گزشتہ دنوں راقم نے جامعہ فاروقیہ میں آبی ڈرون حملوں کے
حوالے سے ایک مختصر تحریر رقم کی۔ویسے تو فاروقیہ میں بیتے دنوں کی کہانیاں
بہت ساری ہیں لیکن کچھ شرارتیں بہت ہی یادگار ہیں اس لیے ان کو بھلانا ممکن
نہیں۔ زندگی رہی تو کسی موڑ پر ان تمام شرارتوں اور نیکوں کو کتابی شکل دی
جائے گی تاہم دو مختصر مزاحیہ تحریریں احباب کی نظر کرنے جارہا ہوں۔ ایک
میری تحریر ہے اور ایک مفتی نذیر المعروف محمدالکوہستانی(حال ترکی) والے کی
تحریر ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
آبی ڈرون حملے۔۔۔۔
شرارتیں ہمیشہ سے ہوتی ہیں لیکن کچھ شرارتیں جان لیوا بھی ہوتی ہیں۔ یہ
غالبا 2006ء کی بات ہے۔ جامعہ فاروقیہ میں نذیر، زاہد ، عبدالواحد(مری
والا) اور میری جمعرات کو ایک خاص جگہ (اولی معہد کی کلاس کے سامنے)مجلس
لگتی۔ مفتی نذیر کی سازش اور مخبری سے اکثر میں مفتی زاہد اور
عبدالواحدعباسی پر پانچویں منزل سے رات کے ایک بجے پانی کے شاپر مارتا۔ ایک
دفعہ جس جگہ پر مالشی مجلس لگنی تھی اور میں نے پانی کے بھرے شاپروں سے ان
پر حملہ آور ہونا تھا، ان تینوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی کوئٹہ والوں کا
ایک گروپ وہاں جم گھٹہ لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ تینوں کہیں اور چلے گئے۔اس دن
جے یو ائے گلشن اقبال کے صدر نے فاروقیہ یونٹ والوں کے ساتھ اہم میٹنگ کرنی
تھی اور اس جگہ پر دودھ پتی اور قہوہ کی کتلیوں سمیت وہ وہاں بیٹھے ہوئے
تھے۔ چائے کی چسکیاں لی جارہی تھی۔ میں نے رات ایک بجے وقت مقررہ پر بن
دیکھے کوئٹہ والوں کی اس مجلس پر پانی سے بھرے شاپروں کی برسات کرڈالی۔وہ
جب گالیاں نکال کر تیسری منزل سے پانچویں منزل کی طرف بشکلِ لشکر روانہ
ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ یہ تو میرے مطلوب لوگ نہیں بلکہ کوئی اور گروپ
ہے۔۔ یوں میں بھاگ کر دوسری طرف گیا اور وہاں سے جائزہ لینے لگا کہ یہ دستہ
حملہ آور کے خلاف کیا کاروائی کرے گا۔ کوئٹہ والوں کا یہ غضب ناک دستہ طیب
منزل اور قاسم منزل کے کمروں کی تلاشی لینا لگا اور لڑکوں کو بستر سے جگا
جگا کرپوچھ رہا تھا کہ ابھی ابھی کمرے کون آیا تھا۔۔بخدا اگر میں ان کو
ملتا تو شاید وہ جان سے بھی ماردیتے۔ کم ازکم اتنا تو ضرور مارتے کہ میں
ہفتہ دس دن کے لیے ہسپتال میں ایڈمیٹ کیا جاتا۔۔میں خاموشی سے دوسرے راستے
سے نیچے اترا اور پھر گروانڈ فلور سے مدنی منزل کی سیڑھیاں چڑھ کر اسی جگہ
پہنچا جہاں پر میرے آبی شاپروں کے ڈرون حملے ہوئے تھے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ
تمام حاضرین پیلیوں سمیت کھڑے ہیں اور سب کے کپڑے تر ہوچکے ہیں ۔ گلشن
آقبال سے آیا ہوا مہمان بھی تری کی حالت میں تھا۔ آبی ڈرون حملہ آور کو
ہزاروں کے حساب سے گالیاں دی جارہی تھی۔کوئٹہ والوں کی بنی اس درگت کو دیکھ
کر دل باغ باغ تو ہوا لیکن میں نے سنجیدگی سے صورت حال کا پوچھا اور حملہ
آور کودو چار خاندانی گالیاں بک کر ان سے رخصت ہوا اور ساتھ مفتی نذیر پر
بے حد غصہ آیا اور پھر انہیں ڈھونڈ کر ان کے ساتھ کیا کیا وہ ایک الگ
کہانی ہے پھر کبھی سہی۔۔آبی ڈرون حملوں کی کہانیاں بہت ساری ہیں، ایک شاپر
استاد ولی خان کو بھی دے مارا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استاد جی نے کلاسک عربی
میں گالیاں دی تھی‘‘۔
اسی مختصر سی تحریر کے بعدمفتی نذیر، المعروف محمد الکوہستانی (حال ترکی)نے
ایک دلچسپ تحریررقم کی۔انہوں نے بہت سارے پوشیدہ گوشوں سے پردے اٹھائے،لیکن
یہ نہیں بتایا کہ ایک دفعہ وہ باتھ روم میں تھے ان پر کئی پانی کے لوٹے
انڈیلے گئے تھے، اور ایک دفعہ وہ مسجد کے برامدے میں تہجد پڑھ رہے تھے ایک
شاپردے مارا تھا۔ میرے ان شاپروں سے تنگ آخر عبدالواحد عباسی مجھے اب تک
’’شاپر ملا‘‘ یعنی علامہ شاپر سے یاد کرتے ہیں۔تاہم مفتی نذیر صاحب کی
تحریر ملاحظہ فرمائے جو انہوں نے روئی کے گولوں میں پتھر لپیٹ کے دے ماری
ہے۔
’’گلشن سلیمی سے وابستہ چند حسین یادیں‘‘ !
