پاکستان میں پلاسٹک کے بنے ہوئے شاپنگ بیگز جنہیں
پولیتھین بیگ کہا جاتا ہے۔پولیتھین بیگ آنے سے قبل جب لوگ گھرکا سودا یا
سامان لینے کے لئے بازار جاتے تھے تو اپنے ساتھ کپڑے کا تھیلا یا کھجور کے
پتوں سے بنی ہوئی ٹوکری لے کر گھر سے نکلتے تھے۔کپڑے کے تھیلے مارکیٹ میں
سلے سلائے بھی ملتے تھے اور خواتین گھروں میں خود بھی سی لیتی تھی۔مگر آج
آپ بازار کو رخ کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران نہیں ہونگے کہ ہر سوداسلف
خریدنے والا ہاتھ پولیتھین بیگ تھامے ہوئے دکھائی دے گا ،ایک پاؤ لیموں سے
لے کر کپڑوں تک ہر چیز آپ کو پولی تھین بیگز میں ملے گئی۔چونکہ پلاسٹک جدید
کیمیائی صنعت میں بہت ہی سستی اور عام شے ہے جو ہماری زندگی میں کثرت سے
استعمال ہوتی ہے۔ پلاسٹک کو آج ہمارے یہاں اس قدر اہمیت حاصل ہوچکی ہے کہ
اس کے بغیر اب روزمرہ زندگی ادھوری لگتی ہے۔ہم روزانہ پلاسٹک سے بنائی گئی
کوئی نہ کوئی چیز ضرور استعمال کرتے ہیں، جبکہ پلاسٹک کا سب سے زیادہ
استعمال ہم پولیتھین لفافوں یا بیگز کی صورت میں کرتے ہیں۔ یہ بیگ یا لفافے
وزن میں انتہائی ہلکے اور سستے ہوتے ہیں اور ہم انہیں کسی بھی طرح سے
استعمال کرسکتے ہیں۔ ان ہی فائدوں کو دیکھ کر ہم ان کا بکثرت استعمال کرتے
ہیں، لیکن اسکے مضر اثرات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان پلاسٹک بیگز کو
استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے، لیکن یہ اپنی کیمیاوی خصوصیات کے باعث
مٹی، پانی یا ہوا میں گلنے سڑنے کے بجائے ہمارے ماحول کیلئے مضر اور ضرر
رساں بن جاتے ہیں۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق روزانہ 15سے29کروڑ
پلاسٹک بیگز کا استعمال کیا جاتا ہے۔2004میں کئے گئے سروے میں اندازہ لگایا
گیا تھا کہ 2015میں پاکستان میں پلاسٹک بیگز کا سالانہ استعمال 122بلین تک
پہنچ جائے گا۔اگر اس تعداد کو روزانہ کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے تو تقریبا
پاکستان کی آبادی پر ایک پلاسٹک بیک فی کس روزانہ آتا ہے۔1965میں سویڈن کی
ایک کمپنی نے پولیتھین بیگز کو متعارف کرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا
میں عام ہو گیا اورپاکستان میں پلاسٹک کے شاپر بیگز80کی دھائی میں شروع
ہوئے اورپھر پورے پاکستان میں مشہور ہو گئے۔ اب تو دودھ اور دہی تک
پولیتھین کے لفافوں میں بیچا جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے کھجور
کی ٹوکریوں کو ختم کر دیا اور پولیتھین کی آمد نے کاغذی لفافوں کی مارکیٹ
ختم کر دی۔ اب پولیتھین کے شاپر بیگوں نے پاکستان میں ماحول کو آلودہ کیا
ہوا ہے، گٹر بند ہو رہے ہیں، نالیاں شاپر بیگ اور چپس کے بیگوں سے اٹی پڑی
ہیں۔ کوڑے کیساتھ انہیں جلانے سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ
پاکستان میں درجن بھر فیکٹریاں ہیں جو کہ پلاسٹک بیگز بناتی ہیں جو کہ
کروڑوں بیگ روزانہ کی بنیاد پر بنا کر بیچ رہی ہیں۔
پلاسٹک ایک پولیمر ہے جو کہ ایک یا مختلف کیمیائی اجزاء سے مل کرتیار کیا
جاتا ہے۔پلاسٹک کی عموماً دو اقسام استعمال کی جاتی ہیں، جن میں سے ایک
قدرتی ہے، جو درختوں اور جانوروں سے حاصل کیا جاتا ہے، جبکہ پلاسٹک کی
دوسری قسم لیبارٹری یا فیکٹری میں تیار کی جاتی ہے۔قدرتی پولیمر کی پہلی
