فیس بک اور ہم

ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں ۔ ایک لوہار ایک چھری بناتا ہے ۔ تاکہ اس کو استعمال کر کے ہم کچن میں سبزیاں گوشت کو سنوار سکیں ۔ ان سے گلے حصے الگ کر کے اچھے حصے حاصل کر سکیں ۔ لیکن اگر کو ئی منفی ذہین اس کو خرید کر کسی کا پیٹ پھاڑ دیتا ہے۔ تو قصور لوہار کا نہیں ۔ ان ہاتھوں کا جس نے اس کا استعمال منفی کیا ۔ یہی حال پاکستان میں فیس بک کے استعمال کا ہے ۔ منفی ذہنیت نے اس کا استعمال منفی کیا ۔ اور مثبت سوچ والوں نےاسکا استعمال مثبت انداز میں کیا ۔ گرچہ پاکستان میں ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ کینیڈا کے صوبہ نوواسکو شیا کی رہائشی 17سالہ ریہتا پارسنز نے اس سال اپریل میں خودکشی کر لی اور اس کے مرنے کی وجہ انٹرنیٹ اور فیس بک کا استعمال تھا۔ کسی نے اس کی قابل اعتراض تصاویر فیس بک پر آویزاں کر دیں اور وہ یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکی اور اس نے زہر پھانک کر جان دیدی۔ ریہتا کی والدہ کے مطابق وہ کئی دنوں سے ذہنی انتشار کا شکار تھی اور اسے مختلف لڑکے ناجائز تعلقات استوار نہ کرنے کی صورت میں سنگین دھمکیاں دے رہے تھے ۔یہ ایک ہی واقعہ نہیں ہے بے شمار واقعات مزین ہیں ۔ کسی کی شادی ہوگئی ۔ توکسی کو طلاق ہوگئی ۔ کسی گھر کےجھگڑا ۔تو کسی کے گھر لڑائی ۔ کہیں مسالک کی الجھنیں ۔ اور کہیں سیاست کے مسائل ۔

بعض ایسی پوسٹیں بھی دیکھنے میں آئیں ۔ یہ بچہ بیمار ہے ۔ اور غریب ہے ۔ ان کے پاس علاج کے پیسے نہیں ۔ اگر آپ اس پوسٹ کو لائک کریں گے تو جتنے لائک ملیں گے فیس بک اس بچے کو پیسے ادا کرے گی ۔ یہ فقظ چند پیج کی ریٹنگ بڑھانے کا چکر ہے ۔ فیس بک کوئی فلاحی ادراہ نہیں ۔ وہ کسی قسم کی ایکٹیوٹی پر کسی کو رقم مہیا نہیں کرتا ۔ اب
پہلے ہم دیکھیں گے یہ کیسے وجود میں آئی ؟

فیس بک کے حوالے سے انٹرنیٹ پر سماجی ویب کا آغاز مارک زکربرگ نے 2004 4 فروری کو اپنےساتھیوں ڈسٹن اینڈریو ۔اڈوارڈو سا ورین کے ساتھ کیلفورنیا کے شہر مینلو میں کیا ۔ مارک زکر برگ ایک امریکی طالب علم تھا ۔ اس نے یہ سہولت اپنے ہاسٹل کے کمرے سےجوکہ جامعہ ہارڈورڈپارک میں ہے کیا ۔ مارک زکر برگ نے اپنے دوستوں کی مدد سے کام کا آغاز کیا ۔ تاکہ ایک دوسرے کو بہترطریقے سے جاننے کے سلسلے میں طلباء کی مدد کرنا تھا ۔ اس کے آغاز کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہارڈورڈکے بارہ سو طلباء کا اندارج ہوگیا ۔جلد ہی یہ سلسلہ دیگر کالجوں اور یونیورٹیوں تک پھیل گیا ۔ 2005کے آخر میں اس نیٹ ورک کا نام فیس بک رکھا گیا ۔ اس کے بعد یہ دنیا کی مختلف زبانوں میں بھی دستیاب تھا ۔

فیس بک جو طلباء کے باہمی رابطےسے شروع ہو کر بزنس ۔ مسالک ، سیا ست ۔ آرٹ۔ شاعری ۔ اور پھر عام آدمی کی دستبرد میں آ گئی ۔ اب اس میں لوہار کا قصور نہیں ۔ قصور ان ہاتھوں کا ہے۔ جو منفی سوچ کے حامل ہیں ۔ یوں منی بدنام ہوگئی ۔

Rashid Ahmed Nadeem
About the Author: Rashid Ahmed Nadeem Read More Articles by Rashid Ahmed Nadeem: 12 Articles with 12726 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.