امیر جان حقانی میرے بچپن کے ان دوستوں میں سے ہیں جن کے ساته مل کر ہم نے
گلشن سلیمی میں اپنی زندگی کےحسین ترین دن گزارے؛ وہ مجھے غصے میں جتنے
اچھے لگتے ہیں پیار میں نہیں لگتے! کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مختلف موڈز
میں ہی اچھے لگتے ہیں! یہی وجہ ہے ،جب بھی مجھے موقعہ ملتا ہے ان کو چھیڑنے
کے ''کارخیر'' میں دیر نہیں کرتا، بلکہ فورا ہی اپنا''فرض منصبی ''ادا کرکے
چپ سادھ لیتاہوں، اور ان کی جلی کٹی ، ترش وتلخ کے درازسلسلسے سے لطف اندوز
ہوتا رہتاہوں،! بلامبالغہ حقانی گلگت بلتستان کے ان چنداہل علم میں سے ہیں
،جوقدیم ضروری اورجدیدنافع دونوں علوم کے حامل ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ
انہوں نے قلم وقرطاس سے بھی تعلق جوڑا ہوا ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ میرے اور
ان کے قلم وقرطاس سے تعلقات کایہ پودہ ہنوز کافی کم سن ہے ، اور زبان وادب
کی یہ فصل ابھی کافی کچی ہے، اس لئے ڈربھی لگارہتاہے کہ'' طوطے کچی فصلوں
کا بڑانقصان کرتے ہیں!''
اس لئے کبھی کھبار شاعرمشرق کی روح کان میں آکریہ ''سرگوشی ''کرکے چلی جاتی
ہے۔
نالہ ہے بلبل شوریدہ تیرا خام ابھی
اپنے سینے میں زرااور اسے تھام ابھی !
پس اگریوں کہاجائے کہ حقانی گلگت بلتستان کے ان گنے چنے اہل علم میں سے ہیں
، جوباقاعدہ جدیداورقدیم علوم دونوں کی تدریس کے علاوہ سفرنامے،سیاسی
تحریریں ،تجزیاتی کالمز ،تبصرے اور بلاتکلف کہاجائے، تو مفت کے مشورے بھی
لکھتے ہیں ! اور باقاعدہ بلکہ بسیار لکھتے ہیں ، بلکہ اب تو انہوں نے ''
خدمت خلق '' کے جذبہ سے مجبور ہوکر قریبی دوستوں کو سلاجیت بھی فراہم کرنا
شروع کردیا ہے ! یقینا ''گلگت بلتستان جیسے خظہ میں اس طرح کے افراد کاوجود
اللہ کی نعمت ہے، اللہ سلامت رکهے میری پہلی قلمی "حرکت" علمی مسکرا ہٹیں''
کی پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں بهی انہوں نے کافی تعاون کیاتھا، کلاس
کےاعتبارسے اگرچہ ہمارے درمیان پورے 4 سال کافرق تها، لیکن محبتوں نے کبهی
سنیارٹی جتلانے کاموقع دیا نہ محسوس کرنے کاوقت! بلکہ ساتھ اٹهتے بیٹهتے
اور بڑوں کی نصیحت ''اتفاق میں برکت ہے'' کے تحت شرارتیں ، مستیاں بھی باہم
مل جل کر کرتے.! راقم ،امیرجان، مفتی زاہد صاحب گلگت سکارکوئی والے
اورعبدالواحدعباسی ہم چاروں کا ایک مختصرسا حلقہ احباب تھا... مفتی
زاہداقبال نسبتا ، نفیس اورشریف قسم کے انسان تھے ، لیکن آہستہ آہستہ ان پر
بھی ہمارا رنگ چڑگیا تھا، اسلئے وہ بھی مختلف ''معرکوں ''میں سمٹے ہوئے