قسم کے دائرے میں نشاستہ یا اسٹارچ اور سیلولوس، جبکہ دوسری قسم میں پروٹین
شامل ہے، جس میں لکڑی، ریشم، چمڑا وغیرہ آتے ہیں۔ قدرتی پولیمر کی تیسری وہ
قسم ہے جس میں ڈی این اے اور آر این اے آتے ہیں، جو ہمارے نشوونما کے ضامن
ہیں مصنوعی پولیمر دراصل لیبارٹریز میں تیار کیا جانے والا پلاسٹک ہے۔ اس
کی عام اقسام میں پولی تھین، پولی اسٹیرین، سینتھیٹک ربڑ، نائیلون، پی وی
سی، بیکولائٹ، میلامائن، ٹیفلون اور آرلون وغیرہ شامل ہیں۔پولی تھین دراصل
ایک سیال مادہ ہے جسے باآسانی کسی بھی شکل و صورت میں ڈھالا جاسکتا ہے اور
کسی بھی رنگ میں رنگا جاسکتا ہے، جبکہ اسے نرمی اور ملائمیت کی کسی بھی حد
تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اسی خصوصیت نے اسے انتہائی سستے پولی تھین لفافوں،
بیگ اور دیگر کارآمد اشیاء کی تیاری میں مقبول عام بنایا ہے۔پولی تھین یا
پلاسٹک کا استعمال اب ہماری روز مرہ زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے اور
یہ استعمال دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یوں تو پولیتھین کا استعمال ناگزیر
بن چکا ہے، لیکن اسے استعمال کرنے کے بعد یونہی پھینک دینے کا سوال کہیں
زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ہمارے خطے میں لوگ تو پولی تھین سے بنے لفافے اور
تھیلے استعمال کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارے یہاں ان
اشیاء کو استعمال کرنے کے بعد صحیح ڈھنگ سے ضائع کر نے کا کوئی تصور موجود
نہیں ہے۔ان لفافوں اور تھیلوں کو بلا تردد گلی کوچوں، سڑکوں، نالیوں،
دریاؤں اور باغیچوں، حتٰی کہ اپنے گھروں کے صحن میں بھی بغیر سوچے سمجھے
پھینک دیا جاتا ہے اور یہی لاپرواہی ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا
سبب بن چکی ہے۔ عام استعمال میں آنے والا پولی تھین اگرچہ ہمارا سستا دوست
ہے لیکن ہماری ناسمجھی اور غفلت کی وجہ سے یہی سستا دوست ہمارا سب سے بڑا
دشمن بنتا جارہا ہے ۔ماحول کو متوازی رکھنے کے بارے میں ہماری بے حسی اور
لاعلمی کے باعث پولی تھین کی استعمال شدہ اشیاء گلیوں، نالیوں، دریاؤں اور
جھیلوں میں اپنا مسکن بنالیتی ہیں، جو پا نی کی نکاسی کے نظام کو درہم برہم
کرنے اور خطرناک صورتحال پیدا کرنے کا ذمہ دار بنتا ہے۔ ملک کے مختلف شہری
علاقوں میں پولی تھین سے نالیوں اور سیوریج کا بند ہونا ایک وباء بن چکی
ہے۔ گندے پانی کے نکاس بند ہونے کے نتیجے میں تمام قریبی علاقوں میں بدبو،
گندگی اور مختلف بیماریوں کو دعوت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ برسات کے موسم کی
ذرا سی بارش بھی ایک سیلاب کا رخ اختیار کرلیتی ہے۔ دوسری جانب ہمارے آبی
ذخائر پولی تھین لفافوں کی آماجگاہ بن رہے ہیں جن سے آبی حیات کا بری طرح
متاثر ہونا لازمی بات ہے۔پاکستان کی متعدد جھیلوں اور دریاؤں میں پولی تھین
سے بنائی گئی بے شمار اشیاء کو تیرتے، بہتے اور جمع ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کے پرفضاء پہاڑی علاقوں میں بھی پولی تھین اپنے
برے اثرات پھیلا چکا ہے اور وہاں کی صاف ستھری آب و ہوا اور ماحول کو بھی
متا ثر کرنے میں مصروف عمل ہے۔ پولی تھین کا استعمال ہماری بے احتیاطی کی
