یوم پاکستان پر نشتر پارک کراچی میں پاک سرزمین پارٹی کا کامیاب ورکرز کنونشن !

23 مارچ کی تاریخ نہ صرف یوم پاکستان کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ مصطفی کمال کی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے قیام کا بھی دن ہے یہی وجہ ہے کہ اس بار 23 مارچ کو پاک سرزمین پارٹی نے اپنا پہلا یوم تاسیس نشتر پارک میں شاندار ورکرز کنوینشن منعقد کرکے منایا جو کہ جوش و ولولے اورپاکستانیت کے اظہار کے ساتھ پی ایس پی کی قیادت اور کارکنوں کی شرکت کے حوالے سے بہت کامیاب رہا کہ نشتر پارک جہاں بڑی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنی عوامی قوت و حمایت کے اظہار کے لیے جلسہ عام منعقد کرتی رہی ہیں وہاں صرف ایک سال قبل وجود میں آنے والی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی نے ایک شاندار اور یادگار ورکرز کنونیشن منعقد کرکے نہ صرف اپنے ناقدین اور مخالفین کو خاموش کردیا بلکہ یہ کامیاب ورکرز کنوینشن کراچی میں 30 سال سے لسانی سیاست کے بل بوتے پربلاشرکت غیرے سیاست و حکومت کرنے والے نام نہاد عوامی رہنماؤں کے لیئے خطرے کی گھنٹی بھی بجاگیا کہ کراچی کا نشتر پارک وہ جلسہ گاہ ہے جہاں کوئی بھی سیاسی پارٹی جلسہ کرنے کے بعد دعویٰ کرتی ہے کہ کراچی والے ا س کے ساتھ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس عوامی جلسہ گاہ میں لگ بھگ 5ہزار افراد ہی باآسانی جمع ہوسکتے ہیں ،کروڑوں کی آبادی والے شہر کراچی کی اس جلسہ گاہ میں پانچ ہزار افراد کا اجتماع کرلینا کوئی اتنا بڑا کام نہیں لیکن اس کے باوجو د کئی سیاسی پارٹیاں یہاں جلسہ عام منعقد کرنے کے باوجود نشتر پارک کا پیٹ بھرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں یعنی میڈیا کے ذریعے ساری دنیا نے دیکھا کہ بڑے بڑے سیاسی لیڈر وں کی بڑی بڑی پارٹیاں بھی نشتر پارک کے جلسہ عام میں اتنی تعداد میں لوگوں کو جمع نہیں کر پائیں کہ یہ کہا جاسکے کہ فلاں پارٹی کے جلسہ عام میں نشتر پارک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔

