نئی زندگی

۲۰ جنوری کو گیارہ بجے کلاس سے فارغ ہو کر گھر میں بات چیت ہو رہی تھی کہ پیٹ درد ہلکی ہلکی شروع ہو گئی ،مقامی ڈاکٹر سے دوائی لی مگرآرام نہ آیا شام ۷ بجے اپنے فیملی ڈاکٹرکے پاس گیا تو انہوں نے میو ہسپتال بھیج دیا کہ مسٔلہ سنگین ہے ساتھ اپنے لیٹر پیڈ پر ہسپتال کے ڈاکٹرز کو کچھ ٹیسٹ کرنے کا بھی کہا ۔ٹیسٹ کئے تو جگر کا مسٔلہ سامنے آیاکچھ آرام آنے کے بعد ہسپتال والوں نے گھر بھیج دیا اگلے دن طبیعت مزید خراب ہو گئی شام فیملی ڈاکٹر کے پاس گیا توانہوں نے پھر میو ہسپتال،میں اپنے میگزین کے ساتھی علی رضا کے ساتھ ہسپتال چلا گیا انہوں نے عارضی علاج کرکے آج پھر مجھے گھر بھیج دیا ۔ اتوار کو طبیعت کچھ ٹھیک رہی پیر کو شام کو طبیعت سخت خراب ہوگئی فیملی ڈاکٹر کے پاس پہنچا تو انہوں نے سب مریضوں کو چھوڑ کر مجھے چیک کیا تو انہوں نے کہا کہ ہسپتال والے آپ کو داخل کیوں نہیں کرتے؟آپ کی طبیعت سخت خراب ہے ۔آپ کو کوئی سنگین مسٔلہ درپیش ہے ۔آپ فوری ہسپتال جائیں پھر انہوں نے اپنے لیٹر پیڈ پر سرکاری مہر کے ساتھ ہسپتال کے ڈاکٹرز کو کچھ ہدایات یا آراء لکھ کر مجھے دیں ۔ہم ہسپتال پہنچ گئے ساتھ ہی ماموں ملک محمود الحسن ،سرفراز،حق نواز ،ملک قدیر بھی ہسپتال آگئے ۔ہسپتال ایمرجنسی میں میڈیکل اور سرجری شعبہ جات کے ڈاکٹرز اس بحث میں الجھ گئے کہ یہ ہمارا مریض نہیں ہے ۔مجھے ساتھی میڈیکل والوں کے پاس لے کر جاتے تو وہ کہتے کہ سرجری والوں کے پاس جاؤ سرجری والوں کے پاس جاتے تو وہ کہتے کہ میڈیکل والوں کے پاس جاؤ ۔صورت حال کو دیکھتے ہوئے ملک محمود الحسن ن لیگ لاہور کے جوائنٹ سیکرٹری نے بلال یاسین ایم این اے کو فون کیا کہ ہمارے مریض کو ایمرجنسی میں علاج کی سہولت میسر نہیں بلال یا سین نے ہسپتال فون کیا تو علاج شروع ہوگیا مجھے ۱۰۴ بخار تھا اپنی حالت سے بھی لا علم تھا ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ زندگی کے آخری سانس چل رہے ہیں زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہو گیا ۔ یقین ہوتا جا رہا تھا کہ اپنے خالق حقیقی کو کچھ دیر بعد ملنے والا ہوں۔۔۔۔ رات کافی بیت چکی تھی وقت دیکھنا یا پوچھنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اپنے آپ کا علم بھی نہ تھا اور یہ بھی علم نہ تھا کہ کہاں ہوں؟ایک وقت ایسا آیا کہ حق نواز بھائی کو دیکھا جو پاس کھڑا انتہائی پریشان تھا مگر شدید بیماری کے باعث اس سے بھی بات نہیں کر سکتا تھا۔

علاج کرتے کرتے دن کی روشنی نمودار ہوگئی مگر مجھے اس کا علم نہ ہو سکا ۔مجھے بیڈ سے اٹھا کر کہیں لیجانے کیلئے سٹریچر پر ڈالا گیا لفٹ کے ذریعے بالائی منزل سے نیچے لایا گیا جب ایمرجنسی سے باہر لایا گیا توچہرے پر بارش کے کچھ قطرات پڑے تو احساس ہوا کہ مجھے کہیں اور لیجایا جا رہا ہے ایمبولینس میں رکھا گیا تو سمجھا شائد کسی اور ہسپتال میں شفٹ کیا جارہا ہے میرا علاج کرنا میو ہسپتال والوں کے بس میں نہیں ہے ۔ایمبو لینس نے پانچ منٹ کے بعد کہیں اتارا وہاں سے مجھے کہیں میں منتقل کیا گیا ۔اس وقت تو علم نہ ہو سکا کہ میں کہاں آگیا ہوں البتہ چار پانچ گھنٹوں کے بعد جب کچھ حالت سنبھلی تو پتہ چلا کہ میو ہسپتال کی گوجرانوالہ وارڈ (ایسٹ سرجریکل وارڈ) میں شفٹ کردیا گیا ہے ۔یہ ۲۴ جنوری ۲۰۱۷ ء منگل کا دن تھا۔ہر روز ڈاکٹرز صبح کو راونڈ کرتے چیک کرکے چلے جاتے، ٹیسٹوں کو روزانہ کی بنیاد پر کیا جانے لگا ایک دن وراڈ کے ہیڈ ڈاکٹر امیر افضل راونڈ کرتے ہوئے میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ اس حالت میں بغیر تشخیص کے جو بھی آپ کا علاج کرے گا وہ خود بھی پریشان ہوگا اور تمہیں بھی پریشان کرے گا ۔ میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تشخیص کیلئے بتائیں کہ ہم کیا کریں انہوں نے کہا کہ آپ M.R.C.P اورP E.R.C.کروائیں پھر ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں گے ،میں نے استفسار کیا کہ میو ہسپتال سے یہ ٹیسٹ ہو جائیں گے تو ڈاکٹر امیر افضل نے بتایا کہ میو ہسپتال سے یہ ٹیسٹ نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں پر ان کی سہولت میسر نہیں ہے یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ ایشیاء کے سب سے بڑے ہسپتال میں ان ٹیسٹوں کی سہولت موجود نہیں یہ ٹیسٹ تو انتہائی اہم ہیں ان کی سہولت تو ہر سرکاری ہسپتال میں ہونی چاہیے یہ سہولت نہ ہونے کے باعث مریض تو بہت ذلیل ورسوا ہوتے ہوں گے حکومت کو چاہیے کہ ان ٹیسٹوں کی سہولتوں ملک بھر کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کرے ۔