وجہ سے جتنا عام ہوگا، اتنا ہی ہمارا ماحول بھی اس کے مضر اثرات سے متاثر
ہوتا چلا جائے گا۔
پولی تھین چونکہ ایک نہ سڑنے والی شے ہے ، اس لئے یہ زمین کی ساخت اور
زرخیزی کو بری طرح تہس نہس کر دیتی ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے
کہ پولی تھین زمین کی سانس کو بند کرکے اس کو منجمد کر دیتا ہے اور نباتات
کو زمین سے جو غذا اور دوسرے اجزاء ملنے چاہئیں ان کی ترسیل میں رکاوٹ ثابت
ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں نباتات کی افزائش رک جاتی ہے اور زمین کی
پیداواری صلاحیت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو بارش کا
پانی پولی تھین کی وجہ سے زمین کے اندر جذب نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہمارے
جنگلات بھی بری طرح سے متاثر ہوتے ہیں اور اکثر علاقوں کے جنگلات اور زرعی
زمینیں پولی تھین کی وجہ سے اپنی ساخت اور صلاحیت کھو دیتی ہے، اور ہماری
پیداوار گھٹتی چلی جاتی ہے۔قابل غور امر یہ ہے کہ سڑکوں، گلی کوچوں، نالیوں
اور کھلی جگہوں پر پھینکے گئے پولی تھین بیگز ہمارے مویشی بھی کھالیتے ہیں
جو ان کیلئے جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک ویٹرنری ہسپتال میں
جب ایک بیمار گائے کا آپریشن کیا گیا تو اس کے پیٹ سے کئی کلو وزنی پولی
تھین کے بیگز نکلے۔ اس کے علاوہ ایک تحقیقاتی ٹیم نے ایک مردہ گائے کا
آپریشن کرکے اس کے پیٹ سے 40 کلو گرام پلاسٹک بیگز نکالے۔ اس طرح نہ جانے
کتنے ہی مویشی پلاسٹک اور پولی تھین کھا کر زندگی کی بازی ہار چکے ہوں
گے۔دوسری جانب پولی تھین بیگز میں استعمال کئے جانے والے رنگ بھی مضرصحت
ہوتے ہیں، جن کے برے اثرات ہماری صحت کو متاثر کرسکتے ہیں۔ اگر ان لفافوں
اور بیگز کو جلایا جائے تو ان کا دھواں ہوا کو زہر آلودہ کردیتا ہے۔یہ
دھواں ہماری آنکھوں، جلد اور نظام تنفس پر بری طرح سے اثر انداز ہوتا ہے
اور یہی دھواں سردرد کا موجب بھی بنتا ہے جوکہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا
ہے۔مختصر یہ کہ پلاسٹک اور پولی تھین اپنے ضرر رساں، مضر صحت اور انتہائی
نقصان دہ اثرات سے انسانی زندگی، حیوانات و نباتات، چرند پرند اور ہمارے
پورے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرتا ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ
ممالک میں تو پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی لگائی جاچکی ہے اور
کئی ممالک پابندی لگانے پر غور کرر ہے ہیں۔پلاسٹک کے تھیلے یا پولیتھین بیگ
کو عالمی سطح پر ناقابل استعمال قرار دیا جا چکا ہے۔کیونکہ ان کی وجہ سے ہم
کئی بیماریوں اور مسائل کا شکار ہو رہے ہیں لیکن اسکا متبادل ذریعہ دریافت
نہ کرنے کی وجہ سے اب یہ ہمارے معاشرے کا لازمی جز بن چکا ہے۔چین میں
پلاسٹک بیگز کے لیے الگ سے پیسے دینے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے پلاسٹک بیگز کے
استعمال میں نمایاں کمی آئی ہے۔سائنسدانوں کے مطابق یہ تھیلیاں گلنے کے لئے
اگر مٹی میں دبی ہو تو کم از کم ایک ہزار سال اور اگر پانی میں پڑے رہے تو
تقریباً 4500 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ اپنی ان منفی خصوصیات کی وجہ سے
پولیتھین بیگز پوری دنیا کے ماحول کی لئے سنگین خطرہ ثابت ہورہے ہیں۔ وزن
