلائی اور آسانی کے لیے یہ سب کیا تھا۔ لوگ میری سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ دوکان دار جو فروخت کے معاملہ میں کئی زبانیں رکھتا تھا‘ کی اونچی اونچی یاوہ گوئی پر توجہ کر رہے تھے۔ کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ یار وہ تو ٹھیک‘ حق اور معاشی توازن کی بات کر رہا ہے۔ ہر کوئی مجھ پر ہنس رہا تھا میرا ہی مذاق اڑا رہا تھا۔

اس واقعے کے بعد مجھ پر کھل گیا کہ حق سچ کے لیے لڑنا میرے بس کا روگ نہیں یہ منصور سے لوگوں کا ہی کام ہے۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے میں نے بھی اوروں کی طرح معاملات کو اپنی ذات تک محدود کر لیا ہے۔ لوگ آج بھی مجھے دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ ان کا ہنسنا مجھے اب ذات کے خول سے باہر نہیں ہی دیتا۔
 

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.