نشتر پارک کراچی میں منعقد کیے جانے والے مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں کے جلسوں میں عوامی حاضری کے تناظر میں اگر ہم مصطفی کمال کی صرف ایک سال پرانی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے 23 مارچ کو یوم پاکستان کے روز اپنی پارٹی کے قیام کو ایک سال مکمل ہونے کی خوشی میں پہلا یوم تاسیس مناتے ہوئے صرف پی ایس پی کے قائدین اور کارکنوں پر مشتمل ورکرز کنونشن منعقد کرکے اس جلسہ گاہ کو صرف اپنے کارکنوں سے بھر کر دکھانے کے دعوے پر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی نے23 مارچ کو یوم پاکستان کے دن اپنا یوم تاسیس مناتے ہوئے اپنے کارکنان کا کامیاب ورکرز کنونشن منعقد کرکے سب کو حیران کردیا ہے کہ یہ پارٹی کنونشن کسی عام ہال میں نہیں بلکہ نشتر پارک جیسی تاریخی جگہ پر منعقد ہوا جہاں لوگ جلسہ کرنے کے موقع پر یہی سوچتے ہیں کہ اسے عوامی حاضری کے حوالے سے کیسے کامیاب بنایا جائے لیکن اس بار 23 مارچ کو پاک سرزمین پارٹی نے اس جلسہ گاہ میں اپنا کامیاب پارٹی ورکرز کنونشن کرکے اسے صرف اپنے کارکنوں سے بھر کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جو وعدوں اور دعووں کی سیاست کرنے والے نام نہاد عوامی لیڈروں کے لیئے یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے کہ 3 مارچ2016 کو سید مصطفی کمال نے اپنے دیرینہ ساتھی انیس قائم خانی کے ساتھ کراچی میں ایک طویل عرصہ کے بعد دھواں دار اور چونکا دینے والے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جو کچھ کہا اور جو وعدے اور دعوے کیئے وہ یکے بعد دیگرے حرف بہ حرف سچ ثابت ہوتے چلے گئے اور یوں سیاست دانوں ،تنقید نگاروں اور تجزیہ کاروں کے ساتھ ایک عام آدمی کو بھی اس بات کا پتہ چل گیا کہ سچ کی آج بھی ہمارے معاشرے میں کتنی اہمیت ،اثر اور قدر باقی ہے اور جو سچ بولتے ہیں ان کے ساتھ اﷲ تعالی کی مدد بھی شامل ہوتی ہے جس کی واضح مثال دو افراد سے شروع ہونے والی پاک سرزمین پارٹی کا پہلا یوم تاسیس ہے جس میں نشتر پارک کا میدان صرف پارٹی ورکرز سے ہی بھر دیا گیا جسے دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دلوں پر چھری چل گئی ہوگی کہ صر ف ایک سال کے عرصہ میں کسی سیاست دان اور اس کی سیاسی پارٹی کی ایسی عمدہ پوزیشن گزشتہ 10 سال کے دوران یقینا ایک چونکا دینے والی صورتحال ہے جس کی روشنی میں پاک سرزمین پارٹی کے روشن سیاسی مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر پاک سرزمین پارٹی نے اپنا پہلا یوم تاسیس مناتے ہوئے نشتر پارک کراچی کی معروف جلسہ گاہ میں اپنا پارٹی ورکرز کنونشن منعقد کیا جو کہ لوگوں کی تعداد کے حوالے سے کسی جلسے سے کم نہیں تھا اس موقع پر پارٹی ورکرز اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال نے کہا کہ :’’ قیام پاکستان کے وقت دو قومی نظریے نے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیاتھا اور آج پاکستان کو بچانے کے لیے ہمیں ایک قومی نظریے کی ضرورت ہے جو ’’ پاکستانیت ‘‘ ہے ،ہم سب کومہاجر ،سندھی ،بلوچی ،پٹھان اورپنجابی بن کر نہیں بلکہ صرف پاکستانی بن کر پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیئے کام کرنا ہوگا ۔ہم نے سیاست میں آکر عدم برداشت کا درس دیا اور سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں بدلنے سے روکنے کے لیئے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ہر قوم کے فرد سے گلے ملنے کی ترغیب دی ہم نے کہا کہ اپنے بدترین سیاسی مخالفین کو بھی گلے لگاؤ،مذہبی ،مسلکی ،قومی ،لسانی اور سیاسی اختلافات کو دشمنی میں نہ بدلا جائے ،ہر شخص کو اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کی آزادی ہونی چاہیے وہ جس کو چاہے ووٹ دے لیکن سیاسی اختلاف کی بنیاد پر کسی سے دشمنی نہ کی جائے‘‘۔مصطفی کمال نے اپنی پارٹی کے یوم تاسیس کے اہم ترین موقع پر جو زبردست عوامی خطاب کیا اس کا ایک ایک لفظ سننے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اس تقریر سے مصطفی کمال کے طرز سیاست کا فلسفہ اور نظریہ کھل کر سامنے آگیا ہے جس کے بعد اب ان لوگوں کا منہ تو بند ہو ہی جانا چاہیے جو مصطفی کمال کی قائم کردہ سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کو آج تک ایم کیو ایم کا ایک’’ دھڑا‘‘ اور ’’کمال گروپ‘‘ قراردے کر اس کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اور اہمیت کو کم کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اگر آج مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی آواز پر لوگ لبیک کہہ رہے ہیں تو اس کی وجہ سچائی ہے جس کا مظاہرہ مصطفی کمال اور ان کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی ایک سالہ کارکردگی اور مقبولیت کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔سب سے بڑی با ت جو عام پاکستانیوں کو مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی جانب راغب کررہی ہے وہ اس پارٹی کے قائد کے قول وفعل میں یکسانیت ، پاکستانیت کے اظہار سے بھرپور ان کی ملک گیر سیاست اور بلا امتیاز رنگ ونسل اور مذہب ومسلک قوم کی خدمت کا جذبہ جس کی وجہ سے لوگ جوق در جوق اس پارٹی کا حصہ بنتے چلے جارہے ہیں اور وہ پارٹی جو آج سے ایک سال قبل صرف 2 ،افراد سے شروع ہوئی تھی اپنے قول وفعل اور دعووں اور وعدوں کی سچائی کی وجہ سے اس وقت ہزاروں کارکنوں اور لاکھوں لوگوں کی پارٹی بن چکی ہے جسے نہ صرف کراچی ،حیدرآباد اور میرپور خاص میں زبردست پذیرائی حاصل ہورہی ہے بلکہ ملک کے چاروں صوبوں میں پاک سرزمین پارٹی کی قیادت کی باتوں کو بہت سنجیدگی کے ساتھ سنا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے پیش کردہ فلسفے اور نظریے کی سچائی کو دیکھتے ہوئے ملک کے ہر بڑے شہر میں پاک سرزمین پارٹی کے دفاتر قائم ہوچکے ہیں اورنہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ پاکستان سے باہر بھی بیشتر ممالک میں پاک سرزمین پارٹی کا تنظیمی سیٹ اپ قائم ہوچکا ہے جس سے اس پارٹی کی برق رفتار سیاست کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک سال قبل جنم لینے والی پارٹی آج لاکھوں عوام کے دلوں کی دھڑکن بن چکی ہے۔