میں ہلکا ہونے کے باعث یہ بیگز ہوا کے ساتھ اڑتے رہتے ہیں اور نالیوں اور
سیوریج سسٹم تک پہنچ کر اسے بند کر دیتے ہیں۔ ان بیگز سے ماحول کے نقصان کو
بچانے کے لئے سمجھدار قوموں نے شاپنگ بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کردی
ہے اور کئی ملکوں میں دکان داروں کو پابند کیا گیا ہے اس کا متبادل تلاش
کرلیں۔بنگلہ دیش میں1988 اور 1998 میں آنے والا تباہ کن سیلاب کا ایک اہم
سبب ان بیگز کو قرار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کا ڈرینج سسٹم فیل ہوگیا
اور سیلابی کیفیت پیدا ہوگی۔
ماحول کو صاف ستھرا رکھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ماحول کی آلودگی کے
برے اور تباہ کن اثرات سے عوام کو با خبر نہ کیا جائے۔ اس وقت ضرورت اس بات
کی ہے کہ اشیائے ضرورت لانے لیجانے کیلئے کپڑے، پٹ سن اور کاغذ کے تھیلوں
اور لفافوں کے استعمال کو عام کیا جائے۔ ایسی اشیاء کی تیاری اور انہیں
عوام میں مقبول بنانے کیلئے ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اس کے
علاوہ حکومتی سطح پر پلاسٹک اور پولی تھین کے استعمال کے خلاف قوانین بنانے
اور ان پر سختی سے عملدرآمد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس موذی اور ضرر رساں شے
کے خلاف جہاں حکومت کو اپنے فرائض نبھانا ہوں گے، وہیں عوامی سطح پر بھی
رضاکار تنظیموں کو بھی چاہئے کہ اپنے اردگرد سے اس نقصان دہ عادت کو ختم
کرانے میں اپنا بھرپور تعاون شامل کریں۔ پاکستان بھر میں قائم تقریباً 8
ہزار یونٹس میں سالانہ 55ارب پولی تھین بیگ تیار کرتے ہیں۔پنجاب حکومت
پولیتھین کے شاپر بیگ بنانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔
ہماری حکومت اورضلعی انتظامیہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پلاسٹک کے شاپنگ
بیگز ہی ہمارے سیوریج سسٹم کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔جس کی روک تھام کیلئے
پنجاب حکومت صوبے بھر میں بلا امتیاز کارروائیاں کر رہی ہے محکمہ تحفظ
ماحول پنجاب نے صوبے بھر میں عوام کو پولیتھین بیگز کے استعمال سے پیدا
ہونے والے اثرات سے بچاؤ کے لیے جاری آپریشن کے دوران1674 ایسے مقامات کے
دورے کیے جہاں غیرقانونی پلاسٹک بیگز تیار ہو رہے تھے۔خلاف ورزی کے مرتکب
317یونٹس میں سے 257 یونٹس کے خلاف چالان کر کے مقدمات ماحولیاتی ٹربیونل
کو برائے کارروائی بھیج دیئے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی خصوصی
ہدایت پر پنجاب کو آلودگی سے پاک صوبہ بنانے کیلئے تما م اضلاع میں بلا
امتیاز کارروائیاں جاری ہیں۔حکومت پنجاب پولیتھین بیگز آرڈیننس 2002 کے تحت
پہلے ہی ایسے پلاسٹک بیگزکی تیاری پر مکمل پابندی عائد کر چکی ہے۔محکمہ
ماحول کی خصوصی ٹیموں نے پنجاب کے مختلف اضلاع میں باقاعدگی سے مہم جاری
رکھی ہوئی ہے جس کے دورس نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
پلاسٹک بیگزکی تیاری کوروکنے کے لیے ضروری ہے کہ پلاسٹک بیگ کی کمپنیوں پر
پابندی عائد کرکے جو کہ پنجاب حکومت کر بھی رہی ہے اس سے جڑے لوگوں کے لئے
متبادل ذریعہ معاش کا انتظام کیا جائے۔ دوکانوں کے لئے ضرورت کے مطابق
حکومتی سرپرستی میں کپڑے کے تھیلے بنائے جائیں جبکہ سبزی فروٹ وغیرہ کی