،شرمائے ہوئے ہمارا ''تعاون'' فرماتے تھے ،عصر کے بعد میں ان کو عربی
پڑھاتا تھا، بالخصوص فاروقیہ کےطلبہ کی"متفق علیہ"شرارت "شاپرباری"میں
انتہائی "خلوص" سے ایک دوسرے کاہاتھ بٹاتے تهے، اس معرکہ کا طریقہ واردات
یہ ہواکرتاتھا کہ میں کسی ایک یا چند دوستوں کو باتوں میں الجهاکر
دفتراہتمام کے سامنے کهڑارکهتاتها، جبکہ بهائی حقانی جنبش ابرو پاتے ہی
عالم بالا (بالائی منزل) کی طرف پابہ سفر ہوجاتے ، فورا سے 4یا5ویں منزل پہ
پہنچ کے کہیں سے پلاسٹک کاشاپنگ بیگ "دریافت" فرماتے پھر اس میں پانی بهرکے
مذکورہ دوست جو چمن میں میرے ساتھ محو گفتگوہوتے، کے سرکانشانہ لیتے ؛ آن
واحد میں دهڑام کی صدابلندہوتی وہ محترم سر سے پیر تک گیلےہوجاتے جبکہ
میں(مصنوعی) غصہ کرتاہوا اوپرکی جانب کسی نامعلوم فرد کوڈانتا، وہاں سے ایک
طرف ہوجاتااوراس دوست کی تعزیت کرتا اور وہ بهی مجهے اپناہمدردتصورکرکے کسی
نامعلوم شخص کوکوستا جس کے بعد ہم چهپ کے قہقہے بلندکرتے اور ''کامیاب
کاروائی'' پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے! لیکن کھبی کھبار ایسابھی ہوتا کہ
بھائی حقانی ''دانستہ یانادانستہ ''اس دوسرے دوست کے بجائے مجھے ہی نشانہ
بناتے، اب جب میں گیلا ہو دیکھتا '' کمین گاہ '' کی طرف تو حقانی صاحب ہی
سے ملاقات ہوجاتی ، میرے غصہ ہونے پر حقانی بڑی معصومیت سے ''انسان کے غلطی
کاپتلاہونے اور ''نشانہ چوکنے'' کا بہانہ بناکر ہمدردی کااظہار کرتے ، لیکن
ان سمیت تمام دوستوں کے لبوں پر بکھری مسکراہٹ ان کی نیتوں کی ''گہرائی
وخرابی'' کا پتہ دیتی!
میں اورحقانی کاتعلق چونکہ گلگت بلتستان سے تھا،اس لئے ہمارے پاس ڈرائی
فروٹ ہواکرتے تھے، اس لئے یہ تینوں آپس میں مل کران سے لطف اندوز ہوتے تھے
، اس کے علاوہ تکیہ بازی کے معرکہ میں بظاہر حقانی میرے ساتھی ہوتے تھے ،
لیکن جوں ہی لائٹ بجھائی جاتی تو وہ فریق مخالف کے لشکر میں پہنچ جاتے ،
پہلے پہل تو مجھے اس کا ادراک نہ ہو سکا ، اور اس لاعلمی میں کئی بار ''حزب
اتفاق اورحزب اختلاف دونوں کے تکیے سہے ، اور خوب سہے ، لیکن ایک بار جب
بیک وقت تین تین تکیوں کو اپنے سرسے ٹکراتے دیکھا تو شک سا ہوگیا کہ '' کچھ
باغباں ملے ہوئے ہیں برق وشرر کے ساتھ '' کیونکہ مخالف ٹیم کے دو ہی افراد
تھے ، اور درمیان میں فاصلہ بھی کافی تھا ، اس لئے پوری قوت کے ساتھ ایک ہی
وقت میں ایک سے زیادہ تکیہ نہیں اچھالا جاسکتا تھا، اس لئے ہونہ ہو اپنا ہی
کوئی خیرخواہ فریق مخالف کے ساتھ ملا ہو ا ہے ،پھر دوبارہ لائٹ جلانے کے
بعد زاھد اور عبدالواحد کے ساتھ حقانی کی ہنسی میرے شک کو مزید یقین میں
بدل دیتی تھی‘‘۔
|