پاکستانی سیاست میں قیام پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی نہایت تیز رفتار سیاست اور عوامی مقبولیت کے بعد یہ کسی سیاسی رہنما کی برق رفتار سیاست اور تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی عوامی پذیرائی کی دوسری سب سے بڑی مثال ہے ، اگر مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی عوامی مقبولیت اسی طرح بڑھتی گئی تو 2018 کے عام انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی کوئی بڑا سیاسی اپ سیٹ بھی کرسکتی ہے جس طرح ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے بعد ہونے والے پہلے ہی الیکشن میں زبردست انتخابی کامیابی حاصل کرکے پاکستان کی سیاست پر کئی عشروں سے قابض بڑے بڑے سیاسی بتوں کو شکست فاش دے کر مثالی مقبولیت اور انتخابی فتح کی انوکھی تاریخ رقم کی تھی ۔

مصطفی کمال کی پرکشش شخصیت اور ان کی حب الوطنی پر مبنی انقلابی سیات کو دیکھ کر ان میں بھٹو صاحب کی ہلکی سی جھلک دکھائی دیتی ہے گوکہ ان دونوں عوامی سیاسی رہنماؤں کے فیملی بیک گراؤنڈ ،تعلیمی پس منظر اور عملی سیاسی تجربہ میں خاصہ فرق پایا جاتا ہے لیکن پاکستان اور پاکستانی عوام کے خدمت کرنے کا جذبہ اور اس کے لیئے عملی اقدامات کرنے کی کوششیں ذوالفقار علی بھٹو اور مصطفی کمال میں پائے جانے والی وہ مشترکہ صفات ہیں جن کی وجہ سے آج ایک عام آدمی نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے کرپشن سے بھرپور مفاد پرستانہ طرز سیاست سے بے زار اور ناامید ہوکر اپنے مسائل کے حل کے لیئے مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی سے بہت سی امیدیں وابستہ کرلی ہیں جس کی وجہ سے مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کے دیگر قائدین کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آگئی ہے جس کا وزن دنیا کی کسی بھی بھاری چیز سے کہیں زیادہ ہے کہ عام لوگوں نے ان سے جو امیدیں وابستہ کرلی ہیں اگر انہوں نے بھی اقتدار میں آکر اسے پورا نہ کیا تو عوامی امنگوں کا اس بار جو خون بہے گا اس کے بعد اعلی انسانی اقدار کا جنازہ نکل جائے گااور شاید عوام اس کے بعد پھر کسی اور سیاست دان پر کبھی اعتماد نہیں کریں گے۔

کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دانوں سے تنگ آئی ہوئی پاکستانی عوام کے لیئے مصطفی کمال کی کہی گئی باتیں فی الحال ایک خوا ب ہیں جو انہیں اس بار پیپلز پارٹی ،نواز لیگ یا عمران خان نہیں بلکہ مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی دکھا رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ مصطفی کمال اور ان کی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے کئے گئے دعوے اور وعدے کب پورے ہوتے ہیں کہ اچھی اچھی باتیں اور عوامی مسائل کو حل کرکے دودھ کی نہریں بہانے کے دعوے اور وعدے تو اور بھی سیاست دان اس ملک کے عوام سے کرتے رہے ہیں لیکن افسوس کے ماسوائے چند ایک سچے اور محب وطن سیاست دانوں کے باقی سب نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے دعووں اور وعدوں کو کبھی پورا نہیں کیا اور بے چاری عوام ایک کے بعد دوسرے سیاسی لیڈر اور سیاسی پارٹی سے امیدیں باندھ کر اس کو ووٹ دے کر ایوان اقتدار میں پہنچانے کا ذریعہ بنتی رہی کہ شاید اس بار اس سے کیئے گئے وعدے پورے کردیئے جائیں لیکن ہمارے سیاست دانوں نے نہایت بے رحمی اور بے شرمی کے ساتھ عوامی امنگوں کا اس بری طرح خون بہایا کہ اب وہ بہت کم سیاست دانوں پر اعتبار اور اعتماد کرپاتے ہیں لیکن اگر آج عوام ایک بار پھر مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے کی گئی باتوں کو سن کر دیکھ کر اور سمجھ کر ان کی طرف راغب ہورہے ہیں تو یہ مایوس عوام کے لیئے شاید امید کی وہ آخری کرن ہے جس کے بعد صر ف اندھیرا ہی باقی رہ جاتا ہے لہذا مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیئے اپنی کہی گئی باتوں کے مطابق عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور انتخابی میدان میں فتح حاصل کرنے کے بعد اقتدار میں آتے ہی عوا م سے کیئے گئے تمام وعدوں کوپوری مستعدی ،ایمانداری اور مکمل پلاننگ کے ساتھ حل کیا جائے ۔

آخر میں دعا ہے کہ پاکستانی عوام کے لیئے امید کی نئی کرن بننے والے لیڈر مصطفی کمال اور ان کی قائم کردہ پاک سرزمین پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ سب کچھ نہ کریں جو اس سے قبل پاکستان کے دیگر بہت سے مفاد پرست سیاست دان کرتے چلے آئے ہیں بلکہ اﷲ تعالی ٰ مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کو اس ملک اور قوم کا ایسا مسیحا بنادے جو عوام کی روح اور جسم پر لگے ہوئے زخموں کا مداوا کرسکے، ان کی امیدوں اور اپنے کیئے گئے وعدوں اور دعووں کو پورا کرکے سیاست کے میدان کو مفاد پرستی اور کرپشن کی لعنت سے پاک کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانی قوم کی ترقی اور استحکام کے لیئے ایسے عملی اقدامات کرسکے جن کی وجہ سے اس ملک کے عوام کی تقدیر بدل جائے اور پاکستان کا شمار بھی ان فلاحی ملکوں میں کیا جانے لگے جہاں کا عام آدمی ایک پرامن اور خوش گوار ماحول میں معیاری تعلیم حاصل کرکے اچھے روزگار کے ساتھ اپنی فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکے اور جہاں کے عوام کو تمام بنیادی سہولیات ان کے گھر کی دہلیز پر مہیا کی جاتی ہوں۔(آمین)

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125241 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More