خریداری کے لئے ٹوکریوں کا استعمال عمل میں لایا جائے۔ پلاسٹک کے کم
استعمال سے ماحول کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ ماحولیاتی آلودگی،
اسباب اور حل کے لیے عوامی سطح پر
شعور و آگاہی کا انتظام کیا جائے۔اس کے علاوہ ہر پلاسٹک بیگ کے استعمال پر
ٹیکس لگایا جائے تاکہ پلاسٹک بیگز کے استعمال میں کمی لائی جا سکے۔
صوبائی وزیر تحفظ ماحول بیگم ذکیہ شاہنواز کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ
زندگی میں پلاسٹک بیگ اگرچہ باکفایت سہولت پیدا کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ
ہے کہ یہ بیگز انسانی صحت اور ماحول کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ کھانے پینے کی
اشیاء میں پلاسٹک بیگز کا بڑھتا ہوا استعمال کینسر سمیت دیگر موذی امراض کا
باعث بن رہا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر حکومت پنجاب ماحول کو آلودگی سے پاک
رکھنے اور اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لئے پولیتھین
بیگز کی مینوفیکچرنگ کی روک تھام کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ پنجاب
کے تمام اضلاع میں روزانہ کی بنیاد پر تمام فیلڈ دفاتر میں پولیتھین بیگ
بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ جو آرڈیننس کی
خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے، ان کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا رہی ہے۔
ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پولیتھین
بیگز کے نقصانات اور ان کی تلفی سے متعلق احتیاطی تدابیر کی ترسیل کے ذریعے
اہم کردار ادا کیا جا رہا ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے ہمیں پلاسٹک بیگ کی
بجائے کپڑے کے بیگ کے استعمال کے رجحان کو فروغ دینا ہے تاکہ ہم اپنے بچوں
کو متوقع بیماریوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس ضمن میں این جی اوز کا کردار بھی
قابل ذکر ہے۔
پرنسپل انوائرمینٹل سائنسز ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹرسعید احمد قیصرانی کا کہناہے کہ
پولیتھین بیگ یا لفافے وزن میں انتہائی ہلکے اور سستے ہوتے ہیں اور ہم
انہیں کسی بھی طرح سے استعمال کرسکتے ہیں۔ ان ہی فائدوں کو دیکھ کر ہم ان
کا بکثرت استعمال کرتے ہیں، لیکن اس کے مضر اثرات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ان پلاسٹک بیگز کو استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے، لیکن یہ اپنی کیمیاوی
خصوصیات کے باعث مٹی، پانی یا ہوا میں گلنے سڑنے کے بجائے ہمارے ماحول کے
لئے مضر اور ضرر رساں بن جاتے ہیں۔ ادارہ صحت مند ماحول کی اہمیت کو اجاگر
کرنے اور آلودگی میں کمی کے لئے تعلیم و تحقیق کے ذریعے اپنا بھرپور کردار
ادا کر رہا ہے۔ہمارا ماحول عدم توجہی کے باعث انتہائی آلودہ ہوچکا ہے، جبکہ
بے ہنگم ترقی اور اس کے ان دیکھے مضمرات بھی ہمارے ماحول کی آلودگی میں
برابر کے ذمہ دار ہیں۔ کیمیاوی اشیاء کا لاپرواہی سے استعمال اور اس کے
نتیجے میں غلاظت کا پھیلنا، ہمارے ماحول کو آلودہ کرنے کا بڑا سبب ہے۔
ہماری لاپرواہی کے نتیجے میں پانی، ہوا، زمین اور اس پر بسنے والے چرند و
پرند حیوانات اور انسان، یہاں تک کہ ہمارے درخت اور پودے بھی آلودگی کا