M.R.C.P تو گنگا رام ہسپتال سے جلد ہی ہو گئی مگرE.R.C.P کروانا ہمارے لئے مشکل ترین کام ہوگیا کیونکہ اس ٹیسٹ کیلئے جس سرکاری ہسپتال سے رابطہ کرتے تین ماہ ،دو ماہ، پندرہ کا ٹائم ملتا ۔اتنی دیر انتظار کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا کیونکہ ۱۰۴ بخار دن میں دو سے تین بار ضرور ہوتا تھا جس سے حالت انتہائی خراب حد تک پہنچ چکی تھی ۔ حالت کومدنظر رکھتے ہوئے مخلص ساتھیوں ڈاکٹر نجم الدین اور بریگیڈئیر (ر) محمد حنیف صاحب نے سی ایم ایچ سے ای۔آر۔سی۔پی کروانے کا فیصلہ کرلیا دو دن میں ہی یہ ٹیسٹ اﷲ کی توفیق اور مدد سے ہوگیا ۔سی ایم ایچ کے ڈاکٹرز نے چھوٹی پتھریاں نکال دیں ایک بڑی پتھری رہ گئی جو آپریشن سے ہی نکل سکتی تھی ۔

دونوں ٹیسٹوں سے جو تشخیص ہوئی وہ یہ تھی کہ جگر کے باہر ایک تھیلی بن گئی ہے اور سی۔بی۔ڈی میں پتھری ہے اور آنتوں میں ہوا بھر ی ہوئی ہے ۔۱۶ جنوری کو آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا حسب معمول اسی دن آپریشن ہوگیا یہ آپریشن ڈاکٹر امیر افضل صاحب نے پوری محنت توجہ اور پیشہ وارنہ تجربے سے کیا ۔حالت نازک ہونے کے باعث آئی سی یو میں شفٹ کیا گیا جہاں چھ دن تک زیر علاج رہا ۔پھر باہر شفٹ کردیا گیا آپریشن کے بعد ڈاکٹر وزیر حسن جیسا نرم دل ،محنتی معالج ملا جنھوں نے شب وروز ایک کردئیے بھر پور توجہ دی ڈاکٹر ذیشان سرور،ڈاکٹر کاشف،ڈاکٹر حنیف کے اخلاق سے بے حد متاثر ہوانرسنگ سٹاف میں سے شکیل بھائی اور دیگر نرسز کی شبانہ روز محنت نے علاج میں اہم کرادر ادا کیا ۔چاردن وارڈ میں رہنے کے بعد ۲۵ جنوری کو ڈسچارج کردیا گیا مگر ڈرین اور ٹی ٹیوب نہیں نکالی کیوں کہ ڈاکٹر امیر افضل نے ڈاکٹرز کو کہا تھا کہ اس مریض کی یہ دونوں نالیاں لگی رہنے دیں جب تک ریڈیالوجی کی رپورٹ نہیں آجاتی۔

ریاڈیالوجی کی رپورٹ کے بعد آپریشن تھیٹر میں بلوایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے رپورٹ کا مطالعہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ابھی دو پتھریاں مزید ہیں صبح وارڈ میں آئیں اگلے دن وارڈ میں گیا تو ڈاکٹر امیر افضل نے رپورٹ دیکھی تو کہا کہ یہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ پتھریاں نہیں ہیں جن کو پتھریاں کہا جا رہا ہے وہ درحقیقت پتھریاں نہیں ہیں ۔باقی نالیاں بھی نکال دی گئیں چوبیس گھنٹے وارڈ میں ٹھہرنے کا کہا اگلی صبح راؤنڈ کے دوران مختصر ملاقات کے بعد گھر بھیج دیا گیا ۔چند دن کے بعد فیملی ڈاکٹر ،ڈاکٹر عدنان سرورسے ملاقات کی تو انھوں نے ایک تجربہ کار ڈاکٹر کے پاس الڑاساؤنڈ کیلئے ریفر کیا ۔الٹراساؤنڈ کیا گیا تو رپورٹ وہی تھی جو ڈاکٹر امیر افضل نے کہا تھا۔علاج کے دوران یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی کہ چھوٹے درجے کے عملہ کی تربیت کا شدید فقدان ہے ۔وارڈز میں لواحقین کے بیٹھنے کیلئے ڈیسک ،پرانے خستہ حال بیڈز اور گدے عوامی خدمت کی دعوے دار حکومت کو منہ چڑھا رہے تھے۔علاج کے دوران اسلامی اخوت و مواخات کا عظیم مظہر دیکھنے کو ملا ۔اﷲ تعالیٰ ان تمام احباب کی حفاظت فرمائے جنھوں نے بیماری کے دوران راقم کے ساتھ کسی قسم کا بھی تعاون کیا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244308 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.