شکار ہوچکے ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں جتنی بھی غلاظت اور گندگی دیکھنے
میں آتی ہے اسے مضر صحت نہ بننے دینا ہی آج ہمارا سب سے اہم چیلنج ہے۔ جب
تک ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو صحیح طور سے نہیں سمجھ پائیں گے، اسے
آلودگیوں اور کثافتوں سے پاک و صاف نہیں رکھ پائیں گے۔ ہم جس ماحول میں
سانس لیتے ہیں ، جب تک اسی ماحول کو ان تمام اشیا اور آلائشوں سے پاک نہیں
رکھیں گے جو کثافت پھیلانے کی ذمہ دار ہیں، تب تک ہمارا دم گھٹتا ہی جائے
گا اور ہمارے لئے سانس لینا بھی دشوار بن جائے گا۔آلودگی سے پاک ماحول کی
فراہمی کے لئے ضروری ہے کہ پولیتھین بیگز کے استعمال کے رجحان کی حوصلہ
شکنی کی جائے، خصوصاً کالے پولی تھین بیگز کا استعمال تو فوری طور پر ترک
کیا جائے، جس سے نہ صرف سیوریج نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے، بلکہ ہوا کے
دوش پر اڑتی ہوئی تھیلیاں شہر کی خوبصورتی کو متاثر کرتی ہیں۔ ان پولی تھین
بیگز کے استعمال کی بجائے کپڑے یا کا غذکی تھیلیاں استعمال کرانے کا عوام
میں شعور بیدار کیا جائے، اس سلسلے میں شہری اور غیر سرکاری تنظیمیں اپنی
قومی ذمہ داری کے لئے کردار ادا کریں۔
جنرل امراض ماہر ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ پولی تھین بیگزمضرصحت
ہونے کے باوجود اسکا استعمال عام ہے جو باعث تشویش ہے، اس کے برے اثرات
ہماری صحت کو متاثر کررہے ہیں۔ اگرپولی تھین بیگز کو جلایا جائے تو ان کا
دھواں ہوا کو زہر آلودہ کردیتا ہے۔جس سے نہ صرف سانس کی بیماریاں پھیل رہی
ہیں بلکہ اسکے دھوئیں سے لوگوں کو کینسر کا مرض بھی لاحق ہورہاہے جو ہماری
آنکھوں، جلد اور نظام تنفس پر بری طرح سے اثر انداز ہوتا ہے اور یہی دھواں
سردرد کا موجب بھی بنتا ہے جوکہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔مختصر یہ کہ
کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل کے لیے پلاسٹک بیگز کی حوصلہ شکنی کرنے کی
ضرورت ہے نیزپولیتھین کا بے دریغ استعمال خواتین میں بڑھتے ہوئے بریسٹ
کینسر کی اہم وجہ ہے اس لیے اس کے استعمال کو ترک کرنا ہی وقت کی اہم ضرورت
ہے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات کے دپٹی ڈائریکٹر انجم ریاض کا کہناہے کہ شہریوں میں
اشیائے خوردونوش کو پولی تھین تھیلیوں میں پیک کرنے کا رجحان بڑی تیزی سے
بڑھ رہاہے جو انسانی و حیوانی حیات کیلئے زہر قاتل ہے ،سڑکوں ،گلیوں
،نالیوں اور کھلی جگہوں پر پھینکے گئے پولی تھین بیگز سے ما حولیاتی آلودگی
میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے، یہ بیگز استعمال کے بعد پھینکنے کے باوجود
اپنی کیمیائی خصوصیات اور اثر رکھنے کی وجہ سے مٹی ،پانی یا ہوا میں گلنے
سڑنے کی بجائے ہمارے ماحول کو بری طرح آلودہ کررہے ہیں،شہر میں سیوریج نظام
کی تباہی اور آئے دن نالیوں اور گٹر کے بند ہونے کا ایک بڑا سبب پولی تھین
بیگ ہیں، یہ شاپنگ بیگ ہمارے ماحول پر خطرناک حد تک منفی اثرات مرتب کررہے
ہیں، حکومت کوشش کررہی ہے کہ پولیتھین بیگز کے استعمال کی بجائے کپڑے یا کا
غذکی تھیلیاں استعمال کرانے کا شعور عوام میں بیدار کیا جائے، اس سلسلے میں
محکمہ تحفظ ماحولیات اپنی ذمہ داری کیلئے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔حا ل ہی
میں ہمارے محکمہ نے بند روڈ کے علاقہ میں کارروائی کی جہاں بیگز فیکٹر ی
میں پندرہ مائیکرون سے کم وزن پلاسٹک بیگز تیار کئے جارہے تھے۔نیزحکومت کی
طرف سے کالے رنگ کے شاپربیگز اور ایسے پولی تھین بیگز جنکی موٹائی
15مائیکرون سے کم ہے انکی تیاری ،فروخت ،استعمال اور درآمد ممنوع قرار دی
ہے کالے شاپر بیگز میں مضر صحت رنگ دیگر پولیتھین شاپر بیگز کی نسبت 2سے
3گنا زیادہ ہوتا ہے ان میں کھانے پینے کی گرم اشیاء کا استعمال صحت کیلئے
انتہائی خطرناک ہے 15مائیکرون سے کم موٹائی کے پولیتھین بیگز پر پابندی کی
وجہ ضائع شدہ پولیتھین بیگز کی ری سائیکلنگ کو فروغ دینا ہے کیونکہ
15مائیکرون سے کم موٹائی کے ضائع شدہ پولیتھین بیگز میں ان کے اپنے وزن سے
زیادہ گردوغبار ہوتاہے اور اس طرح نہ صرف اسکی ری سائیکلنگ مہنگی ہے بلکہ
مشکل ہے اور ری سائیکلنگ سے وابستہ کمپنیاں اور افراد اسے نہیں خریدتے جسکی
وجہ سے یہ گلیاں ،بازاروں اور سالڈویسٹ میں جمع ہوکر آلودگی کا باعث بنتے
ہیں پولی تھین ویسٹ نے آلودگی کے ساتھ ساتھ شہروں کا جمالیاتی حسن بھی تباہ
کرکھا ہے بلکہ سیورج سسٹم کی تباہی اور اْوورفلو کا باعث بھی ہیں کھلے عام
پڑے پولی تھین بیگز بارش وغیرہ کا پانی سٹور کر کے ڈینگی مچھر کی افزائش کا
باعث بھی بنتے ہیں نیز یہ فصلوں کی جڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جن کی وجہ سے
پیداوار میں کمی ہوتی ہے کئی ممالک میں ان کے استعما ل پر پابندی عائد ہے
مختلف ممالک میں ان کی وجہ سے سیورج سسٹم کے مسائل انتہائی شدت اختیار کر
گئے تھے جس کی وجہ
سے وہاں پر ان کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی وہاں عوام پٹ سن کے تھیلے
استعمال کرتے ہیں۔ آلودگی سے پاک ماحول کی فراہمی کیلئے ضروری ہے کہ
پولیتھین بیگز کے استعمال کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے، خصوصاً کالے
پولی تھین بیگز کا استعمال تو فوری طور پر ترک کیا جائے۔نیزہم سب کی ذمہ
داری ہے پلاسٹک کی بجائے کپڑے کے تھیلے استعمال کریں اگر اس پر کنٹرول نہ
کیا گیا تو ماحول کو آلودہ ہونے اور فصلات کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں روک
سکتا۔ فصلات کے تباہ ہونے کا مطلب غذائی قلت کا سامنا یقینی ہے اسی طرح
پولیتھین بیگز کی وجہ سے جہاں سیورج سسٹم متاثرہورہا ہے وہیں ہمیں صاف پانی
کی قلت بھی نظر آرہی ہے۔اس کے حوالے سے محکمہ دو طرح سے اپنی خدمات سرانجام
دے رہا ہے ،اول ،2002آرڈنینس کے مطابق جوفیکٹری 15مائیکرون سے کم موٹائی کے
پولیتھین بیگز تیار کرتی اس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتاہے۔ہمارے محکمے کی
کارروائی کے نتیجہ میں اس وقت معتدد کیسز عدالت میں چل رہے ہیں اور قانون
یہ ہے کہ کالے اور 15مائیکرون سے کم موٹائی والے شاپنگ بیگز کی تیاری
،فروخت ،استعمال اور درآمد ممنوع اور قانونا جرم ہے ،اس قانون کی خلاف ورزی
کرنے والوں کو 50ہزار روپے جرمانہ اور3ماہ قید یا دونوں سزائیں اکٹھی ہو
سکتی ہیں اور دوسرا بینرز اورسوشل میڈیا کے ذریعے اس کے استعمال سے منع کیا
جاتا اور لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ کپڑے اور کاغذ کے بیگز استعمال
کریں اور ماحول کو صاف بنائیں۔ |